Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Kahi Dair Na Ho Jaye

Kahi Dair Na Ho Jaye

وزیراعظم سیکرٹریٹ کا چھٹا فلور، دربا ر ہال، 35صحافی، عمران خان بولے، خراج تحسین اپنے میڈیا کو، جنگی ماحول میں امن کی بات کی، آج ملنے کی ایک وجہ یہی، شکریہ ادا کر سکوں آپ سب کا، وزیراعظم اڑھائی منٹ بولے، پھر سوال جواب شروع ہوگئے، اس بار میرے لئے کچھ حیرانیاں تھیں، جیسے عمران خان کا نہ صرف خلاف توقع فرداً فرداً سب سے ہاتھ ملانا، حال احوال پوچھنا، بلکہ دوچار سے جملے بازی کرنا، جیسے کشیدہ حالات، نازک لمحات میں وزیراعظم کا پرسکون نظرآنا، جیسے خلاف توقع عمرا ن خان کا گفتگو کے دوران کسی سوال پر تلخ ہونا نہ کوئی جواب غصے سے دینا، جیسے کئی مواقع پر وزیراعظم کی ترکی بہ ترکی فقرے بازی، نسیم زہرہ نے مسکرا کر پوچھا"فخرامام کریں گے کیا"، عمران خان نے مسکراکر کہا"وہی جو مولانا فضل الرحمٰن کیا کرتے تھے "، عمران خان نے کہا"دعا کریں، ڈرلنگ ہورہی، ہماری توقع کے مطابق معدنی ذخائر نکل آئے تو حالات بدل جائیں گے "، ایک خاتون اینکر بولیں " اگر معدنی ذخائر نہ نکلے تو"، عمران خان کا جواب تھا " تبھی تو کہا دعا کرو"، وزیراعظم نے کہا "اب ٹی وی کم دیکھتاہوں "، پوچھا گیا " کیوں"بولے"جب ملک تباہ کرنے والے ملکی تباہی پر بھاشن دیتے ملیں گے، تو کیا ٹی وی دیکھنا "، ایک موقع پر وزیراعظم نے قہقہہ مار کرکہا " یہ بھی سن چکا، ملک حالتِ جنگ میں، عمران خان فلاں کے کیس ختم کر دے، فلاں کو رہا کر دے، کیا عمران خان کے باپ کا پیسہ لوٹا گیا کہ عمران خان معاف کر دے، انہوں نے ملک لوٹا، عمران خان کس قانون کے تحت اور کیوں معاف کردے " دو تین صحافیوں نے کہا شاہ محمود قریشی صرف ٹیلی فونوں سے کام چلا رہے ہیں، انہیں تو ان حالات میں ملکوں ملکوں پھرنا چاہیے تھا، وزیراعظم بولے " لگتا ہے وہ میری سادگی مہم کو کچھ زیادہ ہی سیریس لے گئے ہیں "، وزیراعظم اپنی تعریفوں، نوبیل انعام کے چرچے سے زیادہ ملک کے امن امیج پر خوش دکھائی دیئے، کہا، جس طرح دنیا پاکستان کی تعریفیں کر رہی، ایسا میں نے تو کبھی نہیں دیکھا۔

بھارتی حملے کی بات ہوئی، وزیراعظم نے بتایا، مجھے رات کے آخری پہر پتا چلا، آرمی چیف، ائیر چیف سے بات کی، دو راستے تھے، جوابی حملہ یا صبر سے کام لینا، بڑا نازک وقت تھا، ہم جوابی حملہ کر سکتے تھے، اہداف بھی طے تھے، جب پتا چلا بھارتی بمباری سے کوئی جانی، مالی نقصان نہیں ہوا تو پونے دوارب انسانوں، اس خطے، امن کیلئے ہم نے" ان پاپولر، فیصلہ کیا، میں سمجھتا ہوں، یہ ہمارا بہترین فیصلہ، ورنہ اب تک باقاعدہ جنگ ہورہی ہوتی، پلوامہ، بالاکوٹ، یہ سب کیوں، وزیراعظم کا کہنا تھا، ہمیں پتاتھا کہ مودی الیکشن کے قریب آکر کچھ کرے گا، پلوامہ ہواتو ہم محتاط ہوگئے، جب مودی نے الزام ہم پر لگا دیا تو ہم نے اپنی تیاری مکمل کر لی، ہمیں معلوم تھا کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا۔

وزیراعظم بھارتی حملے کے بعد جب دنیا کے سرد رویوں کی بات کر رہے تھے تو میں سوچ رہا تھا کہ ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے، کبھی عزتیں ہی عزتیں، اب حال یہ، دنیا کی ساتویں نیوکلیئر طاقت کاپاسپورٹ دنیا کے 5بدترین پاسپورٹوں میں، باقی چھوڑیں، مسلم امہ میں ہماری حیثیت صفر بٹا صفر، کیا وقت تھا، پہلی اوآئی سی کانفرنس، میزبان مراکش کے شاہ حسن کا اپنے دوست سینئر بھارتی وزیر فخرالدین علی احمد کے اصرار پر انہیں اوآئی سی اجلاس میں شرکت کی دعوت دیدینا، فخرالدین کی سربراہی میں بھارتی وفد کا بھارت سے چل پڑنا، پاکستان کو پتاچلنا، جنرل یحییٰ خان کا شاہ حسن کو پیغام بھجوانا" اگر بھارتی وفد آیا تو پاکستان نہیں آئے گا"، یہ پیغام ملتے ہی شا ہ حسن کا بھارتی وفد کو راستے سے ہی لوٹا دینا، اب وقت یہ، ہم احتجاج کرتے رہ گئے، سشما جی آئیں، ہمارے پلیٹ فارم سے ہمیں ٹکے ٹکے کی باتیں سنا کر چلتی بنیں، یہ کیسے نہ ہوتا، کبھی پاکستان کے وکیل بھٹو صاحب، صاحبزادہ یعقوب علی خان، آغاشاہی جیسے، پھر نواز شریف، زرداری، خواجہ آصف جیسے وکیل، یہ تو ہونا ہی تھا۔

میں تو انہی شرمندگیوں میں پھنسا رہتا، کسی بات پر قہقہہ لگا، سوچوں کا سلسلہ ٹوٹا، ذہنی طور پر واپس آیا، وزیراعظم بتارہے تھے "یہ پاکستان پر اللہ کا خاص کرم، ہر محاذپربھارت ناکام، ہمارا پلڑا بھاری، مجھے اپنی فوج، آئی ایس آئی پر فخر، اب ہمیں بھارت یا دنیا کو خوش کرنے کیلئے نہیں، اپنے لئے، اپنی آنے والی نسلوں کیلئے کچھ اقدامات اٹھانا ہوں گے، نان اسٹیٹ ایکٹرز سے نمٹنا، کالعدم تنظیموں کے لوگوں کو قومی دھارے میں لانا، انہیں نوکریاں، روزگار دینا، ہم بھارت سے تو جنگ لڑ سکتے ہیں، پوری دنیا سے نہیں، دنیا کہہ رہی کہ گھر کی صفائی کرو، پچھلی حکومتوں نے نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہ کر کے مجرمانہ غفلت کی "، یہ بیٹھک سوا گھنٹہ رہی، عمران خان، اسد عمر کے ہمراہ گئے تو ہم نے چائے کا کپ پیا فواد چوہدری، یوسف بیگ مرزا کے ساتھ، پندرہ بیس منٹ اس میں لگے، پھر واپسی۔

میں واپس آتے سوچ رہا تھا کہ 5 سال ہوگئے، نیشنل ایکشن پلان ہمارا منہ تک رہا، حالت یہ، جب نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کیلئے چوہدری نثار کی وزرات داخلہ نے اسحٰق ڈار کی وزرات خزانہ سے 32 ارب مانگے تو ڈار صاحب نے فنڈز کی کمی کا بہانہ بنادیا مگر چند ہفتوں بعد شہباز شریف نے میٹرو پنڈی کیلئے پیسے مانگے تو ڈار صاحب نے 50 ارب دینے میں ایک لمحہ نہ لگایا، میں یہ سوچ رہا جو سنگین حالات، خوفناک زمینی حقائق اور انکشافات وزیراعظم کے منہ سے سنے، واقعی اللہ تعالیٰ کا ہم پر خاص کرم، فضل ورنہ دشمنوں نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، میں سوچ رہا تھا اب پاکستان کیلئے ہمیں کالعدم تنظیموں، نان اسٹیٹ ایکٹرز کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کومنطقی انجام تک پہنچانا ہوگا، ورنہ رہی سہی کسر بھی نکل جائے گی، اس معاملے پر اس وقت پوری دنیا بمقابلہ پاکستان والی صورتحال، میں سوچ رہا تھا یہ کیسی مفافقتوں، سیاستوں بھری دنیا، باہر باہر سے کہانی کچھ اور، اندر اندر راجستھان میں بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ، بلوچستان کی سرحدوں سے وار کرنے کی باتیں، پاکستان کی 8دس جگہوں پر میزائل حملے کی منصوبہ بندیاں، یہ کیسی دنیا، دنیا کی 100 بڑی اسلحہ ساز کمپنیاں جو گزرے 4 سالوں میں 398 ارب ڈالر کا اسلحہ بیچ چکیں، ان میں 42 امریکہ کی، 10 روس، 7برطانیہ کی، سب سے زیادہ اسلحہ امریکی کمپنیوں نے 226 ارب ڈالر کا بیچا، ایک طرف 2017-2013ء کے دوران چار سالوں میں بھارت 49فیصد اسلحہ اسرائیل سے، 35فیصد روس سے، ساڑھے آٹھ فیصد فرانس سے خرید چکا، ساڑھے 15 ارب ڈالر کا اسلحہ امریکہ سے اسکے علاوہ، دوسری طرف 2013ء سے 2017ء کے دوران پاکستان نے 70 فیصد اسلحہ چین سے، 12 فیصد امریکہ سے خریدا، اب اسرائیل کو نکال دیں، پاکستان اور بھار ت کو اسلحہ دینے والوں میں امریکہ، چین، روس اور برطانیہ، یہی ملک کشیدگی میں پاکستان، بھارت سے کہہ رہے تحمل، صبر سے کام لیں، جنگ نہ کریں، یعنی اسلحہ دینے والے خود اور امن قائم کرنے والے بھی خود، کیوں کیسا ہے، آخر پر یہی کہنا اگر شمالی وجنوبی کوریا امن کے رستے پر چل سکتے ہیں، اگر امریکہ اور طالبان کے مذاکرات روس میں ہو سکتے ہیں، اگر ٹرمپ اور کوریا کے صدر ویت نام میں بیٹھ کربات چیت کر سکتے ہیں تو پاک بھارت بیٹھ کر اپنے مسائل حل کیوں نہیں کرسکتے، ابھی بھی وقت، کچھ نہیں بگڑا، معاملہ پونے دو ارب انسانوں کا، کچھ کر لیں، کہیں دیر نہ ہوجائے۔