پاکستان کی قومی سلامتی کو لاحق بہت سے خطرات میں انتہا پسندی کے بیانیے کے تحت انفرادی تکفیری عمل اور قتل و غارت گری سب سے اہم ہے، اس کے بارے میں یہ کہنا بنیادی اہمیت کا حامل تھا کہ ملک کی سلامتی کو سب سے بڑا خطرہ اندر سے ہے، نہ کہ باہر سے۔
موجودہ دور میں کسی ریاست کی سلامتی کے تقاضے بدل گئے ہیں، ماضی میں مضبوط سیکیورٹی کے ادارے، مضبوط بیوروکریسی، ہنگامی حالا ت کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری انفرا اسٹرکچر قائم رکھناکسی ریاست کے روایتی قومی سلامتی کے تقاضے پورے کرنے کے لیے لازمی تصور کیے جاتے تھے، بے شک یہ روایتی لوازمات قومی یا ریاستی سلامتی کے لیے لازمی ہوتے ہیں لیکن اب جدید ریاست کا وجود اس وقت ہی ممکن ہے جب اس میں بسنے والے انسانوں کی سلامتی کے تقاضے پورے ہوں گے۔
اقوام متحدہ کا چارٹر بھی قومی سلامتی کے انسانی پہلو پر زیادہ زور دیتا ہے، پاکستان میں بھی اس کی آبادی کے لوازمات میں سیاسی و اقتصادی استحکام، روزگار، خوراک، صاف ماحول، صحت، تعلیم، جان ومال کی سلامتی، توانائی کی فراہمی کی ضمانت شامل ہیں۔
پاکستان کا اقتصادی نظام نیم سرمایہ دارانہ اور نیم جاگیردارانہ ہے، ایک طبقہ بہت زیادہ مالدار اور ہر قسم کے وسائل پر قابض ہے، دوسرا طبقہ غربت کی لکیر کے نیچے گہرائیوں میں زندگی گزار رہا ہے، اس کے ساتھ خوراک کی اشیاء کی قیمتوں میں بے انتہا اضافے نے عوام کو فاقوں پر مجبور کر دیا ہے، غربت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، صنعتی اور کاروباری میدانوں میں خراب کارکردگی، توانائی کے بحران، دہشت گردی اور امن و امان کی خراب صورت حال کی وجہ سے سرمایہ کاری میں کمی کے ساتھ ساتھ، عالمی کورونا کی وجہ سے اقتصاد ی بحران نے بھی حالات کو بد تر کر دیا ہے۔
حکومت اپنے غیر ترقیاتی اخراجات کم کرنے کے بجائے بیرونی قرضوں پر ملک کو چلا رہی ہے، اب تو ایک ملک سے قرض لے کر دوسرے ملک کا قرضہ ادا کیا جا رہا ہے، اس طرح ملک پر بیرونی قرضوں کا بوجھ مزید بڑھ رہا ہے اور اس پالیسی کو وزیر اعظم اپنا کارنامہ قرار دے رہے ہیں، عوام کو اقتصادی سیکیورٹی اور روزگار کی ضمانت بھی میسر نہیں ہے۔
آج کی دنیا میں توانائی کے بغیر ترقی اور روزگار کا خواب دیکھنا عبث ہے، پاکستان مسلسل بجلی کی کمی اور اس کے نتیجے میں طویل لوڈ شیڈنگ کا شکار رہتا ہے، حکمرانوں نے آبی وسائل سے فائدہ اٹھانے میں مسلسل غفلت بھرتی ہے، واپڈا چیئرمین کے مطابق ملک میں پانی سے 100، 000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے جس کا صرف 15 فی صد استعمال ہو رہا ہے، جس پر حکومت کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ بجلی کی ترسیل کی ذمے دار محکمے کی کارکردگی بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ توانائی کے بغیر صنعتی اور سماجی ترقی نہیں ہو سکتی۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کا انحصار دریائے سندھ کے طاس پر ہے، یہ دریا ملک کی اقتصادیات کی ریڑھ کی ہڈی ہے، اس پر دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی کا نظام قائم ہے، اس کے ذریعے ملک کی 90فی صد خوراک اور 25فی صد GDPحاصل ہوتا ہے، پاکستان کے پانی کا ایک بڑا حصہ سمندر میں جاکر ضایع ہو رہا ہے، آبپاشی کا سسٹم دن بدن مختلف مسائل کا شکار ہو رہا ہے، صوبوں کے درمیان پانی کے تنازعات بڑھ رہے ہیں، ان مسائل کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے، ورنہ یہ خطرہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پاکستان بہت جلد پانی کی کمی والے ممالک میں شامل ہو جائے گا، ان وجوہات کی وجہ سے ہندوستان کی بلیک میلنگ بھی جاری ہے، بھاشا، کٹ زرہ، مہمند، داسو، ا
جیسے نہ جانے کتنے ڈیم حکمرانوں کی غفلت کا شکار رہے ہیں، بہ امر مجبوری جو ڈیم شروع کیے گئے ہیں، ان کا کام تاخیر کا شکار ہے۔
سیاسی استحکام، معاشی ترقی، انسانی صحت اور پیداواری صلاحیتوں میں اضافے کے لیے لازمی ہے کہ خوراک کی فراہمی ہر شہری کو باقاعدگی سے ہوتی رہے، پاکستان میں خوراک کی اشیاء کی مستقل عدم فراہمی اور عوام کی قوت خرید میں کمی اہم ترین مسائل ہیں، شرم کا مقام ہے کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم سبزیاں باہر سے برآمد کرنے پر مجبور ہیں، اس کے لیے سب سے اہم قدم زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیرداری نظام کا خاتمہ ہے، خوراک کی سیکیورٹی کے بارے میں حکومت کے قائم کردہ ٹاسک فورس نے اپنی رپورٹ میں مختلف اقدامات کی سفارشات کی ہیں، ان میں سب سے اہم اگلے دس سال کے دوران زرعی پیداوار میں سالانہ 4 فی صد اضافہ لازمی قرار دیا گیاہے، حالانکہ صورت حال یہ ہے کہ زرعی پیداوار میں مسلسل کمی ہو رہی ہے اور اب گندم، چینی اور کپاس وغیرہ باہر سے درآمد کی جا رہی ہیں۔ ،
اس کے ساتھ خوراک کے اشیاء کی محفوظ ترسیل، اسٹوریج اور تقسیم کا بہترین نظام ہونا چاہیے، زراعت اور اس کے اجناس کی تجارت کے لیے آسان قرضے، زرعی ریسرچ پر توجہ دینا ہوگی۔ حکومت کو ماحولیاتی تبدیلیوں مثلاً پانی کی کمی، صحراء اور سیم و تھور میں اضافے، بلین ٹری کے بجائے جنگلات کے خاتمے، زمین کی دریا بردگی) (erosion، فصلوں کی کسان کو مناسب قیمت اور زرعی بیجوں و دوائیوں کی قیمتوں میں کمی جیسے مسائل پر بھی توجہ دینی ہوگی۔
اپنے باشندوں کو صحت اور تعلیم کی ضمانت دینا کسی بھی ریاست کی بنیادی ذمے داری ہوتی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی ریاست نے ان فرائض کی ادائیگی سے ہاتھ کھینچ لیا ہے، سرکاری اسپتالوں کی حالت سے ہر پاکستانی شہری آگاہ ہے۔ اسی طرح تعلیمی نظام بھی کسمپرسی کا شکار ہے، تباہی کا اس سے بہتر ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ محکمہ تعلیم کے وزیر اور سیکریٹری سے لے کر ایک عام استاد اور چپڑاسی تک کے بچے بھی سرکاری اسکولوں میں پڑھنا پسند نہیں کرتے، یہ پرائیویٹ اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، کروڑوں روپے تعلیم کی بہتری کے لیے سرکار سے وصول کرنے والے اگر ان اداروں پر اتنا بھی اعتماد نہیں کرتے تو تعلیم کا معیار کیا خاک بہتر ہوگا۔
پاکستان میں تعلیم طبقاتی و فرقہ وارانہ مسائل پیدا کر رہا ہے، حکومت کا یکساں نظام تعلیم کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں ہے۔ پاکستان دنیا میں آبادی کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک ہے اور اس کی آبادی میں اضافے کی شرح بہت زیادہ ہے، آبادی میں اس بے ہنگم اضافے کو ماہرین "آبادی کا بم" (Population Bomb) کہتے ہیں، خطرہ ہے کہ یہ بم ایک دن پھٹ کر پوری ریاستی ڈھانچے کو تباہ و برباد کر دے گا۔
پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اپنے قیام سے لے کر آج تک اس کی مغربی سرحدیں غیر مستحکم ہیں، ریاست کی بقاء کا انحصار، ملک میں رہنے والے عوام کی خوشحالی پر منحصر ہے، اس لیے ملک کی بقاء کے لیے ایک فلاحی ریاست کا قیام لازمی ہے۔ ہندوستان اور افغانستان دشمنی پر قائم ہمارا بیانیہ بھی مسائل پیدا کررہا ہے، پاکستان کا اصرار ہے کہ ہندوستان، بلو چ قوم پرستوں اور طالبان کو استعمال کرکے پاکستان میں دہشت گردی کرارہا ہے، دوسری طرف ہندوستان مطالبہ کر رہا ہے کہ کشمیر میں پاکستان کی طرف سے بھیجے گئے جہاد یوں کے ذریعے جہاد بند کیا جائے ورنہ ہم بھی پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کو استعمال کریں گے، وہی صورت حال ہے جو افغانستان اور پاکستان کے درمیان ہے، اسی طرح ہندوستان کے ساتھ بھی مسائل بیٹھ کر حل کرنے چاہیے، آخر ہم کس کس محاذ پر لڑیں گے؟ ،
خدا کے لیے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں، صرف ہندوستان پر تنقید سے کام نہیں چلے گا، بنیادی مسئلہ حل ہونا چاہیے، دونوں ممالک کو عدم مداخلت کی پالیسی بنانی ہو گی۔ آخر پاکستان کی قوم کب تک جنگجوؤں گروپ کے عزائم کی بھینٹ چڑھتی رہے گی۔ ایسا ملک کیسے ترقی کرے گا جو اپنے قیام سے آج تک مسلسل ہمسایوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہے۔ ملک کی بقاء کا انحصار آئین کے مطابق ایک جمہوری وفاقی ریاست میں ہے۔