Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Overbilling Ki Saza Kisay Milay

Overbilling Ki Saza Kisay Milay

کسی ایک ادارے کے خلاف اتنی شکایات ہوں تو حیرت ہوتی ہے۔ اگلے روز وفاقی محتسب سیکرٹریٹ جانے کا اتفاق ہوا۔ بلڈنگ کے نیچے موجود فوٹو کاپی والے نے ایک پرنٹڈ فارم کا پلندہ میز پر رکھا ہوا تھا۔ وہ لڑکا سمجھدار لگا کہ اس نے محتسب کے نام درخواست کا پرفارمہ بنا کر کافی تعداد میں پرنٹ نکال لیے تھے۔ ان پر درخواست دھندہ نے صرف اپنا نام لکھنا تھا اس کے سوا وہ پرفارمہ پہلے سے ہی مکمل پر کیا ہوا تھا۔

مجھے حیرت ہوئی کہ شکایت سے متعلقہ خانے میں بھی ایک ہی ادارے "واپڈا /لیسکو" کا نام پہلے سے لکھ رکھا تھا اور شکایت کے طور پر "اوور بلنگ"لکھا ہوا تھا۔ یہ مارکیٹنگ یا کاروبار کے نقطہ نظر سے تو اہم تھا کہ اس نوجوان نے وقت کی بچت کر لی تھی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وفاقی محتسب کے پاس لیسکو کے خلاف ہی درخواستیں موصول ہو رہی ہیں؟ میں محتسب کے دفتر گیا تو وہاں ایک ہجوم اپنی باری کا منتظر تھا۔ جتنے افراد سے بات ہوئی وہ سب لیسکو کے متاثرین ہی نکلے۔

وفاقی محتسب یقیناََ لوگوں کے مسائل حل کرا رہے ہوں گے اور میرا گمان ہے کہ ان کے دفتر میں اتنی بڑی تعداد میں آنے والے عام شہریوں کی پریشانی کا ازالہ ہو رہا ہوگا۔ اس کے باوجود کئی سوال اپنی جگہ موجود ہیں۔ اوور بلنگ، میٹر کی خرابی، یونٹ زیادہ ڈالنے کے پیچھے نااہلی یا کرپشن کا ایسا کونسا بازار گرم ہے کہ یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے کہ غلطی یا کوتاہی ایک بار ہوتی ہے، اگر وہی عمل دوسری تیسری بار بھی ہو تو سمجھ جائیں یہ غلطی نہیں بلکہ عادت ہے۔

لیسکو کے افسران محتسب کے دفتر حاضر ہوتے رہتے ہیں کیونکہ وہ بھی اس سب کے عادی ہو چکے ہیں اور واپس جا کر پھرسلسلہ وہیں سے شروع ہو جاتا ہے جہاں سے وہ چھوڑ کر گئے تھے ہم پولیس کی بات کرتے تھے، صحت، ایجوکیشن اور دیگر محکموں کی بات ہوتی رہی ہے لیکن جو لوٹ مار لیسکو کی جانب سے نظر آ رہی ہے وہ اتنی فنکارانہ ہے کہ عام شہری کچھ کر ہی نہیں پاتا۔ کہا جاتا ہے کہ جو بل بن کر آ گیا وہ آپ نے ادا کرنا ہی ہے، اس میں ریلیف یہ ملتا ہے کہ احسان کرتے ہوئے اس بل کی قسطیں کر دی جاتی ہیں۔

ایک یونٹ جو شہری نے استعمال ہی نہیں کیا اس کے پیسے وصول کرنا یقیناََ حرام ہے۔ یہ حرام مال قومی خزانے میں جاتا ہے تو کیا باقی خزانہ پاک اور برکت والا رہ سکتا ہے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ ایک شہری نے جو یونٹس استعمال ہی نہیں کیے ان کا بل ادا کرتے وقت اس پر کیا گزرتی ہے۔ واپڈا کا سسٹم ایسا ہے کہ اب ایس ڈی او اور لائن سپرنٹنڈنٹ کے علم میں ہوئے بغیر کسی علاقہ میں بجلی چوری ممکن نہیں ہے۔ اس کے باوجود سچ یہ ہے کہ بجلی چوری کا سلسلہ کنٹرول نہیں ہو رہا لیکن اس چوری کو پکڑنے کے بجائے "مینج " کرنے پر توجہ دی جاتی ہے۔

ایکسیئن، ایس ڈی او اور لائن سپرنٹنڈنٹ کے پاس جو گاڑیاں ہیں وہی ان کی تنخواہ سے میل نہیں کھاتیں۔ کیا اوور بلنگ، میٹر خرابی اور ایسے معاملات میں غریب شہریوں کو جس اذیت سے گزرنا پڑتا ہے اس پر متعلقہ افسران میں سے کسی کو سزا ملی ہے؟ صرف شہری ہی اس عذاب سے گزر رہے ہیں کہ بل ٹھیک کرانے کے لیے دھکے کھاتے نظر آتے ہیں۔ کسی مہذب معاشرے میں اگر یہ صورتحال ہوتی تو نہ صرف ہرجانے کے کیسز ہوتے بلکہ متعلقہ افسران کے خلاف بھی سخت کارروائی ہوتی۔

بدقسمتی سے پاکستان میں افسر شاہی اور کلرک بابو کا ایسا گٹھ جھوڑ بنا ہوا ہے کہ کرپشن، لاپروائی اور انسانی نااہلی کو کوئی بڑا جرم نہیں تصور کیا جاتا۔ یہاں یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ شہریوں کو ہی اپنے مسائل کے لیے ان دفاتر کے دھکے کھانے ہیں جہاں کبھی افسر موجود نہیں ہوتا اور کبھی نچلا عملہ مٹھی گرم کیے بغیر ان کی فائل آگے نہیں پہنچاتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد اب واپڈا سے جان چھڑا کر سولر پر منتقل ہو رہی ہے۔ ایک طرف ہر روز سیکڑوں شہریوں کو کئی کئی لاکھ روپے کا بوگس بل بھیجا جاتا ہے تو دوسری طرف قوانین کا سہارا لے کر مختلف سلیب کے مختلف بل اور پھر پیک آورز کے نام پر مہنگے یونٹ بیچنا ہے وفاقی محتسب کے دفتر میں جس طرح پریشان حال لوگوں کو درخواستوں اور بل کی کاپیاں اٹھائے اپنی باری کے انتظار میں گھنٹوں بیٹھے دیکھا یہ انتہائی تکلیف دہ عمل تھا۔

ایک عام مزدور جو اپنے دفتر یا اپنے کام سے چھٹی کرکے وہاں گھنٹوں میں بیٹھا اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے، اسے یہ ریاست انصاف دے پا رہی ہے یا نہیں؟ سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی شکایات کے باوجود متعلقہ ایس ڈی او، لائن سپرنٹنڈنٹ اور دیگر آفیسرز اپنی کرسیوں پر کیسے موجود ہیں؟ بعض لوگوں نے بتایا کہ دو دو ماہ تک نہ تو ان کا مسئلہ حل کیا گیا اور نہ ہی کوئی ان کی بات سننے کو تیار تھا وفاقی محتسب میں شکایت کرنے کے بعد جس دن ان کی پیشی تھی اس سے ایک دن پہلے عملہ اچانک آ کر ان کا میٹر اتار کر لے گیا اور اب وفاقی محتسب کو یہ بتا دیا گیا کہ اس مدعی کا تو میٹر اتار لیا گیا ہے اور لیب کے ٹیسٹ کے بعد جو رپورٹ آئے گی اس سے آگاہ کیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ آخر ان لوگوں سے یہ کیوں نہیں پوچھا گیا کہ دو دو ماہ تک انہوں نے شہری کا مسئلہ حل کیوں نہیں کیا تھا؟ کیا سرکاری بابو بھی گدھوں کی طرح ڈنڈے کا انتظار کرتے ہیں کہ کوئی چابک کل اٹھائے گا تو چل پڑیں گے؟

واپڈا خصوصاً لاہور میں لیسکو اس شہباز شریف کا منتظر ہے جنہوں نے بطور وزیراعلیٰ بیوروکریسی سے کام لے کر عوام کو ریلیف پہنچایا تھا۔ وزیراعظم بننے کے بعد ان کا شاید پنجاب کی بیوروکریسی میں اتنا عمل دخل نہیں رہا۔ دوسری جانب مریم نواز شریف پہلی بار وزیراعلیٰ بنی ہیں۔ انہوں نے بے شمار نئے عوامی منصوبے لانچ کر دیئے ہیں لیکن محکموں سے عوام کو ریلیف لے کر دینے، صبح سویرے افسر شاہی کو جگا کر دفاتر اور فیلڈ تک لانے اور عوامی شکایت پر نتائج کی پروا کیے بنا بڑے سے بڑے آفیسر کو عہدے سے ہٹا دینے کا جو عمل شہباز شریف نے کیا اس کی کمی اب بھی پنجاب میں محسوس کی جا رہی ہے۔

گڈ گورننس یہی تو ہے کہ عوام مسائل کا شکار نہ ہوں۔ اگر وزیراعلیٰ خود ایک چکر لگا کر ان درخواستوں اور شکایات کی تعداد دیکھ لیں تو انہیں بھی اندازہ ہو جائے گا کہ لیسکو کے ڈسے عوام کس حال میں ہیں اور ان کے میگا پراجیکٹس کو کونسا محکمہ کس سطح پر تباہ کر رہا ہے۔ اگر شہباز شریف کے انداز میں ایک بار تمام وہ بھی ایسے ایکسیئن، ایس ڈی او اور لائن سپرنٹنڈنٹ کو معطل کر دیں جن کے علاقوں میں یہ شکایات زیادہ ہیں تو یہ محکمہ کالی بھیڑوں سے نجات پا لے گا۔