تقریب جاری تھی، میں صوفے سے اُٹھا، ا سٹیج سے چند گز پیچھے برآمدے میں آکر دیوار سے ٹیک لگا کر فرش پر بیٹھ گیا، میرے سامنے ا سٹیج پر کل اور آج کے اساتذہ کرام، صوفوں، کرسیوں پر اولڈ ا سٹوڈنٹس، شامیانے کے نیچے زمین پر ترتیب سے بیٹھے اسکول طلباء، چمکیلادن، مسلسل چلتی ہوا، ہرے زردرنگ کی گھاس والی گراؤنڈ، چاروں جانب رنگ برنگے پھولوں کی کیاریاں اور قطار در قطاردرخت، جدھر نظر اُٹھتی اُدھر منظر قابلِ دید، اچانک خیال آیاکہ انسان چاہے تو کیا ممکن نہیں، جیسے ابھی پچھلی گرمیوں کی وہ اتوار، جب گاؤں جاتے ہوئے اسکول کے اَدھ کھلے گیٹ پر نظر پڑی، غیرارادی طور پر بریک ماری، گاڑی سے اترکر یہ سوچتے ہوئے اسکول میں داخل ہوا کہ چھٹی کا دن، کوئی نہیں ہوگا، ذرا آج اپنے اسکول میں اکیلے گھومنے پھرنے کی عیاشی کی جائے، لیکن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ نہ صرف دفتر کھلا ہوا، پرنسپل دفتر میں موجود، دوچار اساتذہ کام میں لگے ہوئے بلکہ بنیان پہنے مالی بھی چھٹی والے دن پودوں کو پانی دے رہا، گوکہ اسکول میں اکیلے گھومنے پھرنے کا خواب تو چکنا چور ہوامگر اتوار کی وہ دوپہر یوں یادگار ٹھہری کہ اپنے اسکول میں پرنسپل کے ساتھ اس کمرے میں بیٹھ کر چائے پی جہاں جاتے ہوئے کبھی ٹانگیں کانپا کرتی تھیں، پرانی یادیں تازہ ہوئیں، اپنا کلاس روم دیکھا اور سب سے بڑھ کر کہ باتوں باتوں میں پرنسپل رائے زمان صاحب سے یہ درخواست بھی کر دی کہ اگر ہو سکے تو اس اسکول میں بھی سالانہ get to gather کی روایت ڈالیں، لیکن یقین جانئے یہ بات کرتے ہوئے میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ چند ماہ بعد ہی میں گورنمٹ ہائی اسکول نمبر ون پنڈی بھٹیاں کی" 150 سالہ تقریب "کے جھنڈے تلے ہونے والے پہلے سالانہ get to gatherمیں بیٹھا ہوں گا۔
اب بشیر دیوانہ صاحب (جو ریٹائر ہو کر بھی ریٹائر نہیں ہوئے )تقریب سے خطاب کررہے تھے، وہی دیوانہ صاحب جو ہمیں اُردو پڑھاتے تھے، جو اچھے شاعر، بہت اچھے انسان اور جو رفیق بٹ، رانا رفیق، حافظ بنیامین، رانا سرفراز، پی ٹی ماسٹر ز بشیر اور نواز صاحبان جیسے "لٹھ مار" اساتذہ میں ہمارے لئےواحد جائے پناہ تھے، مجھے نہیں یاد کہ 5 سالوں میں بشیر دیوانہ صاحب نے کبھی مارنے حتی کہ ڈانٹنے کا تکلف بھی کیا ہو، جہاں تک باقیوں کا تعلق تو ابھی تک یہ ذہن میں کہ رفیق بٹ کیا کمال کی پھینٹی لگایا کرتے تھے، ان کی مار دھاڑ سے بچنے کا واحد حل، ان سے ٹیوشن پڑھو، جو ٹیوشن پڑھتے وہ انہیں کلاس میں نظر ہی نہ آتے، مطلب جو سوال جواب یا مارکٹائی ہوتی، وہ ان کے حصے میں آتی جو ٹیوشن جیسی سعادت سے محروم ہوتے، لیکن پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ جب بٹ صاحب نے مارنا کیا غصہ کرنا بھی چھوڑ دیا، وجہ یہ نہیں تھی کہ انہوں نے ٹیوشن پڑھانا چھوڑ دی تھی، وجہ یہ تھی ہم سب نے ٹیوشن پڑھنا شروع کر دی تھی۔
بظاہر کلین شیو مگر اندر سے سخت مذہبی رانا رفیق کی مار سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ جب بھی ان کی نظر پڑے آپ سر پر ٹوپی رکھے مسجد جارہے ہوں یا مسجد سے واپس آرہے ہوں، جہاں تک رانا سرفراز کی بات تو انکی پسندیدگی کیلئے آپکا اچھا کرکٹر ہونا ضروری، جنکی کرکٹ اچھی نہ تھی، وہ ہرو قت رانا صاحب کے باؤنسروں کی زد میں رہتے، رانا صاحب کی یہ اداتوبے مثال کہ پورے زور سے ہاتھ پر ڈنڈا مارکر لمحہ بھر کیلئے فدوی کا ہاتھ اور منہ دیکھتے، اگر ہاتھ یامنہ کی سرخی میں کچھ کمی محسوس ہوتی تو فدوی کو پہلے سے زیادہ زور سے ڈنڈا مارکر یہ کمی پوری کردیتے، فارسی پڑھانے والے حافظ بنیامین سے بہت ساری ماریں کھا کر پتا چلا کہ ان سے بچنا ہے تو ان پر مسلسل آنکھ رکھو، لمحہ بھر کی غفلت بھی بہت بھاری، ان کا طریقۂ واردات یہ تھا کہ کلاس میں تشریف لاتے، کسی سے فارسی کی کتاب پکڑتے، منہ ہی منہ میں اگلاLessonپڑھاتے، آوازایسی کہ ان کے منہ سے کان لگا کر بھی سننا مشکل، کتاب واپس پکڑاتے اورکرسی پر بیٹھ کرسامنے ہوا میں دیکھنے لگتے، لیکن جونہی کلاس انہیں بھلا کر شرارتوں میں کھو جاتی تو یہ اچانک ہڑبڑا کر اُٹھتے اورجو جو ہتھے چڑھتا اسکی ویسی ہی عز ت افزائی کرتے، جورنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر چور کی، بے خبری میں بیسوؤں ماریں کھا کر پتاچلا کہ ان کا مراقبہ نما پوز ایک دھوکہ، اصل میں تو وہ کن اکھیوں سے ہمیں ہی دیکھ رہے ہوتے، لہذا جونہی غفلت میں پاتے، دھاوا بول دیتے، جہاں تک پی ٹی ماسٹر مہر نواز کا تعلق تو انکی ٹائمنگ کمال کی تھی، لمبا سا ڈانڈا ہاتھ میں لئے ہر وقت سرجھکائے اِدھر اُدھر گھومتے نواز صاحب کا پتا تب چلتا جب وہ حملہ آور ہو چکے ہوتے اور مجال کبھی انکا نشانہ خطا ہو، جبکہ بھاری بھر کم پی ٹی ماسٹر بشیر صاحب موڈ کے غلام تھے، ہوسکتا ہے وہ آپکو کسی بڑی بدتمیزی پر بھی چھوڑ دیں او ر یہ بھی ممکن آپ کو زیادہ باادب ہونے پر بھی مار پڑجائے، اب اس خانہ جنگی کے ماحول میں لے دے کے ایک بشیر دیوانہ صاحب ہی بچتے تھے جن کی کلاس میں سُکھ کا سانس لینا نصیب ہوتا۔
تقریب ابھی جاری تھی او رمیں برآمدے میں بیٹھا سوچ رہا تھا پرنسپل رائے زمان نے اسکول کے دونئے دیدہ زیب بلاک اور مضبوط باؤنڈری وال بناکر، پرانے درختوں کے ساتھ نئے درخت لگا کراور پھولوں کی مزید کیاریاں اور گراؤنڈ میں گھاس اُگا کر اسکول کی وہ حالت کر دی کہ لگے ہی نہ کہ یہ سرکاری اسکول، گوکہ اسکول کا ہر کمرہ نواں نکور، کسی دیوار کا پلستر ادھڑا ہوا اور نہ کہیں گندگی کا نام ونشان، لیکن نجانے کیوں مجھے یہ لش لش کرتا اسکول دیکھ کر بھی خوشی کی بجائے دُکھ ہو رہا تھا، میرا دل چاہ رہا تھا کہ کاش میرا اسکول اپنی اصل حالت میں ہوتا، باؤنڈری وال کے بغیر تین اطراف سے فصلوں میں گھرا ہوا، درختوں کے نیچے قطار میں لگے بلیک بورڈز اور ریتیلی زمین پر بیٹھے طالبعلم، جواسٹاف روم سے نکلتے ٹیچر کو دور سے ہی دیکھ کر لمحوں میں مؤدب اور پُر امن ہو جاتے، وہی کھلی ڈُلی اسمبلی گراؤنڈ، پرانی نیم پختہ مسجد اورسامنے بشیر کانے کی چنا چاٹ اور دہی بھلوں کی ریڑھی، اسکول کی واحد کریانے کی دکان کندھے سے لٹکائے گھومتا پھرتا سرو ٹُنڈا، مطلب وہ اسکول جس کے چپے چپے پر یادیں بکھری ہوئیں، جس کے ہر درخت، کونے اور کمرے سے قصے، کہانیاں جڑی ہوئیں اور جسکے بارے میں سوچ کر آج بھی دل یہی چاہے کہ کاش پھر سے داخلہ مل جائے۔ تقریب اختتامی لمحوں میں تھی، میں پھر سے صوفے پر آبیٹھا، ویسے تو اس تقریب کے مہمان خصوصی ہمدم دیرینہ سی پی او گوجرانوالہ اشفاق احمد تھے مگر آخری لمحوں میں وزیراعلیٰ پنجاب کی میٹنگ آجانے پر انکی نمائندگی ڈی پی اوحافظ آباد سردار غیاث گل نے کی، ویسے تو معروف وکیل عابد ساقی، ایس ایس پی رائے اعجاز، ایڈیشنل سیشن جج صفدر بھٹی ہمیشہ سے میرے پسندیدہ رائے ضمیر الحق، فیض بھٹی اور ہمارے زمانے کی ہاکی کے مشہور کھلاڑی محمود موہلی سمیت بیسوؤں اولڈ اسٹوڈنٹس بھی مہمان خصوصی ہی تھے مگر اصل مہمان خصوصی 1954 میں گورنمنٹ ہائی اسکول پنڈی بھٹیاں سے میٹرک کرنے والے لاہور سے آئے باریش عبدالعزیز صاحب تھے، اپنی پروفیسر بیٹی کے ہمراہ آئے اورواپڈا سے ریٹائر ہوچکے ہمارے یہ اسکول میٹ تربیلا ڈیم کا ڈیزائن بنانے والوں میں سے، ہماری اس تقریب میں پنڈی بھٹیاں پریس کلب کے تمام بڑے، محکمہ تعلیم ضلع حافظ آباد کے افسران سمیت علاقے بھر کی اہم شخصیات بھی موجود تھیں، جہاں تک تقریب سجانے والوں کی بات تو بلاشبہ میاں طاہر اسحق، ارشاد احمد، اکرم تارڑ، عمران عباس اور اسلم زاہد جیسے اساتذہ کی محنت ولگن، ا سٹیج ا سیکرٹریز غلام شبیر اور حق نواز کے گرما دینے والے انداز، طلباء کا مثالی ڈسپلن، انکی جاندار پرفارمنس اور خاص طور پر فوجی وردیوں میں ملبوس طلباء کی مہمانوں کو سلامی نے تقریب کو چار چاند لگادیئے، لیکن جیسے ہر جرم کا ماسٹر مائنڈ ہی اصل مجرم، ویسے ہی بچھڑوں کو ملانے کے ماسٹر مائنڈ تھے پرنسپل رائے محمد زمان، جن کی محنت اور قابلیت نے کم وقت اور محدود وسائل میں بھی کمال کر دیا، زمان صاحب آپکا شکریہ اس درخواست کے ساتھ کہ اور نہیں تو اب کم ازکم سال میں ایک مرتبہ ہمیں ضرور ملناچاہئے، کیونکہ سر "جب پیار کیا تو ڈرنا کیا"۔