حکومت نے نیب کے ذریعے رینجرز کی مدد سے عمران خان کی گرفتاری کا مرحلہ سر کر لیا۔ حکمران اتحاد کی دیرینہ خواہش پوری ہوئی کہ جس طرح عمران خان کے دور میں میاں نواز شریف، مریم نواز، آصف علی زرداری، فریال تالپور اور دیگر سیاسی قائدین کرپشن کے الزام میں پکڑے گئے، احتساب عدالت کی پیشیاں بھگتیں اور سزایاب ہوئے، عمران خان بھی مکافات عمل کا شکار ہوں، القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کیس میں کتنی جان ہے عدالتی تحقیقات کے بعد پتہ چلے گا، ویسے بھی یہ بعد کی بات ہے، سامنے کی بات یہ ہے کہ عمران خاں نیب کی تحویل میں ہیں، جو تفتیشی افسر شریف خاندان اور زرداری خاندان کے افراد سے تحقیقات کیا کرتے تھے وہ اب عمران خان سے پوچھ گچھ کریں گے اور عمران خان کو اپنے علاوہ اپنی اہلیہ بشریٰ بیگم(جنہیں موصوف اپنا مرشد قرار دے چکے ہیں) ملک ریاض آف بحریہ ٹائون اور بیرسٹر شہزاد اکبر پر عائد الزامات کا جواب دیں گے۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک میں جو ہوا، جذبہ انتقام سے سرشار حکمران اشرافیہ کو اس کا اندازہ تھا یا نہیں؟ وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ پروا مگر کسی کو نہیں۔ ہوتی تو یہ کام سلیقے سے کیا جاتا اور پیشگی حفاظتی انتظامات پر بھی توجہ دی جاتی۔
گرفتاری کے مضمرات کو زیر بحث لانے سے قبل حکومت پاکستان اور نیب کی تحسین لازم ہے۔ چینی وزیر خارجہ چن گانگ نے اسلام آباد میں اپنے پاکستانی ہم منصب بلاول بھٹو کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران ہماری قومی قیادت کو یہ مشورہ دیا کہ وہ باہمی قومی اتفاق رائے اور سیاسی استحکام کو یقینی بنائے جو معاشی استحکام کی شہ کلید ہے، کسی کا دبائو قبول نہ کرنے کی نیت سے حکومت نے دو روز بعد ہی عمران خان کو گرفتار کرکے اپنے دیرینہ اور آزمودہ دوست چین کو بتا دیا کہ ہم کسی کی ڈکٹیشن نہیں لیتے، البتہ کوئی اللہ کا بندہ ہمارے کشکول میں کچھ ڈالنا چاہے تو بسر و چشم، ہمارے سابق سپہ سالار جنرل باجوہ اس دریوزہ گری کو بھی حکمران اشرافیہ کی چالاکی اور دوسروں کو بے وقوف بنانے کے ہنر سے تعبیر کیا کرتے تھے۔
ایک سے زیادہ بار انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ہمارے حکمرانوں کو جب ضرورت پڑتی ہے، چین کا رخ کرتے ہیں۔ چینی قائدین کو بتاتے ہیں کہ ہماری آپ کی دوستی ہمالیہ سے بلند، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے، ہم ایک دوسرے کے ہمسائے ماں جائے ہیں، بھارت آپ کا بھی دشمن ہے ہمارا بھی، امریکہ سے ہمارا تعلق مجبوری کا ہے ورنہ وہ کون؟ ہم کون؟ جب چینی بھائی ہماری چکنی چپڑی باتوں سے مسحور ہو جاتے ہیں تو ہم اپنا کشکول آگے کر دیتے ہیں اور وہ کچھ نہ کچھ ڈالنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
پھر ہم واشنگٹن جا پہنچتے ہیں اور امریکیوں کو بتاتے ہیں کہ چین ہمارا ہمسایہ ضرور ہے مگر ہماری اس سے زبان ملتی ہے نہ خوراک، اصل شراکت دار تو ہم آپ کے ہیں، دونوں انگریزی بولتے، برگر اور سینڈ وچ کھاتے، اہل کتاب ہیں اور ایک دوسرے کے مزاج شناس، جب گھامڑ امریکی مائل بہ کرم نظر آتے ہیں تو ہم کشکول آگے کر دیتے ہیں، یہ ہماری ڈپلومیسی ہے اور یہی ہمارا طرز سیاست و حکمرانی۔
عمران خان کی گرفتاری سے ہم نے چینی دوستوں کو باور کرایا ہے کہ 1971ء کی طرح آج بھی ہم اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں اور کسی آزمودہ و دانا دوست کا مشورہ قبول کرنے کی صلاحیت سے بالکل پاک۔ نیب کو یوں داد دینا بنتی ہے کہ اُس کے چیئرمین اور عہدیدار یکم مئی کو گزٹیڈ چھٹی کے روز بھی دفتر میں بیٹھے، عمران خان کے وارنٹ گرفتاری تیار کر رہے تھے، یہ فرض شناسی و سخت کوشی اور اس پر مستزاد اول درجے کی راز داری کہ پورے آٹھ دن تک عمران خان و تحریک انصاف کو اس وارنٹ گرفتاری کی ہوا تک نہ لگنے دی۔
خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا، عمران خان کی گرفتاری کے بعد پنجاب اور خیبر پختونخوا میں جو ردعمل سامنے آیا وہ کسی سیاسی رہنما کی گرفتاری پر اپنی نوعیت کی واحد مثال ہے، بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف، آصف علی زرداری کی گرفتاری پر ان کے کارکنوں نے سڑکوں پر نکلنے کی زحمت نہیں کی البتہ بھٹو کی سزائے موت اور بے نظیر بھٹو کی شہادت پر پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے اس سے ملتا جلتا ردعمل ظاہر کیا۔
تحریک انصاف کا ردعمل اس لحاظ سے تشویشناک اور قابل توجہ تھا کہ اس نے کسی حکومتی عہدیدار کے دفتر کا رخ کیا نہ گھر کا، حتیٰ کہ پولیس و انتظامیہ کے دفاتر بھی محفوظ رہے، اس ردعمل پر حکمران اتحاد خوش ہے اور اس کے بعض پرجوش کارکن تحریک انصاف پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر کوئی سنجیدگی سے یہ سوچنے پر تیار نہیں کہ تحریک انصاف کے کارکنوں اور عمران خان کے شیدائیوں نے آخر اپنا غصہ روایتی اہداف پر نکالنے کے بجائے دوسرے مقامات کا رخ کیوں کیا؟ ایک روزہ ہنگاموں کے بعد اسلام آباد، پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں فوج طلب کرکے مرکزی اور ان دو صوبوں کی حکومتوں نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ امن و امان برقرار رکھنا ان کے بس کی بات نہیں اور ماضی کی طرح آج بھی پاک فوج ہی کسی شہر یا صوبے میں امن قائم رکھنے کے قابل ہے۔
1977ء کی تحریک میں فوج طلب کرنے کا مرحلہ ڈیڑھ دو ماہ بعد آیاتھا جبکہ ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے فوجی ادوارمیں بھی ایسا بہت کم ہوا، حکومت نے پہلے ہی دن انٹرنیٹ، سوشل میڈیا کی بندش سے یہی ثابت کیا کہ وہ حکمت و تدبیر کے بجائے صرف طاقت کے زور پر معاملہ سلجھانے کی خواہاں ہے۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد جب لاہور، اسلام آباد، پشاور اور دیگر کئی شہروں میں ہنگامہ آرائی جاری تھی اور کئی عمارتوں سے دھواں اٹھ رہا تھا تو مجھے 1977ء کا ایک واقعہ یاد آیا۔
کئی ہفتوں تک پولیس اور دیگر اداروں کے غیر انسانی تشدد اور گرفتاریوں کے بعد بھی 1977ء میں تحریک نظام مصطفی کا زور نہ ٹوٹا تو ذوالفقار علی بھٹونے راولپنڈی کے انٹرکانٹیننٹل ہوٹل میں مقیم پاکستان قومی اتحاد کے سربراہ پیر صاحب پگاڑا کو ہوٹل میں نظر بند کرنے کا حکم دیا اور ریڈیو پاکستان نے دو جملوں خبر نشر کی، قومی اتحاد کے دیگر قائدین ایئر مارشل اصغر خان، مولانا شاہ احمد نورانی، مفتی محمود وغیرہ پہلے ہی مختلف صوبوں کی جیلوں میں بند تھے۔
پیر صاحب کی نظربندی کی خبر سنتے ہی اندرون سندھ ہنگامے پھوٹ پڑے اور ملک کے دوسرے حصوں میں جاری تحریک میں شدت پیدا ہوئی، دو اڑھائی گھنٹوں کے اندر ذوالفقار علی بھٹو بذات خود راولپنڈی کے ہوٹل پہنچے، پیر صاحب سے ملے، نظر بندی پر معذرت کی اور فوری طور پر ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے عوام کو ملاقات اور نظر بندی کے احکامات واپس لینے کی خبر سے آگاہ کیا گیا۔ کئی گھنٹے تک ریڈیو اور ٹی وی کی ہیڈ لائن یہ رہی کہ " پیر صاحب نظر بند نہیں" چنانچہ سندھ میں حالات معمول پر آ گئے، منگل کے روز مگر صبح سے شام تک تماشہ دیکھا گیا۔
احتساب عدالت نے عمران خان کا آٹھ روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا ہے، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر گرفتار ہو گئے ہیں اور فواد چودھری سمیت دیگر رہنمائوں کی گرفتاری کے لئے پولیس سرگرم عمل ہے، سیاست میں گرفتاری نئی بات ہے نہ سیاستدانوں کے لئے سزائیں اور مخالفانہ پروپیگنڈا مہم مگر 9مئی کا دن جیسا کہ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں کہا گیا سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
سوچنا مگر یہ چاہیے کہ موجودہ سیاسی چپقلش، محاذ آرائی اور سیاسی، معاشی، آئینی بحران کا پائیدار حل کیا ہے؟ چینی مشورے کے مطابق مذاکرات، مفاہمت، اتفاق رائے اور عوام سے رجوع یا لڑائی، جھگڑا، تصادم اور ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی مجنونانہ خواہش کی تکمیل؟ ماضی سے سبق نہ سیکھنے کی روش نے پاکستان کو اس حال تک پہنچایا، باز ہم اب بھی نہیں آ رہے، قوم کو عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی ملنے کی اُمید نہ انصاف کی توقع۔ ؎
ظلم رہے اور امن بھی ہو
کیا ممکن ہے تم ہی کہو
ہنستی گاتی، روشن وادی
تاریکی میں ڈوب گئی
بیتے دن کی لاش پہ اے دل
میں روتا ہوں تو بھی رو
ظلم رہے اور امن بھی ہو