ڈارون ایک نامور سائنس دان تھا جو 1802 میں انگلینڈ میں پیدا ہوا۔ ڈارون اپنی خود نوشت میں لکھتا ہے کہ " زمانہ طالب علمی میں، مجھے شعر و ادب سے دلچسپی تھی، پھر میں سائنسی تحقیقات کے معاملات میں ایسا الجھا کہ اس طرف دھیان ہی نہیں رہا اور میرے اندر جو جمالیاتی حس تھی وہ معدوم ہوگئی اور میں فطرت کے حسن سے لطف اندوز ہونے سے محروم ہوگیا، لہٰذا میرا مشورہ ہے کہ انسان کو دن میں کم ازکم ایک یا ایک سے زیادہ اشعار ضرور پڑھ لینا چاہیے۔"
یہ ایک حقیقت ہے کہ سائنسی تخلیق اور مشینوں کے استعمال کے دوران جو ذہنی اور جسمانی تھکان ہوتی ہے اسے دورکرنے اور دل و دماغ کو اطمینان فراہم کرنے کے لیے انسان کا شعر و ادب میں دلچسپی لینا ضروری ہے بلاشبہ سائنس اور فلسفہ بڑے علوم ہیں لیکن یہ علوم انسانی دل کے اندر اور اس کے اندرکی دنیا میں داخل نہیں ہو پاتے شعر و ادب کو آپ علم کہیں یا کچھ اور یہ دل و دماغ کو متاثر کرنے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔
اگر کہا جائے کہ احساس مروت کو کچل دینے والے سائنسی دور میں شعر و ادب ہی روح کو توانائی اور اطمینان بخشنے کا بڑا ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔ ماضی میں ہم دیکھتے ہیں کہ شعر و ادب کو انسانی زندگی میں کلیدی حیثیت حاصل تھی لیکن اب ہمارا ادب جمود کا شکار ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا ادب نظریاتی فکری بنیادوں پر تقسیم ہے، ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس نظریاتی تقسیم کی بنیاد پر اپنی اپنی تخلیقات پیش کی جاتیں اس کے برعکس ہمارے یہاں ادیب نظریاتی بنیادوں پر ایک دوسرے سے دست و گریباں نظر آتے ہیں۔
ایک طبقے کا خیال ہے کہ ہر باشعور ادیب لاشعوری طور پر کسی نظریے کا علم بردار ہوتا ہے وہ نظریہ بے اختیار اس کی تحریر میں آجاتا ہے۔ تخلیقی صلاحیتیں بہت حد تک اسی نظریے کا مرہون منت ہوتی ہیں جب تک کوئی تخلیق کارکسی ٹھوس اور مستحکم نظریہ اور خیالات کا حامل نہیں ہوگا اس وقت تک وہ جان دار اور موثر تخلیق پیش کرنے سے قاصر رہے گا۔ نظریہ دراصل کسی بھی تخلیق کار کا نقطہ نظر کا نام ہے۔
تخلیق کار جو بھی نظریہ پیش کرے وہ علمی طور پر بہت مضبوط، عقلی اور منطقی طور پر مستحکم ہونا چاہیے۔ اس گروہ کے برعکس ایک دوسرا گروہ بھی ہے جس کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ادیب لامحدود رویے کا نمایندہ ہوتا ہے۔ اس لیے ادب کو کسی مذہبی، سیاسی اور معاشی نظریے کا پابند نہیں ہونا چاہیے۔
جب ادب نظریہ کا پابند ہوتا ہے تو محدود رویہ بن جاتا ہے وہ آزادی سے لکھ نہیں سکتا جو چیز آزادی کے ساتھ لکھی نہیں جاسکتی وہ کسی چیزکی اصلیت کو سمجھنے سے قاصر رہتی ہے۔ وہ سچائی پر مبنی نہیں ہوتی اور بغیر سچائی کے ساتھ لکھی جانے والی تحریر نہ دلکش ہوتی ہے اور نہ پراثر۔ ادیب کو اپنے نظریے کی تبلیغ نہیں کرنی چاہیے اس صورت میں ادب " ادب " نہیں رہتا پروپیگنڈا بن جاتا ہے۔
ادب کو کسی نظریے کی ضرورت نہیں ہوتی ادب تو احساس اور تخلیقی ادراک سے وجود میں آتا ہے۔ یہ تھا دونوں جانب کا نقطہ نظر۔ میری ذاتی رائے میں ادیب خود نظریہ ساز ہوتا ہے، اسے کسی نظریے کا پابند نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ اسے ادبی نظریے کا پابند ہونا چاہیے یعنی ادب کو اعلیٰ انسانی اقدار کا پابند ہونا چاہیے اگر ایسا نہیں ہے تو ادب پر وقت اور سرمایہ دونوں کا ضیاع ہوگا۔
ادب کے فروغ میں دوسری بڑی رکاوٹ ادب میں گروہ بندی ہے ہمارے بیشتر شعبہ زندگی کو گروہ بندی نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، اگرگروہ بندی علمی اور فکری بنیادوں پر ہوں تو مفید ہے مختلف نظریات خیالات رکھنے والے شعرا اور ادیب کے مابین مقابلے کی فضا پیدا ہوتی ہے، وہ تحقیق اور تخلیق میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اس طرح ادب کا دامن وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔
یہی گروہ جب ذاتی اختلافات کی صورت میں ظاہر ہو تو پھر ادب اور ادیب دونوں کا نقصان ہوتا ہے ایسی صورت میں اہل اور باصلاحیت ادیب آگے بڑھنے سے محروم رہتے ہیں اور نام نہاد ادیب اور شعرا جن کی لابی مضبوط ہوتی ہے وہ نمایاں مقام حاصل کرلیتے ہیں لیکن یاد رکھیے ایسے ادیب اور شعرا کو تاریخ فراموش کردیتی ہے۔ میری ذاتی رائے میں ادیب کو گروہ بندی سے گریز کرتے ہوئے سچائی کا علم بردار ہونا چاہیے۔
مادہ پرستانہ زندگی اور حرص و ہوس کے ماحول نے انسانی زندگی کو بے سکون بنا دیا ہے ایسے حالات میں ادیبوں اور شعرا پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذات کے حصار سے نکلیں اور پورے معاشرے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ پورے معاشرے کے حوالے سے گفتگو کریں معاشرے کی مثبت قوتوں کا ساتھ دیں۔ جو ادیب اور شعرا ایسے حالات میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے بجائے حالات کی ستم ظریفی کا شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں انھیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ادب زندگی سے مواد کشید کرتا ہے۔
مشکلات ایک تخلیقی قدر ہے بقول ایک دانشور " پودے کو ہوا اور دھوپ کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اس سے پہلے بیج کو ایک طویل عرصے تک تاریکی کے حبس میں رہنا ضروری ہوتا ہے" مشکلات سامنے ہوں تو ان کو ختم کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
ملک کے جتنے نامور ادیب اور شاعر گزرے ہیں ان پر ہر طرح کی معاشی اور اقتصادی مشکلات آئیں لیکن انھوں نے حالات کا مقابلہ کیا اور تخلیقی عمل کو جاری رکھا اور اپنی تخلیقات پیش کیں یاد رکھیے ایک شخص جو بھی کسی بھی معاشرے میں رہ رہا ہے، اس پر معاشرے کے کچھ حقوق ہیں اگر کوئی قلم کار ہے تو اسے اپنی قوم اپنے ملک اور اپنے معاشرے کی رہنمائی کے لیے اپنے قلم کا استعمال ضرور کرنا چاہیے۔