استادِ محترم حسن نثار نے کیا خوب کہا "کبھی کبھی ایک واقعہ، سانحہ، المیہ قوموں کی اجتماعی نفسیات تباہ کر دے، جیسے ہیرو شیما سانحہ، جاپانی آج بھی اسکے اثر سے نہ نکل سکے، جیسے سقوطِ ڈھاکہ، یہ المیہ آج بھی ہمارے شعور، لاشعور میں موجود اور جیسے اب احتساب کا عمل، اگر اس بار یہ ناکام ہوگیا تو نہ صرف پاکستانی قوم کی نفسیات کا سوا ستیاناس ہوجائے گا بلکہ لفظ احتساب گالی بن جائے گا۔
دو دن پہلے ایک ریسٹورنٹ کی پارکنگ میں گاڑی سے اتر کر ابھی دوچار قدم ہی چل پایا کہ آواز آئی، بھٹی صاحب، کیا ہورہا ہے، کیا بنے گا، میں نے گھوم کر دیکھا تو میری گاڑی سے دوگاڑیاں چھوڑ کر ایک گاڑی سے ٹیک لگائے، پینٹ کوٹ میں سفید رنگت والا دراز قد شخص سگریٹ پیتا نظر آیا، میں نے کہا، کس کا کیا ہوگا، کس کا کیا بنے گا، جواب آیا "نواز شریف صاحب کا کیا ہور ہا، زرداری صاحب کا کیا بنے گا" میں نے مسکرا کر کہا"یہ فیصلہ عدالتوں کو کرنا ہے " سگریٹ کا کش لگا کر ہنستے ہوئے بولا" بھٹی صاحب چھوڑیں، ہم اتنے بھی بھولے نہیں، چھوٹے میاں پتلی گلی سے نکل چکے، بڑے میاں کہہ رہے "جمعہ جاتی امراء میں پڑھوں گا"زرداری صاحب کی ضمانتوں پر ضمانتیں" میں نے بات کاٹ کر کہا"فکر نہ کریں، اللہ فضل کر ے گا" اور یہ کہہ کر میں ریسٹورنٹ کی طرف بڑھ گیا۔
پچھلے ہفتے کی شام محلے کے میڈیکل اسٹور سے دوائیاں لینے گیا، ابھی پہلا قدم ہی اسٹور کے اند ررکھا کہ کاؤنٹرپر کھڑا شخص بول پڑا" سرجی واقعی احتساب ہو رہا یا سب کچھ ڈرامہ " میں نے کہا" نیب خود مختار، عدالتیں آزاد، ڈرامہ بازی کیسے ہو سکتی ہے " کہنے لگا" آپ کو یقین ہے کہ نیب خود مختار اور عدالتیں آزاد "میں نے کہا "ہاں "بولا " تو پھر شہباز شریف کیوں جیل کی بجائے منسٹر کالونی میں رہے، نواز شریف کےاتنے لاڈ کیوں ہو رہے، زرداری صاحب کی دھمکیوں پر خاموشی کیوں " میں نے کہا" شہباز شریف اپوزیشن لیڈر، پی اے سی کے چیئرمین، یہی وجہ کہ وہ منسٹر کالونی میں، نواز شریف صاحب بیمار، اس لئے ان کا خیال رکھا جارہا، زرداری صاحب کا منی لانڈرنگ کیس چل رہا ہے، تھوڑ اصبر کر لیں "میری بات کاٹ کر بولا" سرجی رہنے دیں، یہ سہولتیں عام قیدیوں کو کیوں نہیں، انہیں کیا سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں، مذاق بنادیا ملک کو، وہی پرانا چوہے بلی کا کھیل، اگر اس بار بھی کچھ نہ ہوا تو میں نے سوچ رکھا، سب کچھ بیچ کر بھائی کے پاس لندن چلا جاؤں گا، اس ملک میں اپنے بچوں کو نہیں رکھوں گا "میں نے مسکرانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا" اتنی مایوسی بھی کیا، اللہ بہتر کرے گا" اور ہاں میں یہاں سیاست ڈسکس کرنے نہیں دوائیاں لینے آیاتھا، یہ کہہ کر میں نے اسے دوائیوں والا کاغذ پکڑا دیا۔ چند دن پہلے پمز میں ایک دوست کی عیادت کیلئے گیا، گاڑی پارکنگ میں کھڑی کر کے کوڑے کے ڈھیر بنے لانوں، گند گی بھرے رستوں سے ہوتا ہوا جیسے ہی میڈیکل وارڈ میں داخل ہونے کیلئے دروازہ کھولا، بدبو کا ایسا بھبھوکا آیا کہ بے اختیار دونوں ہاتھوں سے ناک کے ساتھ منہ بھی چھپا لیا، آپ یہاں کہاں، لاہور جائیں، میاں صاحب کے اسپتال میں، وہاں خوشبوئیں ہوں گی، میں نے چہرے سے ہاتھ ہٹا کر دیکھا تو سامنے رجسٹر پکڑے ایک نوجوان ڈاکٹر کھڑا نظرآیا، میں نے کہاڈاکٹر صاحب " اتنی بدبو کیوں "جواب آیا" اس لئے کہ یہ ان انسانوں کا وارڈ جنہیں معاشرہ جانوروں سے بھی بدتر سمجھے، خود یکھ لیں، ایک ایک بیڈ پر دو دو لیٹے ہوؤں کو، جس دن انہیں انسان مان لیا گیا، اس دن ان کے وارڈوں کی بدبو بھی ختم ہو جائے گی " اس سے پہلے میں کوئی جواب دیتا، وہ پھر بول پڑا "یہ ملک دوفیصد اشرافیہ کا، ان کی جیلیں ہمارے گھروں سے بہتر، بس عمران خان سے امید کہ کچھ اچھا ہوجائے " یہ کہہ کر وہ مسلسل ہائے ہائے کرتی ایک اماں جی کی طرف اور میں اپنے مریض دوست کی طرف بڑھ گیا۔
پچھلے جمعے کو نماز پڑھ کر جیسے ہی مسجد سے باہر نکلا توسامنے کھڑے ایک بابا جی نے گھیر لیا، سلام دعا کے بعد بولے " بیٹا مجھے یہ سمجھ نہ آئے جب بات کسی بڑے کی ہوتو میڈیا، اداروں اور قوم کی مامتا کیوں جاگ جاتی ہے، سب تڑپنے کیوں لگ جاتے ہیں، ایک کرپٹ کیلئے، بیٹا عمران خان کو بتاؤ کہ سب ٹوپی ڈرامہ ہو رہا، اس کے اپنے وزیر اور بیوروکریٹ کرپٹ لوگوں سے ملے ہوئے، جس طرح کا احتساب ہور ہاہے، اسی طرح سو سال ہوتا رہے تو بھی کچھ حاصل وصول نہیں ہوگا، یہ وائٹ کالر کرائم، لاڈ بھری لوریوں سے کام نہیں چلے گا، بے رحم احتساب کی ضرورت" یہ کہہ کر بابا جی نے سانسیں درست کیں، ایک آدھ لمحے کیلئے مجھے دیکھا اورپھر مسجد کی پارکنگ میں کھڑی اپنی گاڑی کی طرف جانے سے پہلے بولے " بیٹا اس بار بھی ملک لوٹنے والے بچ گئے تو پھر 22 کروڑ کیلئے اندھیرا ہی اندھیرا"۔ گزشتہ سوموار ایک دوست کے بھائی کی شادی پر جانا ہوا، وہاں جو بھی ملا احتسابی عمل پر طنزکرتا، فقرے کستا، طرح طرح کی سازشی تھیوریاں سناتا ہی ملا، سب کے سب امید، مایوسی میں فٹبال بنے ہوئے، ملک لوٹنے والوں کو منطقی انجام تک پہنچایا جاسکے گا، لٹی دولت واپس آئے گی، سب اسی ٹوہ میں، ایک یونیورسٹی اسٹوڈنٹ نے کیا مزیدار بات کی، کہنے لگا، ہمارے سیاستدان کتنے سیانے، یہ قانون بنارکھا "زیر حراست رکن اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری کروا کر اسے اسمبلی اجلاس لایا جاسکے، حالانکہ قانون یہ ہونا چاہئے، جیسے ہی کوئی رکن اسمبلی کسی الزام میں گرفتار ہو اسکی رکنیت معطل ہوجائے اور تب تک رہے جب تک وہ بری یا ضمانت پر باہرنہ آئے "، خیر یہ تو پڑھے لکھے لوگ، مجھے تو اپنی گلی کے گارڈ نے لاجواب کر دیا، پرسوں رات ملا، علیک سلیک کے بعد بولا" سرجی ایک بات تو بتائیں "میں نے کہا، پوچھو، کہنے لگا، جو سلوک نواز، شہباز سے جیلوں میں ہو، وہ ہم سے جیلوں کے باہر بھی کیوں نہیں ہوتا، مجھے چپ کھڑا دیکھ کر دوبارہ بولا، سر جی جب بھی ہمارے بڑے پھنسنے لگتے ہیں، تب کون ہے جوان کے "حفاظتی بندوبست، کر دیتا ہے، میں نے لمحہ بھر کیلئے اسے بے یقینی سے دیکھا اور پھر کوئی دوسری بات چھیڑ دی۔
یہ چند نمونے، ایسی بیسیوں مثالیں اور بھی، روز لوگ ملیں، طرح طرح کے سوال، عجیب وغریب قسم کے فلسفے، بھانت بھانت کی بولیاں، بہت کم مہنگائی، بے روزگاری کا رونا رونے والے، زیادہ وہ جو بلاامتیاز، بے رحم احتساب کے خواہشمند، ڈیلوں، ڈھیلوں کے کٹر مخالف، یقین جانئے روزانہ یہ باتیں سن سن کراور آئے روز لوگوں کو بھگت بھگت کرمجھے استادِ محترم حسن نثار کا کہا ایک ایک لفظ سچ لگے کہ "کبھی کبھی ایک واقعہ، سانحہ، المیہ قوموں کی اجتماعی نفسیات تباہ کر دے، جیسے ہیرو شیما سانحہ، جاپانی آج بھی اس کے اثر سے نہیں نکل سکے، جیسے سقوطِ ڈھاکہ، یہ المیہ آج بھی ہمارے شعور، لاشعور میں موجود اورجیسے اب احتساب کا عمل، اگر اس بار یہ ناکام ہوگیا تو نہ صرف پاکستانی قوم کی نفسیات کا سوا ستیاناس ہوجائے گا بلکہ لفظ احتساب گالی بن جائے گا۔