1988ء میں سوویت یونین نو سالہ جنگ اور جگ ہنسائی کے بعد افغانستان سے نکلا تو ایک سپر پاور کی فوجی پسپائی اور بعدازاں شرمناک شکست و ریخت کا سہرا کئی فریقوں نے اپنے سر سجایا، امریکہ پیش پیش تھا کہ اس نے جدید اسلحہ کے علاوہ اپنے عرب اتحادیوں کی دولت سے افغان مجاہدین کی مدد کی، پاکستان نے چالیس لاکھ مہاجرین کا بوجھ برداشت کیا اورسوویت یونین کی اس دھمکی کو خاطر میں نہیں لایا کہ وہ اپنے دفاعی اتحادی بھارت سے مل کر اسے سینڈ وچ بنا دے گا، پاکستان نے جس ہنگام دریائے آموپار کرنے پر سوویت یونین کی مزاحمت کرنے والے مجاہدین کی پیٹھ ٹھونکی، تو اس وقت امریکہ ہمارے ساتھ تھا نہ یورپ اور نہ ان کا کوئی حلیف و حاشیہ بردار، سوویت یونین کی عادت اور تاریخ سے آگاہ پاکستان کے فوجی حکمرانوں اور فیصلہ سازوں نے مزاحمت کا فیصلہ کیا کہ سفید ریچھ جہاں بھی گیا قبضہ کے بعد سکون سے نہیں بیٹھا آگے ہی بڑھا، وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ میں سوویت یونین کی دراندازی نمایاں مثال تھی، افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کو کسی نے سٹنگر میزائل کا کرشمہ قرار دیا اور کوئی اسے پیٹرو ڈالر کی کامیابی بتاتا رہا، افغان مجاہدین نے باہمی اختلافات سے یہ کامیابی امریکہ کی جھولی میں ڈال کر افغانستان کو خانہ جنگی کے حوالے کر دیا اور ایک ایک کر کے سارے نامور لیڈر تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہو گئے، برہان الدین ربانی، حکمت یار، احمد شاہ مسعود، عبدالرب عبدالرسول سیاف، محمد نبی محمدی، صبغت اللہ مجددی اور حاجی محمد دین میں سے کون ہے جس نے اقتدار کی جنگ کا حصہ بن کر نو سالہ قربانیوں کو ضائع نہیں کیا۔ حالت بانیجا رسید کہ "لیوے نہ کوئی نام ستم گر کہے بغیر"
رواں سال امریکہ سوویت یونین کی طرح افغان عوام، طالبان اور پاکستان سے محفوظ اور باعزت پسپائی کی بھیک مانگ کر سپر پاور کے اس قبرستان کو بائے بائے کہہ رہا ہے اور طالبان کے سوا کوئی کامیابی کا دعویدار نہیں، کوئی علاقائی سپر پاور نہ امریکہ کا حریف اور نہ کوئی ہمسایہ، ہر ایک کی پیشانی پر امریکہ کی اعانت کا داغ ہے اور کوئلوں کی دلالی میں سب کے ہاتھ کالے ہیں، کسی کے کم کسی کے زیادہ، 1988ء سے 1993ء کے دوران امریکہ نے پاکستان کے غیر دانش مند حکمرانوں کے ذریعے افغانستان میں خانہ جنگی کی بنیاد رکھی، ایک کمزور، غیر موثر مگر شریف النفس صبغت اللہ مجددی کو منصب صدارت پہ بٹھا کر پاکستانی حکمرانوں نے احمد شاہ مسعود کو کابل پر قبضے کا موقع فراہم کیا مقصد صرف گلبدین حکمت یار کوصدر ریگن سے ملاقات نہ کرنے کی سزا اور شمالی اتحاد و پختونوں کے مابین نسلی و لسانی کشمکش کو ہوا دینا تھا، افغان طالبان نے برہان الدین ربانی، احمد شاہ مسعود اور حکمتیار کو کابل سے نکال باہر کیا تو افغانستان کے ستر فیصد علاقے پر قابض اس حکومت کو امریکہ اور اس کے مسلم و غیر مسلم اتحادیوں نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ صرف ایک لسانی و نسلی گروہ کی نمائندہ حکومت ہے اس میں ازبکوں، تاجکوں اور ہزارہ کے وہ نمائندے شامل نہیں جو امریکہ اور بھارت کو عزیز ہیں اور انہی کے مفادات کے نگران دنیا بھر میں اکثریت کے غلبے کا جمہوری اُصول لاگو ہے اور 51فیصد کے نمائندے کو سوفیصد نمائندگی کا حق ملتا ہے مگر افغانستان میں تب سے اب تک دوہرا معیار چل رہا ہے اور آج بھی امریکہ کو بزور طاقت واپسی پر مجبور کرنے والے طالبان سے یہ مطالبہ کیا جا رہاہے کہ وہ کابل اور افغانستان پر مکمل قبضے کی سوچ ترک کر کے امریکی فوجی طاقت سے اقتدار پر قبضہ کرنے والوں کے ساتھ شراکت اقتدار پر راضی ہوں اور تیس فیصد حصہ قبول کر لیں، ڈرایا یہ جا رہا ہے کہ اگر طالبان نے جو اس وقت عملاً ملک کے پچاس فیصد سے زیادہ حصہ پر قابض ہیں کابل پر قبضے کی کوشش کی تو ایک بار پھر خانہ جنگی ہو گی اور افغانستان کا امن تباہ ہو جائے گا، اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ کابل کے جو حکمران اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ اور دیگر امریکہ و نیٹو کی فوجی موجودگی کے باوجود اپنے اقتدار کا دائرہ چند شہروں سے باہر وسیع نہ کر پائے، جن کی ساڑھے تین لاکھ فوج پچاس ساٹھ ہزار طالبان جنگجوئوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر، بیرکوں میں ڈنڈپیلتی نظر آتی ہے وہ امریکہ و نیٹو کی رخصتی کے بعد کتنا عرصہ فاتحین کا مقابلہ کریں گے اور کس برتے پر؟ طالبان کے سوا اس کامیابی اور فتح کا کوئی دعویدار ہے نہ افغانستان کو امن کی ضمانت فراہم کرنے کے قابل۔
پاکستان نے افغانستان میں روسی اور امریکی فوجی مداخلت کا مزہ چکھا اور خانہ جنگی کا بھی نقصان اٹھایا، طالبان حکومت عوام کے ووٹوں، سیاسی عمل اور مخالفین کی یورش سے ختم ہوئی نہ حامد کرزئی اور اشرف غنی کسی انتخابی و سیاسی عمل کی پیداوار ہیں۔ طالبان حکومت کو امریکہ نے جدید ہتھیاروں سے معزول کیا اور کرزئی و اشرف غنی کو طاقت کے بل بوتے پر کابل کا اقتدار سونپا، حالیہ صدارتی الیکشن میں عبداللہ عبداللہ نے کامیابی کا دعویٰ کیا اور حلف برداری کا فیصلہ کر لیا مگر امریکہ نے بزور قوت اسے اشرف غنی کے ساتھ شراکت اقتدار راضی کیا، یہی کھیل اب طالبان کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے جو امریکی انخلا کے منتظر ہیں اور مختلف اضلاعمیں پیش قدمی میں مصروف۔ قندوز، غزنی اور مزار شریف ان کی تگ و تاز کا مرکز ہیں اور افغان فوجی جوق در جوق طالبان کی صفوں میں شامل ہونے کے لئے بے تاب۔ بھارتی وزیر خارجہ کی طالبان قیادت سے ملاقات کی خواہش مستقبل کی صورت گری کو واضح کرتی ہے مگر پاکستان میں وزیر اعظم، وزیر خارجہ اور اپوزیشن رہنما ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں کہ طالبان امریکی خواہش اور منصوبے کے مطابق اشرف غنی اور دیگر کٹھ پتلیوں سے مل کر ایسی عبوری حکومت بنانے پر راضی نہ ہوئے جس میں اکثریتی حصہ ستر نہیں تو ساٹھ فیصد موجودہ شکست خوردہ اور امریکہ، یورپ اور بھارت کے آلہ کاروں کا ہو گا، زبردستی کابل پر قبضہ کی کوشش کی تو تباہ کن خانہ جنگی ہو گی اور علاقے کا امن پھر تباہ، یہ سوچنے کو کوئی تیار نہیں کہ جن لوگوں نے بیس سال تک امریکہ اور اس کی کٹھ پتلیوں کا مقابلہ کیا، جان و مال کی قربانی دی، اپنا اور اپنے خاندان کا مستقبل دائو پر لگایا اور محض ایمانی جذبے، قومی حمیّت اور غیر معمولی دلیری کے بل بوتے پر واحد سپر پاور کو سوویت یونین و برطانیہ کی طرح واپسی کی راہ دکھائی، اقبالؒ کی صدائے جرس "افغان باقی کہسار باقی" کا بھرم رکھاوہ ان کے ساتھ شریک اقتدار کیوں ہوں جن کے ہاتھ افغانوں کے خون سے رنگے ہیں اور جو تاریخ کی غلط سمت پر کھڑے ان کا مذاق اڑاتے رہے، اب بھی محض اپنے اقتدار کی خاطر مفاہمت کے جذبے سے عاری، افغان امن کو تباہ کرنے پر تلے ہیں۔
مذاکرات پر آمادہ ہیں نہ طالبان کے ساتھ پائیدار مفاہمت کے موڈ میں، پاکستان 1979ء سے افغان جنگوں اور خانہ جنگی سے براہ راست متاثرہ فریق اور خوب جانتا ہے کہ اس وقت وہ اگر عالمی و سفارتی مصلحتوں کی بنا پر غالب اور فاتح فریق کے ساتھ کھڑے ہونے کا متحمل نہیں تو کم از کم شکست خوردہ عناصر کے موقف کی ترجمانی سے گریز کرے، طالبان عصر کے وقت روزہ توڑنے سے انکاری ہیں، ہم کیوں غروب آفتاب کا منظر دیکھنے سے قاصر ہیں۔ فوجی اڈے دینے سے انکار کے بعد ہم امریکہ کو محض اس بات سے خوش نہیں کر سکتے کہ افغانستان میں ہمارا کوئی فیورٹ نہیں، کوئٹہ شوریٰ اور حقانی نیٹ ورک کے بارے میں ہمارے موقف کو امریکہ نے کبھی مانا نہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ نے پاکستان کو ہمارے ازلی دشمن بھارت پر ترجیح دی، ہم آخر کیوں " دیکھو اور انتظار کرو "کی پالیسی نہیں اپناتے، امریکی انخلا کے بعد کی صورت حال کے مطابق حکمت عملی اختیار کیوں نہیں کرتے، بینن سیون فارمولے اور 9/11کے بعد پرویز مشرف کی غلامانہ پالیسی کا خمیازہ بھگتنے کے بعد بھی ہم اس عطّار کے لونڈے سے دوا لینے پر آمادہ ہیں جس کے سبب پاکستان"مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی" کی کیفیت سے دوچارہے تو اللہ ہمارے حال پر رحم کرے کیا خاموشی پر بھی کچھ خرچ آتا ہے۔