یہ اپنے محلے کے معروف شاعر ہیں اور کسی معروف بار یعنی جنگل میں سن 1912 میں عین وقت پر پیدا ہوئے بارہ سے مراد کوئی حسابی عدد نہیں بلکہ ان کے بڑے بزرگ پنجابی کے "بار" یعنی (باہر) سے مراد لیتے ہیں کیوں کہ یہ اپنے شہر سے ذرا دور باہر پیدا ہوئے تھے۔ اپنے جنم دن بارہ اکتوبر کو اکثر ان کا پیٹ شدید خراب ہو جاتا تھا اور ہر سال اسہال لگ جانے کی لوکل وباء کا علم ان کے بزرگوں کو بھی معلوم نہیں تھا حالانکہ وہ اس کی شکل دیکھ کر کہا کرتے تھے کہ اس بیماری کا شکار تو روز بروز ہمیں ہونا چاہئے۔ بہرحال پچھلے چند سالوں سے ان کی بیوی نے اس بیماری کا اس وقت کھوج لگا لیا جب ان کی سالگرہ کے موقع پر موم بتیوں کی گنتی کی گئی جو دو عدد کم نکلیں اور انکشاف ہوا کہ موصوف کیک کے ساتھ موم بتیاں بھی ڈکار لیتے ہیں۔ اب کیک کاٹتے ہوئے ان سے کرپان بھی چھین لی جاتی ہے کہ کہیں یہ بارہ اکتوبر کو گھر میں کوئی نیا "کو" ہی برپا نہ کر دیں۔
ہر گھر کے باہر، ہر بارہ کوہ پر ان کے اعزاز میں نشست منعقد ہو چکی ہے۔ ان کی زندگی میں بارہ کا عدد بھی اتفاقیہ طور پر اہم ہے لیکن بارہ کا پہاڑہ بھی تقریباً بارہ دفعہ بھولتے ہیں۔ اگر آپ ان سے عمر کے بارے میں پوچھیں تو یہ کہتے ہیں کہ ان کی عمر آج کل چراسی سال قریب ہے۔ قریب بتاتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے ہیں جو ان کی بیوی ہی سمجھ پاتی ہے اور کہتی ہے "جان دے" توں وریاں وچوں تو کیہہ "چراسیں" اور چراسی بارہ سے پورا پورا تقسیم ہوجاتا ہے۔
ان کے بارہ مجموعے آچکے ہیں اور ان کی نظمیں اور غزلیں بھی بارہ بارہ اشعار پر ہی مشتمل ہوتی ہیں۔ ان سے بڑے گیارہ بہن بھائی تھے۔ جنگل میں پیدائش کی وجہ سے باروی تخلص رکھا اس لئے کبھی کبھار باروں سنگھ سے بارہ سنگھا بن جاتے ہیں، سنگا پور والے بھی شاید اسی لئے بڑے احترام سے بلاتے ہیں۔ اس کے انگریزی ٹیچر انہیں کچھ اسی وجہ سے "ڈزن سنگھ" بھی کہتے رہے ہیں۔ لیکن یہ سنگاپور جانے سے کچھ کتراتے ہیں، سردار جی اگر اب کبھی اپنے گاؤں ٹبہ جنگلیہ جاتے ہیں تو ان کی بھی کئی امنگیں بارہ سنگھے کی بدقسمتی کی طرح جھاڑیوں میں اَٹکی رہتی ہیں۔
شروع سے ہی والد کے فرمانبردار ہیں اور اپنے والد کے حکم کے مطابق ہی دنیا میں تشریف لائے۔ حالانکہ یہ خالصتان بننے سے پہلے دنیا میں تشریف لانے سے قطعی گریزاں تھے یا یوں سمجھ لیجئے کہ بضد تھے لیکن کسی دھوکے یا دھکے شاہی کا شکار ہوئے، ابھی اپنے اس "کیس" کی طرف دھیان نہیں دیا کیونکہ سینے پر پہلے ہی بہت سے بوجھ ہیں۔ کنگھا، کچھا، کرپان اور کیس کی پیروی بڑے ذوق اور ڈنکے کی لنگوٹ سے کرتے ہیں۔ کاشت کار ہیں بڑی بڑی مونچھیں بھی اسی لئے کاشت کر رکھی ہیں۔ لگتا ہے ناک کی ساری کھاد پر ان طوفانی مونچھوں کا قبضہ ہے۔ اگر یہ اسی رفتار سے بڑھتی رہیں تو یہ بھارتی قرضے اُتارنے کے لئے کافی ہوں گی۔ پھر اس وقت تو کوئی بھی سردار جی کی "مونچھ مروڑنے" کی جرأت بھی نہیں کرے گا۔ ان کے پوتوں پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی تعداد بھی نواسی تک پہنچ چکی ہے جو ان سے کئی نئے نئے سوالات کرتے رہتے ہیں۔ ان کی بڑی مونچھیں دیکھ کر ایک ان کے چھوٹے بال نے سوال کیا باپو آپ کا منہ کدھر ہے جس سے آپ کھاتے پیتے ہیں اسی وقت غصے سے دونوں ہاتھوں کا استعمال کرکے اور مونچھیں وغیرہ اوپر اٹھائیں اور اس سے کہنے لگے!
اور کیایہ تمہارے پتا کا حویلی ہے؟
یہ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ میں کبھی حجام نامی شخص کے پاس سے بھی نہیں گزرا یوں میں نے اپنی زندگی میں ایک بڑی رقم بچائی ہے اور میری حجامت وغیرہ تو محلے دار کر دیتے ہیں اگر ہر مہینے بارہ سو بھی بچاؤں تو پچھلے ساٹھ سالوں میں ساڑھے آٹھ لاکھ بچا چکا ہوں اور بھارتی روپیہ بھی پاکستانی دو روپے کے برابر ہے۔ سب کے خیال میں ان کا نام باروں سنگھا بچتی ہونا چاہئے تھا۔
سردار جی کی نظر اب بہت کمزور ہو چکی ہے اور اب وہ قرب و جوار کے لئے عینکیں بھی بارہ، بارہ نمبر کی استعمال کرتے ہیں۔ عینک لگانے سے پہلے اسے اچھی طرح سونگھتے بھی ہیں۔ پھر یہ کہہ کر لگا لیتے کہ یہی دور کی ہے۔ معلوم کرنے پر اُنہوں نے اس بارے میں وضاحت کی کہ اُنہوں نے نزدیک اور دور کی عینکوں کو مختلف دوائیوں سے آراستہ کر رکھا ہے۔ ایک پر وِکس اور دوسری پر آیوڈیکس لگا رکھی ہے جس کی وجہ سے انہیں ڈھونڈنے میں آسانی رہتی ہے۔ آج کل عطاء الحق قاسمی صاحب سے کچھ ناراض نظر آتے ہیں۔ اس بات کا شکوہ کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنی کتاب بارہ سنگھے کا نام مجھے مخاطب کرکے رکھا ہے حالانکہ ان کا نام کسی کتاب کے لیے نہیں بلکہ بواسیر کی دواء کے لیے تنتر کے طور پر استعمال ہو سکتا ہے۔
ان کی شاعری میں پیار بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے لیکن جب یہ شیشے میں اپنا منہ دیکھتے ہیں انہیں جانوروں پر بے حد پیار آ جاتا ہے۔ آج کل ان کے ایکسرے اور الٹرا ساؤنڈ، متواتر ہو رہے ہیں اور ان میں سے کئی ایک نئے انکشافات بھی ہو رہے ہیں۔ دماغ کے ایکسرے کی رپورٹ کے بعد ڈاکٹر نے یہ انکشاف کیا ہے کہ ان کے دماغ کے کیڑے بھی عمر رسیدگی کی وجہ سے دماغ کے اندر گھومنے پھرنے سے معذور نظر آرہے ہیں حالانکہ اندر کافی خلا محسوس ہو رہا ہے بلکہ بیت الخلا کی گنجائش بھی موجود ہے، ان کے گردوں کی الٹرا ساؤنڈ رپورٹ سے یہ انکشاف ہوا کہ ان کے گردوں پر بھی کافی بال تھے جو آدھے سفید ہو کر جھڑ چکے ہیں۔ اب شعروں اور مشاعروں کا اتنا شوق نہیں رہا لیکن مشاعروں میں ان کو اپنی صدارت اور "سردارت" کا گھمنڈ ضرور ہوتا ہے۔
اپنا دوہڑا سنانے سے پہلے کلائی کو منہ پر بار بار مار کر، با، با، با، کی آوازیں نکالتے ہیں۔ مشاعرہ کبڈی کے انداز میں کرنے کا ایک اپنا "ڈبو لہجہ" ہے۔ ہر شاعر کا اسلوب ہوتا ہے لیکن ان کا اپنا خاص مشروب ہے جس کی بوتل یہ پلو سے باندھ کر رکھتے ہیں اور اس کی ایک جھلک اس قطعے سے واضح ہو جائے گی۔
آپے سی کے کپڑے پائیے
دارو پی کے پنگڑے پائیے
ڈانگاں پھڑ کے میلے چلئے
نال شریکاں چگڑے پائیے
شاعر کو ہر شعر پر داد ملتی ہے لیکن یہ داد سے زیادہ امداد پر بضد ہوتے ہیں جو ان کے شائقین ضروت سے زیادہ کر دیتے ہیں کیونکہ شعر داغتے وقت ان کا ہاتھ کرپان پر ہوتا ہے اور سرخ آنکھیں مجمعے کی طرف۔ آنکھیں اس لیے بھی سرخ رہتی ہیں کہ ایک دفعہ ان کی آنکھ میں اپنا ہی بال آگیا تھا۔ اب انہیں اس کی عادت پڑ گئی ہے اور اپنا ہر ناکارہ بال ان کی آنکھوں کے لئے تسکین پیدا کرتا ہے۔ پچھلے دنوں ان کا بیٹا ان کی آنکھیں دکھانے ڈاکٹر کے پاس لے گیا جو ان کا قریبی رشتہ دار بھی ہے اور اپنے ساتھ ان کی قابل استعمال آنکھ کے قطرے بھی رکھ لیے۔ ڈاکٹر نے دوائیاں چیک کرتے ہوئے پنجابی میں کہا "ایہہ تے پانی ہے" اور آنکھوں کی خشکی دیکھ کر کہا کہ انہیں پانی پلاؤ۔ گھر آ کر دوائی پھینک کر بیٹے سے کہا کہ کہاں سے جعلی دوائیں لے آتے ہوتمہارے سامنے ڈاکٹر نہیں کہا تھا کہ"ایہہ تے پانی ہے"۔
بیٹا کہنے لگا پتا جی اس نے کہا تھا "اے اکھ وچ پانی اے" پھر اس سے کہنے لگے اس نے پلاؤ کے بارے میں کچھ کہا تھا۔ بیٹا کہنے لگا پانی پلاؤ کا کہا تھا چلو آپ کے لئے اس گوشت کا پلاؤ بناتے ہیں جس کا بال آپ کی آنکھ میں آ گیا تھا۔
بہرحال سردار جی جلد ہمارے ہاں بھی مشاعرہ کرنے آرہے ہیں لہذا اپنی داد اور خاطر جمع رکھیں۔ سردار صاحب کو اگر آپ محتاط طریقے سے التماس کریں کہ آپ ہمیں وہ غزل سنائیں جو آپ نے ابھی تک نہیں لکھی تو وہ اس کو بھی یاد کرکے سنانا شروع کر دیتے ہیں۔ کیونکہ خیر سے وہ بالکل پڑھے لکھے نہیں۔۔ سکول تو وہ کبھی بچہ چھوڑنے بھی نہیں گئے۔