مسلم دنیا اپنی ایک علیحدہ ادارہ اقوام متحدہ تشکیل دے یہ وہ مطالبہ ہے جو مسلم دنیا کے مسائل کے حل میں اقوام متحدہ کی ناکامی کے ردعمل میں ہمارے بیشتر دینی سیاسی جماعتوں کے قائدین کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ آئیے! اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ مطالبہ کس حد تک درست ہے۔
دنیا کے سیاسی مفکرین کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ مختلف ملکوں کو قوموں کو باہمی تعلقات کے لیے زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کے قریب لایا جائے تاکہ پائیدار امن قائم رہے یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب دنیا میں آزادی، مساوات اور اخوت کے اصولوں پر عمل کیا جائے اور لوگ رنگ، نسل، زبان اور مذہب سے بالاتر ہوکر خالص انسانیت کو اپنا نصب العین بنائیں ، حقائق کی دنیا میں ہمیں اس کے برعکس عمل دکھائی دیتا ہے۔ مختلف ملکوں کے باہمی اختلافات، توسیع پسندانہ عزائم اور نظریاتی کشمکش اسی طرح کے دوسرے عوامل جنگ کا سبب بنتے رہے ہیں اور انسان اسکو روکنے کی مختلف تدابیر اختیار کرتا رہا ہے۔
ادارہ اقوام متحدہ کا قیام اس بنیاد پر لایا گیا ہے تاکہ دنیا کو ایک عالمی ریاست بنایا جاسکے جس میں دنیا کی اقوام امن کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ اقوام متحدہ نے دنیا کو ایک بین الاقوامی معاشرے کی شکل دی جس میں ہر ریاست بین الاقوامی معاشرے کی اکائی ہے۔ دنیا میں ریاست کے ٹوٹنے اور ایک ریاست کے دوسری ریاست میں شامل ہونے کی صورتوں میں کئی ریاستیں وجود میں آتی ہیں اس کے علاوہ جنگ وجدل، باغیانہ تحریکوں، انقلابات اور دیگر عوامل کی وجہ سے ریاستوں کی شناخت تبدیل ہوجاتی ہے۔
اقوام متحدہ کسی ملک کو ایسی صورت میں ہی اقوام متحدہ کا ممبر ملک بناتی ہے جب وہ ریاست سیاسی طور پر منظم ہو، مخصوص علاقے پر قبضہ رکھتی ہو، قبضہ پائیدار اور بلاشرکت غیرے ہو، وہاں پائیدار اور دیرپا امن ہو، ریاست پوری طرح آزاد اور خود مختار ہو اور اسکو چلانے کے لیے افراد کی منظم تنظیم ہو اور ریاست اس قدر استطاعت رکھتی ہو یعنی اس قابل ہو کہ وہ بین الاقوامی تعلقات استوار رکھ سکے۔ ایسی ریاست کو بین الاقوامی برادری تسلیم کرلیتی ہے تاہم خیال رہے کہ اس میں بڑی طاقتوں جنھیں Veto (ویٹو) پاور حاصل ہے ان کی منظوری لازمی قرار دی گئی ہے۔
یہی نہیں بلکہ تمام اہم معاملات میں ان کی منظوری کو ضروری قرار دیا گیا ہے کیونکہ بڑی طاقتیں بین الاقوامی معاملات پر کنٹرول رکھتی ہیں اس لیے بین الاقوامی امن قائم رکھنے اور بین الاقوامی تنازعات حل کرانے میں ان کی ذمے داری سب سے زیادہ ہے۔ اس ذمے داری سے عہدہ برا ہونے کے لیے انھیں یہ امتیازی حیثیت دی گئی ہے۔ دنیا میں ریاستوں کے مابین مفادات کا ٹکراؤ ان کے مابین تنازعات پیدا کرتا ہے۔
یہ تنازعات جنگ کا باعث بنتے ہیں جس سے بین الاقوامی امن کو خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ دنیا میں ان بین الاقوامی تنازعات کو پر امن ذرائع سے حل کرنے کے مختلف طریقے رائج ہیں۔ پہلا طریقہ Negotiation یعنی گفت و شنید کا ہے اس میں تنازعات کے حل کے لیے سفارتی سطح پر تبادلہ خیال کیا جاتا یعنی نمایندوں کے ذریعے بات چیت سے ان تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، ناکامی کی صورت میں دوسرا طریقہ Arbitration یعنی ثالثی کا طریقہ ہے ثالثی یا تو فریقین کی مرضی اور منشا سے کسی تیسری ریاست کی طرف سے ہوتی ہے یا پھر کوئی ریاست یا کئی ریاستیں فریقین کو ثالثی کے لیے اپنی خدمات پیش کرتی ہیں۔
ایک طریقہ کار Conciliation یعنی مصالحت کا بھی ہے جس میں فریقین کے مابین تنازعات کے خاتمے کے لیے مصالحتی کمیشن قائم کردیا جاتا ہے جو تنازعات کا جائزہ لے کر اپنی سفارشات مرتب کرکے مصالحتی کوشش کرکے حل نکالتا ہے۔ اگر سب کوششیں ناکام ہو جائیں باہمی اختلافات اور تنازعات اس نہج پر پہنچ جائیں کہ جنگ کے خطرات نظر آنے لگیں تو کوئی تیسرا فریق زبردستی مداخلت کرکے فریقین پر دباؤ ڈال کر انھیں گفت و شنید پر راضی کرتا ہے اور خود بھی مذاکرات میں شامل ہوکر مذاکرات کو کامیاب کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ ان تنازعات کو بین الاقوامی عدالت انصاف کے ذریعے بھی حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
عالمی عدالت انصاف بین الاقوامی قانون اور ضابطوں کی روشنی میں تنازعات کو حل کرنے کا فیصلہ دیتی ہے اگر کوئی فریق فیصلہ تسلیم نہ کرے تو بین الاقوامی برادری کی جانب سے اس کا سماجی اور معاشی بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔ مسئلہ تب بھی حل نہ ہو تو پھر سلامتی کونسل میں پیش کر دیا جاتا ہے۔ سلامتی کونسل تنازعات کے پرامن حل پر زور دیتی ہے ناکامی کی صورت میں فوجی کارروائی کے ذریعے اس کا حل نکالا جاتا ہے۔
یہ بات صحیح ہے کہ اقوام متحدہ سے دنیا بالخصوص کمزور ممالک نے جو توقعات وابستہ کی تھیں اقوام متحدہ وہ توقعات پوری نہیں کر سکی بالخصوص اسلامی دنیا اقوام متحدہ سے بہت شاکی ناراض اور بدظن دکھائی دیتی ہے۔ مسلم دنیا کی اقوام متحدہ سے ناراضگی کس حد تک درست ہے آئیے اب اس بات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ضابطوں کے مطابق کسی بھی ریاست کو چاہیے وہ عالمی طاقت ہی کیوں نہ ہو، یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی دوسری ریاست کے اندرونی اور خارجی معاملات میں مداخلت کرے یا اس کے جغرافیے کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے۔
بین الاقوامی قانون کی رو سے اندرونی معاملات میں اجازت صرف اس صورت میں دی گئی ہے جب کوئی ریاست اپنے شہریوں پر ظلم و ستم روا رکھے اور غیر انسانی اور غیر اخلاقی افعال کی مرتکب ٹھہرے ایسی ریاست کے خلاف دوسری ریاست مداخلت کرسکتی ہے اگر کوئی ریاست ایک طویل عرصے سے خانہ جنگی کا شکار ہو جسکی وجہ سے وہاں مسلسل کشت و خون ہو رہا ہو، لوگ قتل ہو رہے ہوں، خانہ جنگی رکنے کا کوئی امکان نہ ہو تو ایسی ریاست میں خانہ جنگی روکنے کے لیے ایسی ہی مداخلت کی جاسکتی ہے۔
جن ممالک میں کوئی واضح سیاسی نظام نہیں ہوتا وہاں ملوکیت، موروثیت اور آمریت کے ذریعے نظام حکومت چلایا جاتا ہے، ایسے ممالک میں سیاسی عمل پر پابندی ہونے کی صورت میں لسانی، مسلکی، فرقہ واریت، نسل پرستی پر مبنی علیحدگی پسندوں کو پنپنے کا موقع ملتا ہے جس سے ملک میں بغاوت، انتشار اور خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔
آمریت کے خلاف تحریکیں اٹھتی ہیں انھیں طاقت سے کچلا جاتا ہے جس سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔ بیشتر اسلامی ممالک میں ملوکیت اور آمریت کا راج ہے اس کے نتیجے میں وہ اکثر ایسی صورتحال سے دوچار رہتے ہیں۔ نتیجے میں ہمیں وہاں غیر ملکی مداخلت دکھائی دیتی ہے۔
ظاہر ہے اقوام متحدہ اپنے قوانین کی رو سے اس میں اپنا کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہے اس لیے مسلم دنیا کا اقوام متحدہ سے شکوہ بے معنی ہے تاہم اس تلخ حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ بعض ریاستیں اپنے مخصوص سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر دیگر ریاستوں بالخصوص ایسی ریاستیں جہاں غیر مستحکم اور غیر جمہوری حکومتیں ہیں۔
وہاں اپنے مفادات کے لیے مداخلت کرتی ہیں مثلاً کسی ریاست کے اندر علیحدگی پسندوں کو روپیہ پیسہ اور ہتھیار فراہم کرکے ان کی حوصلہ افزائی کرنا وہاں کے عوام کو فرقہ، مسلک، رنگ، نسل، زبان کی بنیاد پر تقسیم کرکے ریاست کو مسلسل انتشار اور خانہ جنگی کی حالت میں رکھنا تاکہ ریاست کو غیر مستحکم اور کمزور کرکے اپنے سیاسی مقاصد کو حاصل کیا جا سکے یہ وہ عوامل ہیں جو دوسرے ممالک میں سیاسی عدم استحکام کو پیدا کرکے دنیا کا امن و سکون برباد کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ اپنے قوانین کی روشنی میں ان ممالک کے خلاف کارروائی کرے تاکہ دنیا میں پائیدار امن قائم ہوسکے اور تمام دنیا کے لوگ امن و سکون کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں۔