گزشتہ دنوں میری ایک تحریر بعنوان "مسلم دنیا سائنسی ترقی میں ناکام کیوں؟" شایع ہوئی، اس تحریرکے جواب میں مجھے عبداللطیف انصاری جو مجھ سے نظریاتی اختلاف رکھنے کے باوجود میرے دیرینہ اور مخلص دوست ہیں انھوں نے میری تحریر سے کلی اختلاف کرتے ہوئے کئی صفحات پر مشتمل ایک ای میل ارسال کی ہے میں اس ای میل کو اس کالم میں مختصراً اپنے الفاظ میں تحریر میں لا رہا ہوں۔
انصاری صاحب لکھتے ہیں کہ آپ نے اپنے کالم سائنسی ترقی کے تاریخی پس منظر، یورپ میں اس کا عروج، مسلم دنیا میں سائنسی پسماندگی کے اسباب اور اس کی وجوہات اور تدارک پر روشنی ڈالی آپ نے سائنسی ترقی کو جو قابل فخر شے بنا کر پیش کیا ہے مجھے اس سے کلی اختلاف ہے۔
آپ لکھتے ہیں کہ یورپ کی ترقی دراصل مسلمانوں کی مرہون منت ہے، مسلمانوں نے یورپ کو یونانی اور عربوں کے علمی ذخیرے سے روشناس کرایا، اس علم میں یورپی عوام نے اضافہ کیا جس سے سائنسی ترقی کی بنیاد پڑی۔ آپ نے ایک بنیادی سوال کہ سائنسی ترقی یورپ میں ہی کیوں ہوئی؟ دنیا کے دیگر خطوں بالخصوص اسلامی دنیا میں ایسا کیوں نہ ہوسکا؟ آپ نے اس بنیادی سوال کو نظرانداز کردیا۔
یہ ایک اہم سوال ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ابتدا جب سائنسی نظریات کو فروغ حاصل ہوا تو وہاں کے مذہبی عناصر نے منطق سائنس اور فلسفے کو مذہبی نظریات اور عقائد سے ہم آہنگ قرار دیا۔ یہ سلسلہ کئی برسوں تک جاری رہا۔ مذہب کے اصول اٹل ہوتے ہیں اور اس میں تبدیلی کی گنجائش نہیں ہوتی جب کہ سائنس کے اصول اور نظریات تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
جب جدید سائنسی نظریات نے فروغ پایا تو مذہب اس کی توجیہات پیش نہ کر سکا۔ جس کے نتیجے میں کلیسا اور سائنس میں تصادم پیدا ہوا۔ پورے یورپ پر کلیسا کی حکمرانی تھی لہٰذا مذہبی عدالتوں نے ہزاروں افراد کوکفرکے الزام میں اذیتیں دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ تصادم یورپ میں کئی برس جاری رہا، لیکن کلیسا نے اپنی سچائی کا پیمانہ کیونکہ سائنس کو بنا لیا تھا نتیجے میں کلیسا کو شکست ہوئی۔
اس شکست کے نتیجے میں کلیسا نے دنیاوی امور سے الگ ہو کر دین اور دنیا کی تفریق گوارا کر لی دنیاوی اور سلطنت سے کنارہ کش ہو کر اپنے آپ کو روحانی معاملات کی حد تک خود کو محدود کر لیا۔ مذہبی عناصرکی دنیاوی امور سے علیحدگی کے نتیجے میں یورپ میں مادیت کو فروغ حاصل ہوا۔ اس کے نتیجے میں سائنسی ترقی ہوئی سائنسی ترقی کے نتیجے میں صنعتی انقلاب آیا اور صنعتی انقلاب کے نتیجے میں جو بربادی اور تباہی آئی اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
سائنس نے انسان اور فطرت کے درمیان جو توازن تھا وہ بگاڑ دیا ہے جنگلات کو دنیا کے پھیپھڑے قرار دیا جاتا تھا۔ صنعتی ترقی کے نتیجے میں انھیں تیزی سے کاٹا گیا۔ اس سے دنیا کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوا۔ جس کے نتیجے میں قطبین کی برف پانی میں تبدیل ہو رہی ہے جس سے ساری دنیا کے سمندروں کی سطح بلند ہوئی ہے۔ یہ بلند سطح نشیبی علاقوں کی زرخیز زمینوں کو نگل رہی ہے جس کی وجہ سے دنیا کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔ غذائی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے مصنوعی کھاد اور دیگرکیمیکل کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے، جس سے نہ صرف فصلیں اور زمین آلودہ ہوئی ہے بلکہ اس نے طرح طرح کی بیماریوں کو جنم دیا ہے جس کا آج کل انسان شکار نظر آتا ہے۔
مشینوں کے استعمال کے نتیجے میں بیروزگاری میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے وہاں فیکٹریوں صنعتی اداروں اور گاڑیوں سے نکلنے والا دھوئیں سے فضائی آلودگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اس آلودہ فضا میں سانس لینا مشکل ہو رہا ہے۔ اس فضائی آلودگی نے اوزون کی تہہ جو آسمان پر سورج کی روشنی کو فلٹرکرکے زمین پر بھیجتی ہے، اس کو متاثرکیا ہے جس کے نتیجے میں جلدی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مشینوں اور گاڑیوں کی آوازوں نے شور کی آلودگی میں اضافہ کیا ہے جس کے نتیجے میں انسان چڑچڑے پن اور بلڈ پریشر کا مریض بن گیا ہے۔
گھریلو اور ناکارہ اشیا، فیکٹریوں میں ضایع کیا ہوا کیمیکل اور دیگر اشیا کا کوڑا کرکٹ اور ناکارہ اشیا اکٹھی ہوتی ہیں ان کو ٹھکانے لگانا ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ ایٹمی تجربات کے نتیجے میں تاب کاری آلودگی میں اضافہ ہوا ہے۔
صنعتی ترقی کے نام پر ہم نے فضا، ہوا، پہاڑ، جنگل، سمندر، دریا اور نہریں سب کچھ آلودہ کر لیا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف انسان بلکہ جانور، چرند و پرند اور آبی مخلوق سب متاثر ہوئے ہیں۔
مادیت ہی سب کچھ ہے کے نظریے نے انسان کو حرص، حسد اور لالچ کا پجاری بنا دیا ہے جس کے نتیجے میں ظلم، استحصال، معاشی عدم مساوات سے مسائل معاشرے میں جنم لے رہے ہیں۔ اس نے انسان کو بے سکونی کے دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ اس سائنسی ترقی کا المیہ ہے کہ ہر فرد اپنی انفرادی لذت اور ذاتی جنت کی تعمیر و تشکیل و تخلیق میں مصروف عمل ہوکر اس دنیا کو اجتماعی جہنم اور دوزخ میں تبدیل کر رہا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سائنسی ترقی کی ان تباہ کاریوں کے دیکھنے کے باوجود ہمارے بعض دانشور اور اسلامی اسکالر نہ صرف سائنسی ترقی سے متاثر نظر آتے ہیں بلکہ قدیم یورپ کی طرح سائنس کے ذریعے مذہب کی سچائی اور اس کی حقانیت کو ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ایسا کرتے وقت وہ بھول جاتے ہیں کہ سائنس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا فرض کریں کہ سائنس دان "الف" خدا کی وحدت پر یقین رکھتا ہے سائنس دان۔ کئی دیوتاؤں کو مانتا ہے اور سائنس دان۔ ملحد ہے یہ تینوں سائنس دان ایک برتن میں پانی گرم کرتے ہیں پانی کوئی بھی گرم کرے پانی میں نقطہ ابال سو (100) سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت پر ہی آئے گا۔
اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سائنس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اس لیے ہمیں اسلامی سائنس کی اصطلاح سے گریز کرنا چاہیے۔ آپ کا کالم اسی زمرے میں آتا ہے۔ یاد رکھیں کہ مذہب میں خالق اور اس کی تخلیق پر ایمان کی بنیاد یقین اور عمل صالح پر ہے۔ جب کہ سائنس کوئی چیز تخلیق نہیں کرتی بلکہ دریافت کرتی ہے۔ اس کی بنیاد اندازے، شک، مفروضات، مشاہدات، تجربات اور عقلی برتری پر ہوتی ہے دونوں کے منہاج، پیمانے اور اصول الگ الگ ہیں۔ ایک منہاج سے دوسرے منہاج میں منتقلی ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص ایک مذہب کو چھوڑ کر دوسرے مذہب کو اختیار کرتا ہے۔ دو مختلف منہاج کو ملانا دراصل غیر سائنسی رویہ ہے۔ آپ کا سائنسی موضوع لکھتے ہوئے غیر سائنسی رویہ اپنا درست عمل نہیں۔
لطیف انصاری صاحب نے اپنی ای میلز میں جن باتوں کی نشاندہی کی ہے میرے نزدیک یہ زاویہ نگاہ کا فرق ہے تاہم انھوں نے اپنی تحریر میں سائنسی ترقی کے جن منفی اثرات پر اظہار خیال کیا ہے اس سے کوئی ذی شعور شخص انکار نہیں کرسکتا۔ جہاں تک سائنس کو اسلامی بنانے کی بحث کا تعلق ہے مجھے اس سے جزوی اختلاف ہے۔
سائنس کو اسلامی بنانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اس کی تھیوری اور تمام فارمولوں کو اسلامی بنا دیا جائے یا اس کے ذریعے مذہب کی حقانیت اور سچائی کو ثابت کیا جائے۔ سائنس کو اسلامی بنانے کا مطلب صرف یہ ہے کہ سائنس کو لادینی بناکر پیش نہ کیا جائے بلکہ سائنسی حقائق کو خدا کی نشانیاں تصورکیا جائے۔ یاد رکھیے انسان روح اور جسم کا مجموعہ ہے ہم روح کو نظرانداز کرکے کبھی سکون اور اطمینان حاصل نہیں کرسکتے اس لیے ہمیں مذہب کو اولین اہمیت دینی ہوگی۔