Sunday, 24 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Nah Ho Jis Ko Khayal Aap Apni Halat Ke Badalne Ka

Nah Ho Jis Ko Khayal Aap Apni Halat Ke Badalne Ka

صدیوں قبل قحط نے دمشق کے خوش لقا، خوش طبع، خوش ذوق شہریوں کا جو حال کیا تھا، وہ اب کرونا وائرس دنیا کے 185ممالک کے ہنستے بستے باشندوں کا کر رہا ہے ؎

چناں قحط سالے شد اندر دمشق

کہ یاراں فراموش کردند عشق

(ایک سال دمشق میں ایسا خوفناک قحط پڑا کہ لوگ عشق تک بھول گئے)۔ شیخ مصلح الدین سعدی کی ندرت فکر قابل داد ہے کہ عشق میں عموماً انسان کو بھوک پیاس کی پروا نہیں رہتی مگر دمشق میں بھوک نے عشق بھلا دیا۔ کرونا وائرس سے کوئی امیر و طاقتور محفوظ ہے نہ غریب و کمزور، کسی ترقی یافتہ ریاست کے باشندوں کو اماں ہے نہ پسماندہ ممالک کے مفلوک الحال شہریوں کی جان محفوظ، سب سے برا حال اٹلی اور ایران میں بسنے والے بندگان خدا کا ہے، جہاں بے فکرے شہری حکومتی احکامات کو ہوا میں اڑاتے، خوش فعلیاں کرتے، ایک دوسرے سے ملتے جلتے، شاپنگ مالز، پارکوں اور مذہبی مقامات پر گھومتے پھرتے رہے اور آج نہ صرف خود سزا بھگت رہے ہیں بلکہ پورا معاشرہ اور ان کے پیارے بھی ان کی غلطی کا تاوان ادا کرنے پر مجبور ہیں۔

اٹلی قدیم تہذیب و تمدن کا گڑھ ہے اور یہ روم تھا جہاں سے اڑھائی ہزارسال قبل علم و دانش کے سوتے پھوٹے، بعد میں اگرچہ سیسلین مافیا نے اٹلی کا چہرہ داغدار کیا مگر اطالوی باشندوں کی اکثریت مہذب، شائستہ، وضعدار اور ملنسار ہے۔ ہماری طرح خوش اخلاقی سے مصافحہ و معانقہ کے عادی اور گھومنے پھرنے کے شوقین۔ اسی شوق اور عادت کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ مرنے والوں کو کفن میّسر ہے نہ عزیز و اقارب حتیٰ کہ باپ، بھائی، بیٹے کا کندھا، ایمبولینسیں کم پڑ گئیں ہیں اور بلدیہ کے ٹرک لاشیں اٹھا کر اجتماعی قبروں میں پھینک رہے ہیں۔ لواحقین کو صرف یہ اطلاع ملتی ہے کہ آپ کا عزیز فلاں قبرستان میں دفن ہے، مسلمان مرحومین کے صرف چھ اہلخانہ کو نماز جنازہ میں شرکت کی اجازت ہے اور وہ بھی کئی فٹ دور کھڑے ہو کر دعائے مغفرت کر سکتے ہیں، لاش کے قریب آنے اور اپنے پیارے کا منہ دیکھنے کی اجازت نہیں۔ غالب نے معلوم نہیں کس ترنگ میں آ کر کہہ دیا تھا ؎

ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا

نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

مگر اٹلی میں کرونا کی زد میں آ کر جان سے ہاتھ دھونے والے شہری بغیر آرزو اس انجام سے دوچار ہیں، بیشتر شہریوں کا جنازہ اُٹھ رہا ہے نہ کسی کو قبر بنانے کی فرصت اور دماغ۔ گزشتہ روز اٹلی اور ایران کے بعض مصروف، پررونق اور شادآباد شہروں کی ویڈیوز دیکھنے کا اتفاق ہوا، یقین نہ آیا یہ وہی شہر ہیں جنہیں دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوتی تھیں ؎

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے

دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

دشت میں بھی خوف کا وہ عالم نہیں ہوتا جو ان شہروں کے دیوار و در سے ہویدا ہے۔ ویران شہر، خاموش گلی کوچے اور سنسان گھر۔ افغان شاعر امیر جان صبوری کی ایک نظم یاد آ گئی، جو ان بے اماں شہروں پر صادق آتی ہے۔ ؎

شہر خالی جادہ خالی، کوچہ خالی، خانہ خالی

جام خالی، سفرہ خالی، ساغر و پیمانہ خالی

کوچ کردہ، دستہ دستہ، آشنایاں، عندلیباں

باغ خالی، باغچہ خالی، شاخہ خالی، لانہ خالی

(کیا ویرانی ہے، شہر خالی، راستے اور کوچے خالی لگتے ہیں، جام، دسترخواں، صراحی اور ساغر بھی خالی ہیں، رفتہ رفتہ تمام دوست، بلبلیں یاں سے کوچ کر گئیں۔ اسی بنا پر باغ، باغیچے، شاخیں اور گھونسلے سب کے سب خالی ہیں )؎

وائے از دنیا کہ یاراز یارمی ترسد

غنچہ ہائے تشنہ از گلزار می ترسد

عاشق از آوازہ دلدار می ترسد

پنجۂ خنیاگراں از تارمی ترسد

شاہسوار از جادۂ ہموار می ترسد

ایں طبیب از دیدن بیمار می ترسد

(حیف اس دنیا پر جہاں دوست دوست سے خائف ہے، کلیاں کھلنے سے پہلے باغ سے ڈرتی ہیں جہاں عاشق اپنے محبوب کی آواز سے ڈرتا ہے۔ موسیقار ساز کو چھونے سے ڈر رہا ہے اور مسافر آسان راستے سے بھی خوف کھا رہا ہے۔ ڈاکٹر مریض کو دیکھنے سے کترا رہا ہے۔ ؎

ساز ہا بشکست و در دِشاعراں از حد گزشت

سال ہائے انتظاری برمن و تو بدگزشت

آشنا ناآشنا شد، تابلی گفتن بلا شد

(سُر بکھیرنے والے ساز ٹوٹ چکے ہیں اور شاعروں کا درد حد سے تجاوز کر گیا ہے، تمہارے اور میرے انتظار کے کئی کربناک سال بیت چکے اور اس انتظار میں آشنا بیگانوں میں بدل گئے گرچہ میرا یہ کہنا کسی عذاب سے کم نہیں )؎

گریہ کردم، نالہ کردم، حلقہ برہردرزدم

سنگ سنگ کلبۂ ویرانہ را برسر زدم

آب از آبی نہ جنبید خفتہ در خوابی نہ جنبید

(میں خوب رویا، فریاد کی، ہر دروازے پردستک دی، حتیٰ کہ اس ویرانے کے پتھروں کی خاک اپنے سر پر ڈالی لیکن جیسے دریا اپنی گہرائی نہیں جانتا ایسے ہی کسی خوابیدہ شخص کو کیا معلوم کہ اس کی نیند کتنی گہری ہے) ؎

چشمۂ خشکیدہ و دریا خستگی رادم گرفت

آسماں افسانۂ مارا، بہ دست کم گرف

تجام ہا جوشی ندارد، عشق آغوشی ندارد

برمن و برنالہ ہایم، ہیچ کس گوشے ندارد

(چشمے سوکھ گئے، دریا نرم پڑ گئے، آسمان نے بھی میرے قصے کو کوئی اہمیت نہ دی۔ جام بے اثر ہو گئے سینوں میں بھڑکنے والی عشق کی آگ بجھ گئی۔ کسی نے بھی مجھے اور میری آہ و فغاں کو درخور اعتنا نہ سمجھا) ؎

باز آ تاکاروانِ رفتہ باز آید

باز آتا دلبرانِ ناز ناز آید

باز آتا مطرب و آہنگ و ساز آید

تاگل افشاناں نگار دلنواز آید

باز آتا بردر حافظ سر انداز یم

گل بہ افشا نیم و می درساغر انداز یم

(لوٹ آئو کہ روانہ ہو چکا قافلہ لوٹ آئے، لوٹ آئو کہ محبوبوں کے ناز و انداز لوٹ آئیں، لوٹ آئو کہ موسیقار اور اس کے سازکا آہنگ لوٹ آئے، اپنی زلفوں کی لٹیں لہراتا وہ دلنواز محبوب آجائے۔ لوٹ آ کہ ہم حافظ کے درپر سر جھکائیں، پھول برسائیں اور شراب کو پیالے میں ڈالیں۔ )

انشاء اللہ آزمائش کی اس گھڑی میں بھی حضرت انسان سرخرو ہو گا اپنی غلطیوں سے سبق سیکھے، کمزوریوں اور کوتاہی پر قابو پائے گا۔ صرف اٹلی اور ایران ہی نہیں، دنیا بھر کی رونقیں لوٹ آئیں گی کہ اللہ تعالیٰ انسان کو جان و مال کے نقصان اور کھیتوں، کھلیانوں، باغ و ثمر کی بربادی سے آزماتا ہے اور پھر معاف فرمادیتا ہے مہلت عطا کرتا ہے۔ ورحمتی و سِعَت کل شی ئ(اور میری رحمت ہر چیز پر حاوی ہے) سبق مگر ہمارے لئے یہ ہے کہ دوسروں کو دیکھ کر بڑے نقصان سے بچنے کی تدبیر کریں ؎

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا