ہے نہ مزے کی بات، 5 اکتوبر 2018ء شہباز شریف گرفتار ہوئے، 14 فروری2019 ضمانت ہو گئی، بظاہر 132 دنوں کی قید، 64 دن نیب حراست میں، گو کہ اس میں بھی اسمبلی اجلاسوں میں آئے، گئے، لیکن نیب ریمانڈ ختم ہوا تو صرف 5 دن کوٹ لکھپت جیل میں، باقی 63 دن منسٹر کالونی کے بنگلے میں فزیو تھراپیاں ہوتی رہیں، اسی دوران احتساب عدالت نے 5 بار طلب کیا، مگر کبھی کمر درد، کبھی سوجی ٹانگ، کبھی طبیعت کی ناسازی، احتساب عدالت منہ تکتی رہی، یہ بھاگ بھاگ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی صدارتیں فرماتے، قومی اسمبلی میں تقریریں جھاڑتے رہے، پھر بھی کہا جا رہا ہے، یہ احتساب انتقام بھرا۔ ہے نہ مزے کی بات، لاہور ہائیکورٹ میں آشیانہ اسکینڈل، رمضان شوگر مل نالہ کیس، حکم دینے والے شہباز شریف، فواد حسن فواد کی ضمانت ہو جائے، مگر عملدرآمد کرنے والے احد چیمہ ودیگر 6 افراد کی ضمانت مسترد، اب اگر جرم ہوا تو جرم کرانے والوں کی ضمانتیں کیوں؟ اگر کوئی جرم ہوا ہی نہیں تو احد چیمہ و دیگر اندر کیوں، یہ کیا، آدھے اندر، آدھے باہر، ہے نہ مزے کی بات۔ پہلے لاہور ہائیکورٹ، نیب کو حمزہ شہباز کو گرفتار کرنے سے روک دے، پھر شہباز شریف کو ضمانت دیتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ کہے، رمضان شوگر ملز کے چیئرمین تو حمزہ، اسے پکڑا نہیں، شہباز شریف کو پکڑ لیا، مطلب پہلے کہا حمزہ کو گرفتار نہ کریں، پھر شہباز شریف کو اس لئے چھوڑ دیا کہ بینی فشری تو حمزہ، اسے پکڑنا چاہئے تھا، ہے نہ مزے کی بات۔ لاہور ہائیکورٹ اب نیب کو حکم دے اگر حمزہ کو گرفتار کرنا ہی ہے تو 10 دن کا نوٹس دیں، نیب نے حمزہ کو خط بھیجا "حضور اطلاعاً عرض ہے ہم آپ کو 10 دن بعد گرفتار کرنا چاہیں گے"، پھر بھی کہا جا رہا، یہ احتساب انتقام بھرا۔ ہے نہ مزے کی بات، آصف زرداری کی ضمانتوں پہ ضمانتیں، نواز شریف کو من مرضی کی سہولتیں، شہباز شریف فائیو اسٹار قید کے بعد آزاد، بات بلاول پر آئی تو سپریم کورٹ کہہ اُٹھی، بلاول کو کچھ نہ کہنا، وہ معصوم تو ماں کا مشن مکمل کر رہا، مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل میں آ جائے تو سپریم کورٹ کہے، ارے یہ کیا، مراد علی شاہ کی عزت نفس مجروح ہو گئی، فوراً نام نکالو، پھر بھی کہا جا رہا، یہ احتساب انتقام بھرا، ہے نہ مزے کی بات، ایون فیلڈ کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نواز، مریم، کیپٹن صفدر کو ضمانت پر رہا کرے، نیب سپریم کورٹ جائے، سپریم کورٹ سے 5صفحات کا فیصلہ سامنے آئے، فیصلے میں دو جگہ لکھا ہوا "Islamabad high court failed to understand" یعنی جسٹس کھوسہ کے لکھے ہوئے فیصلے میں دو مرتبہ "اسلام آباد ہائیکورٹ سمجھنے میں فیل ہوا" پھر سپریم کورٹ نے 5اعتراضات اُٹھائے، پہلا اعتراض، اسلام آباد ہائیکورٹ کو کیس کا میرٹ ڈی میرٹ ڈسکس نہیں کرنا چاہئے تھا، یعنی main کیس کیوں ڈسکس کیا، صرف ضمانت پر فوکس ہونا چاہئے تھا، دوسرا اعتراض، ضمانت تب دی جائے، جب حالات غیر معمولی ہوں، مثلاً مجرم بہت بیمار ہو، اس کیس میں تو حالات غیر معمولی تھے ہی نہیں، تیسرا اعتراض، ضمانت دیتے ہوئے جن کیسوں کے حوالے دیئے گئے وہ غلط، ان تمام کیسوں میں ملزمان نے مانا ہوا کہ جائیدادیں ان کی جبکہ ایون فیلڈ کیس میں تو نواز شریف نے مانا ہی نہیں، وہ تو کہہ رہے جو کچھ، وہ والد، بچوں کا، میرا کوئی تعلق نہیں، چوتھا اعتراض، سپریم کورٹ کہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کی conclusion پری میچور، پانچواں اعتراض، کہیں سنا نہ دیکھا کہ ضمانت کا فیصلہ 41 صفحات کا، ہے نہ مزے کی بات۔ ایون فیلڈ کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے پر یہ انتہائی سنجیدہ نوعیت کے 5 اعتراض اُٹھا کر بھی سپریم کورٹ نواز، مریم، کیپٹن صفدر کی ضمانتیں کنفرم کر دے، ہے نہ مزے کی بات۔ سپریم کورٹ کہے "چونکہ نواز شریف پہلے ہی جیل میں، لہٰذا اس کیس میں ضمانت مسترد کر دیں یا ضمانت ہو جائے، دونوں صورتوں میں انہیں رہنا جیل میں، مریم نواز خاتون، قانون خاتون سے نرمی، خصوصی سلوک کا کہے، اب کوئی پوچھے کیا عام ملزم کو بھی وہ رعایت دی جاتی ہے جو نواز شریف کو ملی، عورت ہونے پر جو نرمی مریم نواز کو ملی، وہ نرمی کتنی غریب عورتوں کو دی گئی، کیا ساری ہمدردیاں، تمام نرمیاں ان کیلئے ہی، پھر بھی کہا جا رہا، یہ احتساب انتقام بھرا۔
ہے نہ مزے کی بات، اداروں کا حال یہ، الیکشن کمیشن مریم نواز سے یہ بھی نہ پوچھ سکا، آپ نے تو کہا تھا "میری بیرونِ ملک کیا، اندرونِ ملک کوئی جائیداد نہیں" پھر ہمارے پاس یہ جو 84 کروڑ کے اثاثے لیکر آ گئیں، یہ کہاں سے آئے، جھوٹ کیوں بولا، ذرائع آمدنی کیا، الیکشن کمیشن بلاول سے یہ تک نہ پوچھ پایا "ڈیڑھ ارب کے اثاثے کہاں سے آئے، دادا، والدہ کی طرف سے ملی جو جائیدادیں ظاہر کیں وہ دادا، والدہ نے کیوں ڈکلیئر نہ کیں؟"، ہے نہ مزے کی بات۔ پارلیمنٹ کا حال یہ، جب چاہے وردی سمیت مشرف کو صدر مان لے، جب چاہے نااہل نواز شریف کو اہل کر دے اور جب چاہے کوٹ لکھپت کے قیدی کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنا دے، ہے نہ مزے کی بات۔ نظام ایسا، ایون فیلڈ سے آشیانہ اور رمضان شوگر مل تک تمام کیسوں کے آناً فاناً فیصلے ہو رہے، لیکن سانحہ بلدیہ فیکٹری کو 6 سال 5 ماہ سے زائد ہوگئے، 3سو قتلوں کا کچھ نہ بنا، 12 مئی کو کراچی کی سٹرکوں پر ہوئے قتل عام کو 11 سال 9 مہینے سے زائد ہوچکے، کچھ اتا پتا نہیں، سانحہ ماڈل ٹاؤن کو 4 سال 9 مہینے ہو گئے، ابھی تک یہ طے نہ ہو پایا کہ ذمہ دار کون، ہے نہ مزےکی بات، چار دن پہلے نواز شریف نے فرمایا "اندازہ نہ تھا، نیب قانون اتنا خطرناک ہوگا"، چند ماہ پہلے موصوف یہ بھی فرما چکے کہ "اندازہ نہ تھا، انصاف کا عمل اتنا مہنگا، تھکا دینے والا"، اندازہ کریں، یہ صاحب ہمارے وزیراعظم بلکہ 3 دفعہ کے وزیراعظم، 3 بار اقتدار ملا، پتا یہ بھی نہیں، نیب قوانین سخت یا نرم، انصاف کا نظام مہنگا یا سستا، ہمارے مسائل کیا خاک حل کرنا تھے، اب تو دل چاہ رہا، دو چار مہینے نواز شریف صاحب کو وہ پانی پلایا جائے، جو عوام پی رہے تاکہ انہیں پتا چلے کہ یہ پانی کتنا خطرناک، انہیں 50 ہزار دے کر کہا جائے مہینہ گزاریں تاکہ پتا چلے مہنگائی کتنی خطرناک، انہیں سوئی گیس کا بل دے کر بھیجا جائے کہ جائیں اور اس کی قسطیں کروا کے لائیں، انہیں تھانے بھیجا جائے، جائیں ایک سچی ایف آئی آر درج کرا کے دکھائیں، انہیں سرکاری اسپتال بھیجا جائے، جائیں چیک اپ، چند گولیاں اور ٹیکا لگوا کر آئیں، تاکہ انہیں پتا چلے، یہ نظام کتنا خطرناک، حضور آپ نے یہی کچھ تو بدلنا تھا، مگر آپ اپنی سات نسلوں کی قسمتیں بدل کر چلتے بنے۔
ہے نہ مزے کی بات، دو دن پہلے سعد رفیق فرما رہے، جس جیل میں قید، اس جیل کا چونا گرتا رہتا ہے، بندہ پوچھے 10 سال پنجاب پر حکومت کی، زمانے بھر کو چونے لگایا، لاہور کی اس جیل کو چونا ہی کروا لیتے، پھر فرمایا "پنجاب پولیس 60 سال پرانی گاڑی میں لائی"، شکر کریں پولیس اس وین میں نہیں لائی، جس دم گُھٹ وین میں جانوروں کی طرح ٹھونس کر روزانہ قیدیوں کو عدالت لایا جائے، ہے نہ مزے کی بات، مولانا فضل الرحمٰن فرما رہے، نواز شریف، زرداری کو سی پیک کی سزا دی جا رہی، دل چاہ رہا، کہوں، مولانا صاحب اس حساب سے تو پھر آپ کو اس لئے ہرایا گیا کہ آپ نے امریکہ دریافت کیا، ایفل ٹاور بنایا، کیوں، ہے نہ مزے کی بات۔