شکوہ و شکائت کے ہم عادی ہیں۔ مصحفی نے اڑھائی تین صدی قبل جو بات کہی وہ ہم پر صادق آتی ہے ؎
یہ زمانہ وہ ہے جس میں ہیں بزرگ و خورد جتنے
انہیں فرض ہو گیا ہے، گلۂ حیات کرنا
ملک سے گلہ، حکومت سے شکوہ اور اپنے مقدر سے شکائت، خود کو ہم بدلتے نہیں اور دوسروں سے اُمیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ عمران خان نے غلطی کی مہاتیر محمد اور طیب اردوان سے پیمان کر بیٹھے، اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی اور اعلیٰ سطحی کانفرنس کا دعوت نامہ قبول کر لیا۔ یہ موجودہ حکومت کا پہلا سفارتی بلنڈر تھا۔ ورنہ سفارتی محاذ پر حکومت سوا سال سے کامیابی ہی سمیٹتی چلی آ رہی ہے۔
جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت اور ایک تاریخی تقریر کے بعد عمران خان پاکستانی عوام کے علاوہ مہاتیر محمد اور طیب اردوان جیسے عالمی رہنمائوں کی آنکھ کا تارا بنے اور تینوں نے مل کر عالم اسلام کو موجودہ بے حسی اور ذلت آمیز بے بسی کی دلدل سے نکالنے کا فیصلہ کیا، جوش جذبات میں عمران خان مگر یہ بھول گئے کہ وہ کس قوم کے لیڈر اور کن دوست ممالک کے مقروض و محتاج ہیں؟غریب شاعر پاکستانی لیڈر سے زیادہ دور اندیش تھا ؎
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاویگی ہماری فاقہ مستی ایک دن
چین کی طرح سعودی عرب ہمارا آزمودہ دوست ہے جس نے مشکل کی ہر گھڑی میں ہماری دامے، درمے، سخنے مدد کی، قرض نہیں، امداد۔ قرض اور امداد کی لت ہمیں ماضی میں پڑی اور اب اس کا کڑوا پھل کھاتے ہوئے ہم واہی تباہی بک رہے ہیں۔ عمران خان سے غلطی ہوئی، ابتدائی مرحلے پر مناسب سوچ بچار کی نہ وزارت خارجہ سے سیر حاصل مشاورت، شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ ہیں وہ بھی اپنے وزیر اعظم کی مناسب رہنمائی نہ کر سکے، دن میں وزارت عظمیٰ کا خواب دیکھنے والے شخص کو شائد فرصت نہ تھی۔ سابقہ حکمرانوں کی طرح موجودہ حکمران بھی محدود حلقہ مشاورت بلکہ حلقہ خوشامد کے اسیر ہیں، ورنہ اس اہم معاملے پر سفارتی اُمور کے ماہرین، دانشوروں اور جامعات کے اساتذہ سے رہنمائی لے کر ایسی حکمت عملی بروئے کار لا سکتے تھے کہ خفت نہ اٹھانی پڑتی۔ غنیمت ہے کہ انہیں تین چار روز قبل خیال آ گیا اور سعودی عرب جا کر انہیں آٹے دال کا بھائو معلوم ہوا ورنہ کچھ بعید نہ تھا کہ کوالالمپور جا کر انہیں پتہ چلتا۔
ایک مقروض ملک آزاد خارجہ پالیسی اختیار کر سکتا ہے نہ اپنے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے قابل۔ قرض کی رقم اگر صنعتی و تجارتی ترقی، انفراسٹرکچر کی تعمیر اور روزگار کی فراہمی پر لگے تو قومی آمدنی میں اضافے کا موجب بنتی اور بالآخر قرض کی لعنت سے نجات میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ یہاں مگر صرف قرضے ہی نہیں قوم کے خون پسینے سے جمع ہونے والے ٹیکسوں کا بیشتر حصہ لوٹ مار کی نذر ہو گیا، بیرون ملک جائیدادوں کی خریدوفروخت، بنک بیلنس میں اضافے کا سبب بنا۔ اب قرضوں کی ادائیگی کے لئے ہمیں قرض اور امداد چاہیے اور یہی ہمارے پائوں کی وہ بیڑی ہے جسے کاٹنے کے لئے دوست تو آمادۂ تعاون ہیں قوم کا خوشحال طبقہ نہیں، تاجر، صنعت کار اور ڈاکٹر انجینئر کوئی خوشدلی سے ٹیکس دینا نہیں چاہتا، حکومت سے ہر سہولت اور رعائت طلب کرتا ہے، رعائت نہیں حق سمجھ کر۔ جن لوگوں نے ملک لوٹا، بیرون ملک جائیدادیں بنائیں اور منی ٹریل دینے کی پوزیشن میں نہیں ان سے ہمیں ہمدردی ہے گرفتاریوں پر ہم بے چین ہو جاتے ہیں اور حکومت و نیب کو انتقامی کارروائیوں کا ذمہ دارسمجھتے۔ رکشہ ڈرائیور اور ریڑھی والے سے لے کر بڑے صنعت کار وتاجر سمیت ہر شخص مہنگائی، بے روزگاری اور دوست ممالک کے سامنے شرمندگی کا ذمہ دار حکمرانوں کو قرار دیتا اور خوب درگت بناتا ہے، اپنا فرض ادا کرنے پر کوئی تیار نہیں۔ من و سلویٰ کی اُمید رکھتا ہے، مگر کیسے؟ شکوہ و شکایت کی یہ عادت اب متعدی مرض میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے اور مفت خوری، کام چوری ہمارا قوی شیوہ ؎
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
عمران خان سے ایک غلطی تو یہ ہوئی کہ اُس نے کوالالمپور کانفرنس کے حوالے سے خوب سوچ بچار نہ کی، دوسروں کو امتحان میں ڈالا خود بھی شرمندہ ہوا، اس سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ قوم کوبتانے پر تیار نہیں کہ قرضوں پر عیاشی کا کلچر تبدیل نہ ہوا، اپنوں اور بیگانوں پر انحصار جاری رہا اور ہم نے خود کفالت کا راستہ نہ اپنایا تو یہ شرمندگی بار بار اٹھانی پڑے گی۔ ترکی دو تین عشرے پہلے تک ہم سے زیادہ برے معاشی حالات کا شکار تھا، ملائشیا کے عوام نے بھی پیٹ کاٹ کر خود کفالت کی منزل حاصل کی۔ جب مہاتیر محمد اور اردوان نے قومی عزت نفس بحال کرنے اور خود انحصاری کی منزل تک پہنچنے کا فیصلہ کیا تو مراعات یافتہ طبقے نے شور مچایا، رکاوٹیں کھڑی کیں اور ناکامی کا ڈھنڈورا پیٹا، جمہوریت خطرے میں پڑی اور مخالفین سے انتقام کا الزام لگا مگر دونوں اصحاب بصیرت نے کسی کی پروا نہ کی اور آج مہاتیر و اردوان امریکہ و یورپ کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ محض اس لئے کہ امریکہ، آئی ایم ایف اور کسی دوست ملک کے مقروض ہیں نہ دست نگر۔ حالیہ واقعہ میں حکومت اور عمران خان کے لئے سبق یہ ہے کہ وہ اپنا حلقہ مشاورت وسیع کرے باتوں سے زیادہ کام پر توجہ دے اور معیشت کی بہتری کے لئے کئے گئے سخت فیصلوں کے نتائج و مضمرات سے عوام کو آگاہ کیا جائے۔ سفارتی نزاکتوں کا ادراک کئے بغیر جلد بازی میں فیصلوں کی عادت تباہ کن ہے اور ریاست کے علاوہ عمران خان کے لئے باعث ندامت، اعادہ نہ ہو تو بہتر ہے۔ سول اور خاکی قیادت ایک ہی صفحے پر نہ ہوتی تو یہی ایک غلطی کسی بڑے بحران کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی تھی کہ فیصلہ سازی کے عمل میں بدترین نقائص کا اظہار ہوا اور طیب اردوان کے بیان پر سعودی عرب کو بیان جاری کرنا پڑا۔ اردوان کو یہ بیان دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟یہ بھی اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ خدا کا شکر ہے کہ میزبان مہاتیرمحمد نے معاملات کو سنبھالا اور حتی المقدور پاکستان کی مجبوریوں کا احساس کیا لیکن تابکے؟۔ اب عمران خان فی الفور ترکی، سعودی عرب، ملائشیا اور متحدہ عرب امارات جا کر غلط فہمیوں کا ازالہ کریں تاکہ دوستوں کے دل صاف ہوں۔ سعودی عرب اور یو اے ای کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ حضور! او آئی سی مردہ گھوڑا ہے تو کب تک فعال اور بیدار مسلمان اس کی نعش کا پہرہ دیں اور آپ کی ناراضگی کے ڈر سے اہم ملّی مسائل کو نظر انداز کریں۔ کشمیر، فلسطین، روہنگیا وغیرہ پر عالم عرب اور او آئی سی پتھر دل ہے تو دوسروں کا کیا قصور؟ جو جذبہ اخوت اسلامی سے سرشار اور کشمیر و فلسطین کے مظلوموں کی آزادی کے لئے بے قرار ہیں، وہ کیوں آپ کی طرح بے حسّی کی چادر اوڑھے تماشا دیکھیں۔