شرمیلا فاروقی بول رہی تھیں، میں دم بخود سن رہا تھا، یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے، 1997کی کہانی 2019میں دہرائی جا سکتی ہے، مکافاتِ عمل کی ایک کلاسیکل مثال، شرمیلا فاروقی کہہ رہی تھیں، یہ1997کی بات، نواز شریف کا دوسرا دورِ حکومت، سیف الرحمٰن احتساب بیورو کے چیئرمین، میرے والد عثمان فاروقی کو گرفتار کیا گیا، وہ 1988سے دل کے مریض، جیل میں ان کی طبیعت خراب ہوئی، جیل کا ڈاکٹر آیا، معائنہ کیا، کہا، آپ کو تفصیلی معائنے کی ضرورت، ہمیں پتا چلا، ہم نے جیل حکام، احتساب بیورو، حکومت سے درخواستیں کیں کہ ان کا چیک اپ کروایا جائے، سب نے انکار کر دیا، ہم عدالت چلے گئے، عدالت کے حکم پر میڈیکل بورڈ نے میرے والد کا معائنہ کیا، سب ڈاکٹروں کا متفقہ فیصلہ، فوری طور پر اوپن ہارٹ سرجری، ہم نے حکومت سے درخواست کی، حکومت نے انکار کر دیا، ہم نے دوبارہ عدالت سے رجوع کیا، عدالت کے کہنے پر اوپن ہارٹ سرجری کی اجاز ت ملی، مگر سیف الرحمٰن اس قدر سنگدل اور بے رحم کہ پہلے کہا فاروقی خاندان جھوٹ بول رہا، ڈرامے کر رہا، عثمان فاروقی کو دل کی تکلیف نہ اس کا دل کا آپریشن ہونا، پھر اس نے آپریشن کے دوران آپریشن تھیٹر میں وڈیو بنوائی کہ واقعی دل کا آپریشن ہو رہا ہے یا نہیں۔
خیر اوپن ہارٹ سرجری ہوگئی لیکن ڈھائی دن بعد ڈاکٹروں کے منع کرنے اور ہمارے ترلے منتوں کے باوجود نواز حکومت کے کہنے پر میرے والد کو اسپتال سے جیل پہنچا دیا گیا، مجھے اچھی طرح یاد، ان کے ٹانکوں سے خون رس رہا تھا، وہ سخت تکلیف میں تھے، میں نے اس ظلم کے خلاف جیل کے سامنے دھرنا دیا، بہت روئی مگر حکومت کو رحم نہ آیا، یہاں پہنچ کر نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے شرمیلا فاروقی کی آواز بھرا گئی، وہ لمحہ بھر رک کر دوبارہ بولیں "میرے زخم آج بھی تازہ، میں آج بھی دکھی، مجھے یہ علم نواز شریف مکافاتِ عمل سے دوچار، مگر پھر بھی میں نواز شریف، مریم نواز کیلئے دعاگو ہوں " شرمیلا فاروقی کی بات ختم ہوئی، میں نے ٹی وی آف کیا، دماغ آن ہوگیا، میں سوچنے لگا، کیا مکافاتِ عمل، کل دل کا مریض عثمان فاروقی اور نواز حکومت کی جیل میں، آج نواز شریف خود دل کا مریض اور جیل میں، کل نواز دور میں شرمیلا فاروقی اپنے والد کیلئے آنسو بہا رہی تھیں، آج نواز شریف کیلئے خود ان کی بیٹی مریم نواز آنسو بہا رہیں، اللہ رحم، اللہ سب کی مشکلیں آسان فرمائے اور ہاں اگر اقتدار کے گھوڑوں پر سوار آج کے شہسوار کچھ سیکھنا چاہیں تو عثمان فاروقی سے نواز شریف تک، شرمیلا فاروقی سے مریم نواز تک اس کہانی میں عبرت ہی عبرت۔
اب بات طبی بنیادوں پر ملی ضمانت کی، اسلام آباد ہائیکورٹ نے 8ہفتے کا ریلیف دیدیا، اچھا فیصلہ، بقول جسٹس عامر فاروق عدالت کے پاس 4آپشن، میاں صاحب کو مستقل ضمانت دیدی جائے، مخصوص مدت کیلئے ضمانت دیدی جائے، کیس پنجاب حکومت کو واپس بھیج دیا جائے یا درخواست ضمانت مسترد کر دی جائے، مستقل ضمانت اس لئےنہ دی گئی کیونکہ نیب نے مستقل ضمانت اور بیرونِ ملک علاج کی مخالفت کی، نیب کا کہنا تھا کہ اسی کیس میں سپریم کورٹ مخصوص مدت (6ہفتے کا ریلیف دے کر) پیرامیٹرز سیٹ کر چکی، لہٰذا اس بار بھی مخصوص مدت کیلئے ضمانت دی جائے، پنجاب حکومت کو کیس اس لئے نہ بھیجا گیا کیونکہ خواجہ حارث نے کہا، حکومت ہماری مخالف، کیس اسے نہ بھیجا جائے، لہٰذا عدالت کے پاس دو آپشنز، مخصوص مدت تک ضمانت یا درخواستِ ضمانت مسترد کر دی جائے، آخر کار 8ہفتے کیلئے ریلیف دیدیا گیا۔
اب ایک دلچسپ بات، نواز شریف کے وکلا لاہور ہائیکورٹ، اسلام آباد ہائیکورٹ، سپریم کورٹ میں طبی بنیادوں پر 5بار رحم کی اپیلیں کر چکے، ابھی آخری درخواست ضمانت میں کہا گیا، نواز شریف 70سال کے، سینئر سٹیزن، بہت بیمار، سخت اعصابی تناؤ و ذہنی دباؤ میں، یہ انسانی حقوق کا معاملہ، طبی بنیادوں پر ضمانت دی جائے، خواجہ حارث کئی بار کہہ چکے، نواز شریف نے کبھی یہاں علاج نہیں کروایا، ان کا ڈاکٹر لارنس لندن میں، ہمارے پاس ڈاکٹر لارنس سے علاج کے علاوہ کوئی آپشن نہیں، ابھی پچھلی مرتبہ اسی العزیزیہ کیس میں جب سپریم کورٹ نے میاں صاحب کو 6ہفتے کا ریلیف دیا تو خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا تھاکہ نواز شریف جیل میں رہے تو اچانک موت کا خطرہ، یہ علیحدہ بات 6ہفتوں بعد چیف جسٹس کو کہنا پڑا، جب 5میڈیکل بورڈوں اور 31ڈاکٹروں نے میاں صاحب کی فوری انجیو گرافی کی سفارش کی تھی، تب ہمیں لگا، میاں صاحب کی زندگی کو خطرہ، ہم نے 6ہفتے کا ریلیف دیدیا تاکہ آپ علاج کرواسکیں، مگر آپ 6ہفتے صرف ٹیسٹ ہی کرواتے رہے، وہ انجیو گرافی جو ایک گھنٹے میں ہو جائے، آپ 6ہفتے میں نہ کروا سکے۔
لیکن اب ایک طرف طبی بنیادوں پر رحم کی درخواستیں، طبی بنیادوں پر جیلوں میں ریلیف پہ ریلیف، طبی بنیادوں پر میاں صاحب کو لندن لے جانا جبکہ دوسری طرف مسلم لیگ، میرے ملک کے دانشور، ارسطو مسلسل یہ چورن بیچ رہے کہ میاں صاحب ڈٹے ہوئے، وہ تو چیک اپ بھی نہ کرواتے اگر شہباز شریف انہیں قائل نہ کرتے، وہ تو جیل سے اسپتال نہ جاتے، اگر والدہ، مریم، خاندان انہیں مجبور نہ کرتے، وہ تو پاکستانی ڈاکٹروں، اسپتالوں سے علاج کروانا چاہ رہے، یہ تو ان کے ترلے منتیں کی جا رہیں کہ آپ لندن یا امریکہ جاکر علاج کروائیں، ان دنوں ٹی وی اسکرینوں، سوشل میڈیا پر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت یہ بات گھمائی بلکہ گھما گھا کر گھمائی جا رہی بلکہ 8ہفتہ ریلیف کے بعد تو سوشل میڈیا پر یہ بحث بھی ہوتے دیکھی کہ اب میاں صاحب کو باہر علاج کرانے کیلئے کون راضی کرے گا، سبحان اللہ ’خودی، کے یہ باسی ابال، کمال ہے بھائی کمال، میرے پیارے بہنو تے بھراؤ، اللہ، میاں صاحب کو صحت عطا فرمائے، اللہ زرداری صاحب کو بھی صحت عطا فرمائے، مگر براہِ مہربانی ان پر رحم کریں، انہیں وہی رہنے دیں جو یہ ہیں، یہ سب حادثات، اتفاقات کی پیداوار، آپ ان سب کو اچھی طرح بلکہ خوب اچھی طرح نچوڑ بھی لیں پھر بھی ان میں سے چند قطرے بلکہ چند بوندیں ’منڈیلا پن، کی بھی نہیں نکلیں گی، باقی آپ کی مرضی۔