افغان طالبان کا مسئلہ کیا ہے؟ حکومتوں کے ساتھ ہمیشہ لوگ اختلاف کرتے ہیں لیکن ریاست کے خلاف جنگ نہیں کرتے، طالبان اگر حکومت کے خلاف ہیں تو ان کے ساتھ لڑنا شاید اپنا حق سمجھتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ریاست کے ساتھ کون سے گروہ لڑ رہے ہیں؟ ، پل کیوں تباہ کیے جا رہے ہیں، سڑکیں کیوں اڑائی جا رہی ہیں، پانی کے تالاب کیوں خراب کیے جا رہے ہیں، بجلی کا سسٹم کیسے برباد ہوا؟ ۔
یہ اثاثے تو افغانستان کی ملکیت ہیں، بڑی مشکلوں سے بنائی گئی ہیں، پھر کب بنیں گی، اس کا کسی کے پاس جواب نہیں۔ انتہا پسندوں گروہوں کو پاکستان اور افغانستان دونوں میں استعمال کیا گیا۔ افغانستان میں جو کچھ کیا گیا اور اس وحشیانہ طریقے سے کیا گیاکہ صاف ظاہر تھا کہ یہ اسلا م کی محبت میں نہیں، بلکہ اس کا بنیادی مقصد افغانستان کی بنیادی قومی اور ثقافتی شناخت ختم کرنا تھا۔
افغان طالبان نے 1996 کے دوران کابل میں اپنی حکومت قائم کی، سب سے پہلے انھوں نے ریڈیوکابل کا نام بدل کر شریعت غگ(شریعت کی آواز) رکھ دیا حالانکہ اسلام آباد، تہران، جدہ اور ریاض کے ریڈیو کا نام شریعت کی آوازیا شریعت غگ نہیں ہے، حالانکہ وہ بھی اسلامی ریاستیں ہیں، انھوں نے افغانستان کے قومی جھنڈے اور ترانے پر پابندی لگا دی، صدیوں سے افغانستان میں منائے جانے والے تہوار " نوروز" پر پابندی لگا دی، افغان معاشرے کی بنیاد یعنی جرگوں پر بھی پابندی لگادی اور جرگوں کو غیر اسلامی قرار دے دیا، ڈاکٹر نجیب کو قتل کردیا گیا حالانکہ انھوں نے امن کی خاطر حکومت چھوڑ کر اقوام متحدہ کے دفتر میں پناہ لی تھی، انھوں نے بامیان میں دو ہزار سال قدیم تاریخی گوتم بدھ کے مجسمے تباہ کردیے۔
محمود غزنوی(غزنی سلطنت کا ترک حکمران) نے ہندوستان میں سومنات کا مندر تو تباہ کیا لیکن افغانستان (ماضی کی غزنی سلطنت)کی تاریخی بدھا کے مجسموں کو نہیں چھیڑا، غرض طالبان دور حکومت میں ہر اس چیز، ادارے اور نشانی پر وار کیا گیا جس کا تعلق اس علاقے کے ہزاروں برس قدیم تاریخ اور کلچر سے تھا، یہ سیاسی لڑائی نہیں تھی بلکہ لگتا ہے کہ اس کا مقصد افغانستان کے کلچر کو تباہ کرنا تھا۔ اب بھی وہی عمل جاری ہے اور اس پر شرمندگی بھی نہیں ہے، عام تاثر یہ ہے کہ جنگجو ایک منصوبے کے تحت اس وقت تک صبر سے کام لیں گے، جب تک امریکی فوجی نہ نکل جائیں۔
طالبان نے دوہا میں کہا ہے کہ اگر پلان Aناکام ہو گیا تو ہم پلان Bبھی رکھتے ہیں۔ یہ بھی سنا جارہا ہے کہ جنگجو ڈیورنڈ لائن کے نزدیک افغانستان اور پاکستان علاقوں میں جمع ہو رہے ہیں۔ کیا یہ پلان Bکا حصہ ہے؟ سابقہ فاٹا کے قبائلی علاقوں میں پرانے طریقے سے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بھی ہوئے ہیں، کئی با اثر قبائلی شخصیات اور سیاسی کارکنوں کو قتل کیا گیا ہے۔
افغانستان کی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات جو تعطل کا شکار تھے، اب اعلان ہوا ہے کہ یہ مذاکرات 5جنوری کو دوہا میں شروع ہوں گے، یہ مذاکرات جو مارچ میں شروع ہونے تھے بالآخر بڑی مشکلوں سے 12ستمبر کو شروع ہوئے، پھر ان میں تعطل پیدا ہوا اور تعطل کا شکار ہو گئے، ایک طرف نومبر میں افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم اور افغان طالبان کے مابین آیندہ ہونے والے مذاکرات کے لیے اصول و قواعد پر سمجھوتہ ہونے سے امید بندھی تھی کہ امن اور مفاہمت کے عمل میں مزید پیش قدمی ہوگی اور حالات پرامن ہوجائیں گے لیکن دوسری طرف افغانستان میں پر تشدد واقعات میں اضافہ ہو گیا۔
ان واقعات میں افغان نیشنل آرمی کی چیک پوسٹوں پر حملے اور شہری علاقوں میں کار بم بلاسٹ اور خود کش حملے بھی شامل ہیں، اس طرح تشدد کی اس لہر میں افغان سیکیورٹی فورسزکے اراکین کے علاوہ معصوم شہریوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہلاک ہوئی ہے۔ صدر اشرف غنی کی حکومت افغان طالبان کو ان حملوں کا ذمے دار گردانتی ہے، جب کہ طالبان اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے امریکا پر جنگ کے شعلے تیز کرنے کا الزام لگاتے ہیں کیونکہ قندھار کے علاوہ دیگر کئی علاقوں میں امریکی طیاروں نے افغان فورسز کی مدد کرتے ہوئے طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کی تھی، بعض واقعات کی ذمے داری داعش والے بھی قبول کرتے ہیں۔
بعض اطلاعات کے مطابق، تشدد کی بڑھتی ہوئی اس لہر کی وجہ سے فریقین آیندہ بیس روز کے لیے مذاکرات معطل کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں، یوں لگتا ہے کہ بعض گروہ افغان مسئلے کا حل مذاکرات کی میز کے بجائے میدان جنگ میں تلاش کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں، اس صورت حال سے نہ صرف افغان حکومت کو تشویش لاحق ہے بلکہ امریکا، پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک جو افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں، وہ ممالک بھی فکرمند ہیں، بڑھتے ہوئے پر تشدد واقعات سے امریکا اور افغان طالبان کے مابین 29فروری کو طے پانے والا سمجھوتہ بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔
چنانچہ افغان امن اور مفاہمت کے اس عمل کو تازہ ترین خطرے سے نکالنے کے لیے سفارتی سرگرمیوں نے بھی تیزی پکڑ لی ہے، دوحہ میں مقیم افغان طالبان کا ایک وفد عبدالغنی برادر کی سرکردگی میں پاکستان کا دورہ کر چکا ہے۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق بین الافغان مذاکرات میں مصروف مذاکراتی ٹیم بھی افغانستان میں تشدد اور جنگ میں اضافے پر پریشان ہے کیونکہ انھیں نہ صرف امریکا اور افغانستان بلکہ ڈائیلاگ میں حصہ لینے والے افغان سول سوسائٹی کے دیگر گروپوں کی طرف سے بھی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
دوحہ میں مقیم افغان طالبان کے وفد نے پاکستان کی وزارت خارجہ کی دعوت پر دورہ کیا اور اہم بات یہ ہے کہ افغان حکومت نے ماضی کے برعکس اس دفعہ طالبان کے پاکستانی دورے کی حمایت کی اور افغان طالبان صدر اشرف غنی کی مرضی سے پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ جس دن افغان طالبان کا وفد ملا برادر کی سربراہی میں پاکستان پہنچا تھا، اس سے ایک روز قبل افغانستان کے لیے امریکی سفیر زلمے خلیل زاد نے افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈر انچیف جنرل آسٹن ملر کے ہمراہ پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ ان کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا افغانستان میں جنگ تیز ہونے اور انٹرا افغان ڈائیلاگ میں پیش رفت نہ ہونے پر فکرمند ہے۔
امریکی تشویش کا اندازہ اس اطلاع سے کیا جا سکتا ہے کہ جنرل ملر نے ایک روز قبل دوحہ کا دورہ کیا اور پاکستان آنے سے قبل وہاں افغان رہنماؤں سے ملاقات کی، اس کے بعد انھوں نے کابل کا دورہ کیا اور افغان صدر سمیت دیگر حکام سے ملاقات کی اور موجودہ صورت حال اور مذاکرات کے مستقبل پر صلاح مشورہ کیا، اس ساری صورت حال میں پاکستان ایک دفعہ پھر افغان مسئلے کے حوالے سے سفارتی مذاکرات کا مرکز بن گیا ہے کیونکہ یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان نے اہم کردار اداکیا ہے۔
ادھر یہ حقیقت بھی صاف ظاہر ہے کہ افغان طالبان موجودہ افغان حکومتی سیٹ اپ کو تسلیم نہیں کرتے اور ان کا خیال ہے کہ انھیں عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے، ان کے نزدیک افغانستان میں قیام امن کی راہ میں واحد رکاوٹ امریکا ہے، جس کی افغانستان میں مقیم فوج اور فضائیہ جنگ میں سرکاری فوجوں کی مدد کرتی ہے۔ دراصل افغان طالبان کا موقف یہ ہے کہ امریکا کو چاہیے کہ افغانستان سے نکل جائے لیکن امریکا اس پر راضی نہیں ہے۔
دوسری طرف افغان حکومت ابھی تک جوانمردی سے حالات کا مقابلہ کر رہی ہے، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ جنگجو گروہوں پر یہ واضح کیا جائے کہ افغانستان میں امن کا قیام جنگ نہیں بلکہ با مقصد مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے، ان کو یہ بھی سمجھانا ہوگا کہ ان کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ مین سٹریم میں شامل ہوکر جمہوری نظام کا حصہ بن جائیں اور عوام کی تائید سے اقتدار حاصل کریں۔ مذاکرات کامیاب ہونے کی صورت میں بھی طالبان کا فرض بنتاہے کہ وہ داعش کے خطرے کا خاتمہ کریں کیونکہ داعش کی موجودگی کی صورت میں افغان امن مذاکرات لا حاصل ہوجائیں گے، فریقین کو افغانستان میں قیام امن کو اولیت دینی چاہیے۔