ہمارے ہاں عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والے ایم این ایز، ایم پی ایز، بلدیاتی ممبران، وزیروں اور مشیروں کو تو وزیراعلیٰ کی قیادت، اقتدار اور سربراہی میں ہر دوسرے دن احتجاج، جلسے، جلوس، مظاہروں اور دھرنوں کی اجازت ہے مگر نچلے، پسے اور انہی حکمرانوں کے ڈسے ہوئے طبقے کو اپنے ساتھ ہونے والی بے انصافیوں، ظلم اور ستم پر ایک دن بھی چیخنے، چلانے اور رونے کی اجازت نہیں۔
مانا کہ سکول بند کرکے احتجاج کرنا اور دھرنے دینا یہ کوئی اچھا کام نہیں، کوئی بھی ذی عقل اور باشعور شخص یہ نہیں چاہتا کہ سرکاری سکولوں کی تالہ بندی ہو یا اساتذہ کا کوئی احتجاج ہو لیکن ہر ذی عقل اور باشعور شخص تو یہ بھی نہیں چاہتا کہ عوام کے خون پسینے کی کمائی اور ٹیکس کے پیسوں پر ہر دوسرے اور تیسرے دن حکمران لاؤ لشکر سمیت احتجاج اور مظاہرے کرتے پھریں۔
خیبرپختونخوا میں سرکاری سکولوں کے اساتذہ کا احتجاج اگر غلط تھا تو پھر ہر دوسرے دن ملک کے مختلف علاقوں اور شہروں میں ہونے والا صوبائی حکمرانوں کا احتجاج کیا یہ ٹھیک ہے؟ سرکاری سکولوں کے اساتذہ جس طرح ریاست کے ملازم ہیں اسی طرح حکمران بھی ریاست کے نوکر ہوتے ہیں۔ سرکاری ملازم تو ریاست سے صرف تنخواہ لیتے ہیں لیکن یہ حکمران تو تنخواہوں کے ساتھ اور بھی بہت کچھ لیتے ہیں۔
اساتذہ کو اگر اپنے حقوق اور مطالبات کے حق میں چیخنے، چلانے اور رونے کی اجازت نہیں تو پھر حکمرانوں کو اپنے ناجائز مطالبات اور خواہشات کی تکمیل کیلئے آسمان سر پر اٹھانے کی اجازت کیوں ہے؟ جو لوگ خود احتجاج کی کوکھ سے نکلے اور جن کے شب و روز پچھلے ایک سال سے احتجاج احتجاج کے جامے اور پاجامے میں گزر رہے ہیں۔ آج ان لوگوں کو قوم کے معماروں کے معمولی احتجاج سے تکلیف اور پیٹ میں ایسے درد اٹھ رہے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ کہا جا رہا ہے کہ احتجاج میں شریک اساتذہ کی تنخواہوں سے کٹوتی کی جائے گی۔
احتجاج کرنا اگر جرم اور اپنے حق کیلئے باہر نکلنا اگر واقعی گناہ ہے تو پھر اساتذہ سے پہلے ان ہزاروں و لاکھوں گنہگاروں کے گریبان پکڑ کر انہیں کٹہرے میں کھڑا کریں اور ان سے بھی کٹوتی وریکوری کریں جوایک سال سے اپنے کسی حق نہیں بلکہ، ناحق، کے لئے احتجاج پراحتجاج کر رہے ہیں۔ جو لوگ سارک سربراہی کانفرنس کے موقع پراحتجاج کو اپنا حق، جائز اور ثواب قرار دے رہے تھے اب ان کی زبان سے اساتذہ کے احتجاج کے خلاف باتیں اچھی نہیں لگتیں۔ چھاننی اٹھ کے کوزے کو کہے آپ میں دو سوراخ ہیں۔ اسے پہلے اپنے ہزاروں سوراخوں کو بھی دیکھنا چاہیے۔
اساتذہ کے ایک احتجاج اور دھرنے پر غصے سے لال پیلے ہونے والوں کو پہلے اپنے احتجاجی کارناموں پر بھی ایک نظر ضرور ڈالنی چاہیے۔ ایک سرکاری ملازم پی ٹی آئی کا جھنڈا ہاتھ میں اٹھائے وفاقی حکومت اور ریاست کیخلاف اگر احتجاج کر سکتا ہے تو پھر اس جیسا ایک ملازم اپنے جائز حق اور مطالبات کیلئے صوبائی حکومت کیخلاف احتجاج کیوں نہیں کر سکتا؟ یہ کس آئین اور قانون میں لکھا ہے کہ صوبائی حکومت کی آشیرباد اور سپورٹ سے خیبرپختونخوا کے لوگ اور سرکاری ملازم اسلام آباد اور پنجاب میں احتجاج اور مظاہرے کر سکتے ہیں لیکن اسی خیبرپختونخوا کے غریب سرکاری ملازم اپنے جائزحق کیلئے اپنے صوبے میں احتجاج نہیں کر سکتے؟ اپنے حق کیلئے نکلنے والے اساتذہ کو آڑے ہاتھوں لینے والے وزیروں، مشیروں اور ان کے ہمنوائوں کو اپنی ان معصومانہ اداؤں پر ضرور غور کرنا چاہئے۔
اس صوبے کے عوام نے تیسری بار ان بادشاہوں کو ووٹ اس لئے نہیں دیئے تھے کہ برسر اقتدار آنے کے بعد یہ قوم کے معماروں، مسیحاؤں اور عام لوگوں کے ساتھ یہ سلوک روا رکھیں گے۔ حاکمیت تو صرف اللہ کی ہے پھر بھی اگر اس زمین پر اللہ نے کسی انسان کو اس کی اوقات اور حیثیت سے بڑھ کر کوئی رتبہ اورکوئی عہدہ دے دیا ہے تو اس حال میں بجائے ٹیچروں، ڈاکٹروں اور مزدوروں کو آنکھیں دکھانے کے رب کا شکر بجا لا کر مظلوموں اور غریبوں کی دادرسی اور انکی ہر آواز پر لبیک کہنا چاہئے۔ پرامن احتجاج، جلسے، جلوس اور مظاہرے تو ہر شخص کا جمہوری حق ہے۔ جمہوریت میں احتجاج بھی ہوتے ہیں، مظاہرے بھی اور دھرنے بھی۔ کیا تحریک انصاف نے خود حکومت کے لئے سو سے زائد دن دھرنا نہیں دیا۔
آج اساتذہ کو آرام سے بیٹھنے اور سکولوں سے نہ نکلنے کا سبق پڑھانے اور درس دینے والے یہ بھول رہے ہیں کہ پچھلے چند سالوں میں اس ملک کے اندر سب سے زیادہ احتجاج انہی بادشاہوں اور ان کے کارکنوں نے کیا۔ جو چیز دوسروں کیلئے ناجائزاورغلط ہووہ پھراپنے لئے بھی ناجائزاورغلط ہوتی ہے۔ خیبرپختونخواکے وزیروں اورمشیروں کی یہ بات اگرمان لی جائے کہ اساتذہ کااپنے حقوق کیلئے احتجاج غلط ہے تو پھر یہ بات بھی ماننی پڑے گی کہ انہی وزیروں اورمشیروں کاوفاقی حکومت کے خلاف احتجاج بھی غلط ہے۔ جو کام آپ خود اورر وزانہ کرتے ہیں اس سے کسی اور یا دوسرے کو کیسے روک سکتے ہیں۔
اس ملک کاآئین اور قانون اگر آپ کو پرامن احتجاج کی اجازت دیتا ہے توکیاوہی آئین اورقانون کسی عام شہری، کسی ٹیچر، کسی ڈاکٹر، کسی انجینئراورکسی مزدور کو احتجاج کا حق نہیں دیتا۔ آئین اور قانون میں اگر یہ لکھا ہے کہ احتجاج، جلسے، جلوس، دھرنے اور مظاہرے صرف وقت کے حکمران یا سیاستدان کر سکتے ہیں اور کوئی نہیں تو پھر ٹھیک ہے ایک نہیں ہزار بار احتجاج کرنے والے اساتذہ کو معطل اور ان کی تنخواہوں سے کٹوتی کی جائے لیکن احتجاج کرنا جس طرح حکمرانوں اور سیاستدانوں کا حق ہے اسی طرح باقی لوگوں کا بھی تو پھر احتجاج پر زندہ رہنے والوں کو رعایا کے بارے میں بھی رعایت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
کیا اسلام آباد میں پی ٹی آئی نے جو احتجاج اور مظاہرے کئے تھے ان میں خیبرپختونخوا کے سرکاری ملازم شامل نہیں تھے؟ سرکاری ملازم اگر کپتان یا پی ٹی آئی کے لئے احتجاج کر سکتے ہیں تو پھر یہ ملازم اپنے حقوق اورمطالبات کے لئے بھی احتجاج کرنے کا پورا حق رکھتے ہیں۔ صوبائی حکومت کو اساتذہ کے خلاف انتقامی کارروائی کرنے کے بجائے اساتذہ کے مسائل کو حل کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔
اساتذہ اور ڈاکٹروں سمیت اس صوبے کے سرکاری ملازم مضبوط اور خوشحال ہوں گے تو اس سے صوبائی حکومت بھی مضبوط ہوگی۔ یہ کوئی طریقہ اور انصاف نہیں کہ حکمران اساتذہ، ڈاکٹر، انجینئرز، مزدوروں اور عوام کے مسائل بھی حل نہ کریں، ان کو ان کے حقوق بھی نہ دیں پھر ان کو رونے، چیخنے اور چلانے کی اجازت بھی نہ دیں۔ عوام کے مسائل حل نہیں کرنے نہ کریں لیکن کم ازکم ان کو گریبان پھاڑ کر رونے کی اجازت تو دیں۔