روسو ایک عظیم نامور دانشور اور ادیب تھا، اس کا تعلق فرانس سے تھا۔ انقلاب فرانس سے قبل جب فرانس میں جاگیرداری نظام مضبوطی سے اپنے پنجے گاڑھے ہوئے تھا، اس وقت روسو نے نہ صرف جاگیرداری نظام کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کیا بلکہ اس نے اپنی تحریروں کے ذریعے اس نظام پر ایسی ضربیں لگائیں کہ جس نے اس نظام کی بنیادوں کو ہلاکر رکھ دیا۔
جس کے نتیجے میں نپولین جو فرانس کا ایک سیاسی رہنما تھا اس نے روسو کی فکر کی روشنی میں سیاسی جدوجہد کے ذریعے اس نظام کا خاتمہ کر دیا۔ اس طرح فرانس ایک نئے دور میں داخل ہوا۔ جسے انقلاب فرانس کا نام دیا جاتا ہے اسی لیے نپولین نے کہا تھا کہ روسو نہ ہوتا تو نپولین بھی نہ ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ظالمانہ نظام کی تصویرکشی اس کی تنقید اور نئے نظام کی سماجی اور تہذیبی بنیادوں کی تلاش اور تدوین کا کام اسی دانشور طبقے نے کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ دانشور طبقے کا ظہورکیسے ہوا۔ تاریخی حوالے سے ہم دیکھتے ہیں کہ قدیم زمانے میں معاشرے کی تشکیل اور اس کے معاملات چلانے میں دو عناصر کار فرما رہے تھے پہلا بادشاہ دوسرا عامل یا جادوگر بادشاہ کے پاس عسکری اور فوجی طاقت ہوتی تھی جس سے وہ ملک کے معاملات چلاتا تھا۔ عاملوں کو علم کی طاقت کا حامل سمجھا جاتا تھا۔
یہ علم انسانی کوششوں کا نتیجہ نہ تھا بلکہ دیوی دیوتاؤں یا آسمانی طاقت کا عطا کردہ سمجھا جاتا تھا، لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے بادشاہ اور عاملوں سے مدد لیتے تھے۔ یہ عامل آج بھی عقیدے اور یقین کی بنیاد پر سادہ لوح عوام کو بے وقوف بناکر اپنا منافع بخش کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس میں نام نہاد گدی نشینوں کا ایک بڑا حصہ شامل رہا ہے اور آج بھی ہے کوئی ان کو چیلنج کرنے والا نہیں ہے حکمرانوں اور عاملوں کے بیچ (درمیان) ایک طبقہ ظہور پذیر ہوا جسے دانشور طبقہ کہا جاتا ہے۔ اس نے دنیا کو یہ باور کرایا کہ انسانی مشکلات اور مسائل کو انسانی صلاحیتوں کی مدد سے حل کیا جاسکتا ہے۔
اس طبقے نے عوام الناس کو بتایا کہ دنیا اور سماج کے مسائل اس وقت تک حل نہیں کرسکتے جب تک بنیادی تصورات اور خیالات کو تبدیل نہ کریں ان نظریات نے سماج کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا۔ کسی بھی معاشرے میں سماجی تبدیلی کے عمل میں دانشور اور ادیب ہمیشہ اول دستہ رہے ہیں جو نہ صرف آگے بڑھ کر ظلم و جبرکا پہلا وار اپنے آپ پر سہتے ہیں بلکہ پہلا جوابی وار بھی خود ہی کرتے ہیں یہ لوگ ایسے مقام پر بھی لڑتے ہیں جہاں لڑائی کی گنجائش نہیں ہوتی انھیں اپنے احساس اور جذبات کو دوسروں میں منتقل کرنے کے فن میں قدرت حاصل ہوتی ہے۔
یہ اپنے فن یعنی تحریروں، کہانیوں، محاورات، اشاروں، تشبیہات اور علامات کے ذریعے اپنی زبان سے وہ کچھ کہہ ڈالتے ہیں اور سمجھا دیتے ہیں جو بعض اوقات کسی اور طرح سے کہنا اور سمجھانا ناممکن ہوتا ہے۔ یہ اپنے خوبصورت اسلوب کے ذریعے مشکلات، دکھ، غم اور تکالیف کو طاقت میں بدل دیتے ہیں اور جدوجہد کا درس دے کر روشن راہوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جب یہ جدوجہد تجربے کی بھٹی میں پک کر کندن بن جاتی ہے تو اس سے تاریخ ساز عمل کا ایک نیا دور جنم لیتا ہے جس کی کوکھ سے انقلاب جنم لیتا ہے۔
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں جتنے انقلاب آئے ہیں اس انقلاب کے پیچھے کسی نہ کسی دانشور مفکر اور فلاسفر کا ہاتھ رہا ہے ایک اچھا معیشت دان آپ کو بہترین معاشی پالیسی یا پلان تیار کرکے دے سکتا ہے لیکن غربا کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ اپنی کہانیوں، افسانوں اور ڈراموں کے ذریعے ایک ادیب ہی پیدا کرسکتا ہے۔ اسی طرح ایک فوجی جنرل کامیابی سے دشمن سے لڑنے کی بہترین حکمت عملی واضح کرسکتا ہے، لیکن وطن سے لڑنے کے جذبات اور جانثاری کا جذبہ قومی گیتوں کے ذریعے ایک ادیب اور شاعر ہی کر سکتا ہے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ ادب انسان میں احساس کی قوت کو جگاتے ہیں فنون لطیفہ ہمارے خیالات کو خوبصورت بناتے ہیں احساس کی قوت اور خوبصورت خیال ہی ہماری پرمسرت زندگی کے ضامن ہوتے ہیں۔
تعلیم یافتہ لوگوں کے نزدیک دانشور اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ایک ہی معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن حقیقت میں دونوں میں فرق ہے۔ دانشور علم کی تخلیق میں حصہ لیتا ہے وہ سماج کے عمومی سوالات سے دلچسپی رکھتا ہے اور اپنی فکر کے ذریعے ان سوالات کے جوابات تیار کرتا ہے اس کی یہ ساری کوشش بے غرض یعنی خلوص پر مبنی ہوتی ہے جب کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ کسی علم یا فن کے کسی ایک حصے پر عبور حاصل کرتا ہے اس کی وابستگی پورے سماج سے نہیں بلکہ سماج کے خاص طبقے سے ہوتی ہے یہ وابستگی پیشہ ورانہ نوعیت کی ہوتی ہے جس سے اس کا معاشی مفاد وابستہ ہوتا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے یہاں ادب کی مختلف تحریکوں کا وجود رہا۔ ادب برائے ادب، ادب برائے زندگی، ادب برائے بندگی اور ادب برائے پاکستان۔ ان تحریکوں نے ایک عرصے تک اپنی فکر کی روشنی میں ادبی تخلیقات پیش کیں اور معاشرے کو متاثر کیا۔ لیکن گزشتہ کئی دہائیوں سے ہمارا ادب جمود کا شکار ہے۔ ہمارے دانشور گروہ بندی کا شکار ہوکر مختلف سیاسی جماعتوں کے ترجمان بنے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں ادب برائے مفاد پرست بن گیا ہے۔
یہی وجہ تھی کہ 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے صرف چند دن بعد جنرل ضیا الحق نے ایک تقریب کا اہتمام کیا جس میں ملک بھر کے بیشتر ادیب، شاعروں اور نقادوں کو مدعو کیا گیا۔ گنتی کے چند ادیبوں کو چھوڑ کر ادیب سر کے بل اس تقریب میں گئے اور تقریب شاہی کے نشے میں سرشار ہوکر سولی کے سائے میں بچھنے والے دسترخوان سے فیض یاب ہوئے۔ اس کے برعکس ہم نے دیکھا عراق پر غاصبانہ امریکی قبضے کے دنوں میں امریکی خاتون اول نے وائٹ ہاؤس میں ایک شعری نشست کا اہتمام کیا اس کے دعوت نامے جاری ہوئے لیکن اہم امریکی دانشوروں اور ادیبوں نے نہ صرف اس تقریب کا بائیکاٹ کیا بلکہ اس دن کو جنگ کے خلاف احتجاج کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں؟ اس کی بڑی وجہ ماحول اور عصری تقاضے ہیں جن سے ادیب اور دانشور بہت زیادہ الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ اگر کسی کے پاس اپنا گھر نہیں وہ کرائے کے مکان میں رہتا ہے تو ایسا بہت مشکل ہے کہ وہ اپنی سوچ کو آفاقی شکل دے سکے۔ ادیبوں اور شاعروں کے ناگفتہ معاشی حالات انھیں ایسا رویہ اپنانے پر مجبورکرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا ادب زوال پذیرکیوں ہے؟ اس پر بہتر علمی رائے کا اظہار ادیب اور دانشور ہی کرسکتے ہیں۔
میری ذاتی رائے میں اس کی بڑی وجہ جمہوری رویے کا فقدان ہے۔ آمریت میں جبر ہوتا ہے آزادی فکر پر پابندی ہوتی ہے جب کہ ادب میں آزادی فکر اور سچائی کے ساتھ لکھی جانے والی تحریریں نہ صرف دلکش ہوتی ہیں بلکہ پراثر بھی۔ اس لیے اگر ہم ملک میں فکری تبدیلی کے خواہاں ہیں تو ہمیں جمہوری رویے کو فروغ دینا ہوگا۔ ہمیں حالات سے مایوس نہیں ہونا چاہیے ادیبوں اور دانشوروں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ دکھوں کا مداوا ایک نظم سے نہیں ہوتا لیکن تبدیلی کا امکان یہیں سے جنم لیتا ہے۔ یاد رکھیں ! دانشوروں کی باتوں پر عمل نہ بھی کیا جائے تو ان پر غور ضرور ہوتا ہے اس غور کے نتیجے میں سوچ میں تبدیلی ضرور واقع ہوتی ہے سوچ کی یہ تبدیلی بھی ایک بڑی کامیابی ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔