Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Not Possible!

Not Possible!

ہم غلاموں کے ہاں آقاؤں کا احتساب، یہ ہوا نہ کبھی ہوگا، اک ٹریلر ملاحظہ ہو، خاندانِ شریفاں، بات چلی کہاں سے، پہنچ گئی کہاں پر، چند منٹ کی توجہ چاہئے، 4 اپریل 2016، پاناما لیکس، 5 اپریل 2016، وزیراعظم نواز شریف کا قوم سے خطاب، آئیں بائیں شائیں، سپریم کورٹ کے سابق جج کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کا اعلان، 10 اپریل 2016، عمران خان کا معاملہ سپریم کورٹ لے جانے کا اعلان، 30 اپریل 2016، بلاول بھٹو کا وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ، 16 مئی 2016، نواز شریف کی قومی اسمبلی میں جناب اسپیکر یہ ہیں وہ ذرائع والی تقریر، 24 جون 2016، پاکستان تحریک انصاف کا وزیراعظم نااہلی کا معاملہ الیکشن کمیشن میں اٹھانا، 24 اگست 2016، جماعت اسلامی کی سپریم کورٹ میں نواز شریف نااہلی کی درخواست، 29 اگست 2016، نواز شریف نااہلی کیلئے پی ٹی آئی کا سپریم کورٹ جانا، 20 اکتوبر 2016، سپریم کورٹ کا نواز شریف نااہلی درخواستوں کو قابلِ سماعت قرار دیدینا، 28 اکتوبر 2016، چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں لارجر بنچ بننا، یکم نومبر 2016، سپریم کورٹ کا حکومت، تحریک انصاف سے ٹی او آرز طلب کرنا، 7 نومبر 2016، وزیراعظم نواز شریف کے تینوں بچوں کا سپریم کورٹ میں جواب جمع کرانا، 14 نومبر 2016، تحریک انصاف کا سپریم کورٹ میں ثبوت جمع کرانا، 9 دسمبر 2016، چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کا ریٹائرمنٹ قریب آنے پر لارجر بنچ سے علیحدہ ہونا، 4 جنوری 2017، جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں 5رکنی بنچ بننا، مقدمے کی از سر نو سماعت شروع ہونا۔ 17جنوری 2017، مریم نواز کا جواب داخل کرانا، 26جنوری 2017، قطری شہزادے شیخ حماد بن جاسم کا خط عدالت میں پیش ہونا، 23 فروری 2017، سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ، 20 اپریل 2017، 540 صفحات کا فیصلہ، دو جج صاحبان کا نواز شریف کو نااہل قرار دینا، 3 جج صاحبان کا مزید تفتیش کیلئے جے آئی ٹی بنانے کی سفارش کرنا، 3 مئی 2017، چھ ممبران پر مشتمل جے آئی ٹی کا بننا، 6مئی کو جے آئی ٹی کا کام شروع کرنا، جے آئی ٹی کے 59 اجلاس، نواز شریف، اہلِ خانہ سمیت 23 افراد سے تفتیش، 22مئی 2017، جے آئی ٹی کی پہلی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع، 3 جون 2017، حسین نواز کی جے آئی ٹی میں پیشی، 5 جون 2017، جے آئی ٹی کو حدیبیہ ریکارڈ ملنا اور قطری خط پر تحقیقات کا آغاز ہونا، 15 جون 2017، نواز شریف کی جے آئی ٹی کے سامنے 3 گھنٹے پیشی، 17 جون 2017، شہباز شریف کی 4گھنٹوں پر مشتمل جے آئی ٹی پیشی، 3 جولائی 2017، اسحٰق ڈار کی پیشی، 5 جولائی 2017، مریم نواز کی پیشی، 7 جولائی 2017، قطری شہزادے کا جے آئی ٹی ارکان کو قطر اپنے محل، دفتر میں آکر تفتیش کا کہنا، قطری شہزادے کا پاکستان یا پاکستانی سفارتخانے آنے سے انکار، 10 جولائی 2017، 10 والیمز پر مشتمل جے آئی ٹی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرانا۔ 17 جولائی 2017، سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر عدالتی کارروائی شروع ہونا، 28 جولائی 2017، 5 رکنی بنچ کا 25 صفحاتی فیصلے میں نواز شریف کو نااہل قرار دینا، 15 ستمبر کو نظرثانی مختصر فیصلہ، 7 نومبر 2017، 123 صفحات کا تفصیلی فیصلہ، نواز شریف انکے بچوں کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالتوں میں دائر کرنے کا حکم، 8س تمبر 2017، احتساب عدالت میں ایون فیلڈ، العزیزیہ، فلیگ شپ ریفرنسز دائر ہونا، 6 جولائی 2018، ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ، نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن صفدر کو سزائیں، 13 جولائی 2018، نواز شریف، مریم نواز کی گرفتاری، 19 ستمبر 2018، اسلام آباد ہائیکورٹ کا نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن صفدر کا ایون فیلڈ میں ضمانت ہو جانا، 23 دسمبر 2018، العزیزیہ، فلیگ شپ ریفرنسز کا فیصلہ، نواز شریف کا فلیگ شپ میں ٹیکنیکل بنیادوں پر بری ہو جانا، العزیزیہ میں سزا ہو جانا، کمرہ عدالت سے گرفتاری، 26 مارچ 2019، طبی بنیادوں پر 6 ہفتے کا ریلیف ملنا، 8 اگست 2019، مریم نواز کا چوہدری شوگر مل میں گرفتار ہونا، 25 ستمبر 2019، مریم نواز کا جوڈیشل ہونا، 4 نومبر 2019، مریم نواز کی ضمانت ہونا، 10 اکتوبر 2019، نواز شریف کا چوہدری شوگر مل کیس میں گرفتار ہونا، 25 اکتوبر 2019، لاہور ہائی کورٹ سے طبی بنیادوں پر ضمانت منظور ہونا، 29 اکتوبر 2019، العزیزیہ کیس، طبی بنیادوں پر 8 ہفتے کا ریلیف۔

یہاں یہ بھی یاد رہے، نواز شریف کیخلاف ایون فیلڈ، العزیزیہ، فلیگ شپ، نیب ریفرنسز کی کل 183 سماعتیں ہوئیں، نواز شریف 130 بار پیشیوں پر آئے، 49 سماعتوں پر حاضری سے استشنیٰ ملا، 65 پیشیوں پر نواز شریف کے ساتھ مریم نواز بھی آئیں، نواز شریف 70 بار احتساب عدالت ایک میں جج محمد بشیر کے سامنے پیش ہوئے، 60 بار احتساب عدالت دو میں جج ارشد ملک کے سامنے پیش ہوئے، ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے بعد نواز شریف کو 15 بار اڈیالہ سے عدالت میں پیش کیا گیا، اب صورتحال یہ، نااہل نواز شریف ایون فیلڈ، العزیزیہ، چوہدری شوگر مل کیس میں ضمانت پر، فلیگ شپ میں ٹیکنیکل بنیادوں پر بری، مریم نواز ایون فیلڈ، چوہدری شوگر مل کیس میں ضمانت پر، ایون فیلڈ کیس میں کیپٹن صفدر ضمانت پر، حسن نواز، حسین نواز مفرور، باقی 4 اپریل 2016ء سے آج 7 نومبر 2019 کے دوران کیا کیا جھوٹ بولے جا چکے، کیا کیا فراڈ ہوئے، کیا کیا جعلسازیاں کی گئیں، عدلیہ، فوج پر کیا کیا چڑھائیاں ہوئیں، وہ سب کے سامنے، اس پر کیا بات کرنی۔

ہاں جو بات کرنی وہ یہ، یہ ہے ایک شاہی ٹبرکا احتساب خلاصہ، آسمان سے تارے توڑ لانے سے بات شروع ہوئی، تین ساڑھے تین برسوں میں ملکی نظام کو دن میں تارے نظر آگئے، کوئی گواہ، ثبوت نہ منی ٹریل مگر سب باہر، گوکہ مایوسی گناہ، لیکن یہ اک حقیقت ہمارا قانون، عدالتی نظام، معاشرہ اس قابل نہیں کہ کسی بڑے مجرم کو منطقی انجام تک پہنچا سکیں، کسی بااختیار کو زیادہ دیر جیل میں رکھ سکیں، یہ نظام گل سڑ چکا، یہ بدبودار نظام صرف جیب کتروں اور غریبوں، بے بسوں کو چھتر مارنے جوگا رہ گیا، سماج ایسا، پیسے والا قاتل بھی ہو تو معصوم، طاقت والا ڈاکو بھی ہو تو بےگناہ، اوپر سے نظریہ لیس، اصول لیس، اخلاقیات لیس بنارسی ٹھگوں کا ایکا، سب ایک دوسرے کے محافظ، لہٰذا احتساب یا کچھ حاصل وصول، ناٹ پاسیبل۔