دنیا میں دو ممالک اسپین اور میکسیکو میں بیلوں کے ساتھ انسانوں کی لڑائی کا کھیل ہوتا ہے، اس کھیل کو "بل فاٹنگ"یا بیلوں کی لڑائی کہتے ہیں، میدان میں کھلاڑی کھڑا ہوتا ہے اور ایک بدمست بیل کو میدان میں چھوڑ دیا جاتا ہے، کھلاڑی کے پاس ایک سرخ رنگ کا کپڑا ہوتا ہے اور وہ اس کو بیل کے آگے لہراتا ہے، بیل اس کپڑے کو دیکھ کر آپے سے باہر ہوجاتا ہے اورکھلاڑی پر حملہ آ ور ہو جاتا ہے۔
معلوم نہیں کہ سرخ رنگ میں کیا مسئلہ ہے کہ رجعت پسند، سرمایہ دار اور بیل تینوں اس کو دیکھ کر آگ بگولہ ہوجاتے ہیں؟ سرخ کپڑا لہرانے کے اس عمل کو Red rag to a bullکہتے ہیں، آج عمران خان کی کابینہ میٹنگ کے بعد تقریر سنی، اپنی تقریر کے دوران وہ مستقل طور پر حزب اختلاف کے سامنے سرخ کپڑا لہراتے رہتے ہیں بلکہ وزیر اور مشیر ہاتھوں میں سرخ کپڑا لیے ہوئے حزب اختلاف کے سامنے لہراتے رہتے ہیں، معلوم نہیں کہ صاحبان اقتدار اس عمل سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
عمران خان صاحب کا ایک تکیہ کلام بن چکا ہے کہ " NROنہیں دوں گا"۔ سیاستدانوں کے خلاف نیب نے کیس بنائے اور شاید ان کو یقین تھا کہ یہ اپوزیشن کے یہ سیاستدان اب ساری عمر جیلوں میں سڑتے رہیں گے، لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ نواز شریف لندن میں بیٹھ کر تقاریر کر رہے ہیں، ایک دوست کا تجزیہ ہے کہ نواز شریف بڑے صوبے کے حقیقی لیڈر ہیں اور با لادست طبقے چاہتے ہوئے بھی ایک حد سے زیادہ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، یہ بات اب ثابت ہوچکی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے لڑ کر بھی دو مرتبہ واپس حکمران بن جاتے ہیں، دونوں بار مضبوط مخالفین سے لڑ کر وہ مکھن سے بال کی طرح نکل گئے۔
آصف زرداری کرپشن کے الزام میں تیرہ سال قید کے بعد صدر پاکستان بن گئے اور اب بھی اسپتال میں ہیں اور کبھی گھر بھی آجاتے ہیں جیسے کہ بختاور کی منگنی میں بلاول ہائوس میں موجود تھے، حمزہ اور شہباز شریف جیل میں ہیں لیکن پچھلے کیس میں سپریم کورٹ نے ملزم تسلیم کرنے کے بجائے شہباز شریف کی اس کیس میں تعریف کی تھی، جس میں نیب نے ان کو جیل میں رکھا تھا، نیب ان پر پرانے الزام ثابت نہ کر سکا تو نیا کیا کرلے گا۔ اسحاق ڈار، مریم نواز، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف بھی گھروں میں خیریت سے ہیں، الٹا نیب کو بدنامی ضرور ملی اور سپریم کورٹ نے کہہ دیا کہ نیب سیاسی انجینئرنگ کا ادارہ بن چکا ہے۔ حنیف عباسی کو شیخ رشید کی انتخابی کامیابی کے لیے گرفتار کرکے آدھی رات کو سزا دی گئی، آج وہ بھی باہر ہے۔
یوسف رضا گیلانی کے بیٹوں پر ایفی ڈرین کا کیس تھا لیکن وہ بھی غائب ہو گیا اور حنیف عباسی کی قید کے علاوہ وہ کیس بھی بند کردیا گیا، سب سے دلچسپ کیس رانا ثناء اللہ کا ہے۔ وزیر محترم جناب شہریار آفریدی"جان خدا کو دیتے دیتے "منظر سے غائب ہوگئے، رانا صاحب باہر پھر رہے ہیں اور وزیرصاحب کو خاموشی سے کھڈے لائن لگا دیا گیا، معلوم نہیں کہ کیس کا کیا بنا؟ شاہد خاقان بھی LNGکیس میں باہر پھر رہے ہیں بلکہ اب تو خیر سے امریکا میں ہیں۔
الٹا ندیم بابر صاحب گیس اور LNG کی قلت کے بارے میں سوالات کی زد میں ہیں، احسن اقبال بھی باہر ہیں، فواد حسن اور احد چیمہ اپنی بہتر کارکردگی کی سزا بھگت رہے ہیں لیکن ان کی گرفتاری کا ایک نقصان یہ ہوا کہ پوری بیوروکریسی نے کام چھوڑ کر سلو موشن کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ شاید عمران خان کو دوسری باتوں کی طرح ان کیسوں کا بھی پتہ نہ ہو، اس لیے وہ اب بھی NROنہیں دوں گا کا راگ الاپ رہے ہیں۔
دنیا بھر کے حکمران مسند اقتدار پر بیٹھتے ہیں تو ان کا رویہ یکسر تبدیل ہوجاتا ہے اور وہ بحیثیت حکمران ہمہ وقت عوام کی بہتری، فلاح و بہبود اور ان کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں رہتے ہیں، وہ اس دوران کوشش کرتے ہیں کہ اپوزیشن کو ٹھنڈا رکھیں، تاکہ وہ اپنی ساری صلاحیتیں مثبت اور تعمیری کاموں میں صرف کرسکیں، عمران خان کا طریقہ عجیب ہے، ان کی ہر تقریر کا موضوع شریف خاندان کو چور اور ڈاکو ثابت کرنے کا ہوتا ہے، نواز شریف کو طعنے دیتے ہیں کہ اس کے بچے لندن میں ہیں لیکن اپنے بچوں کو بھول جاتے ہیں۔ یہ رویہ صرف وزیراعظم کا نہیں بلکہ ان کی پوری پارٹی، کابینہ اور مشیران اسی کام میں مصروف ہیں، یہ الگ بات ہے کہ عملی طور پر حکومت کی کارکردگی ابھی تک صفر ایک انچ آگے نہیں بڑھ سکی۔
پی ٹی آئی والوں کا دعویٰ تھا کہ ملک میں روزانہ دس ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے، وہ اس کو بند کر دیں گے، سوئس بینکوں میں ملک کے چوروں نے جو دو سو ارب ڈالر چھپا کر رکھے ہیں، وہ ملک میں واپس لائیں گے، کوئی بیس ارب ڈالر زرداری اور نواز شریف سے وصول کریں گے، بیرونی ملک پاکستانی تحریک انصاف کی حکومت آتے ہی ڈالروں کی بارش کردیں گے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضے ان کے منہ پر مار کر عالمی اداروں کی غلامی سے نجات حاصل کریں گے، اب اسٹیٹ بینک کہہ رہا ہے کہ موجودہ حکومت کے پچھلے دوسال میں صرف غیر ملکی قرضوں کی مقدار سترہ ارب ڈالر مزید بڑھ گئی ہے۔
ارباب اقتدار کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ ملک تقریروں سے نہیں چلتے، تقریریں تو حزب اختلاف کا کام ہوتا ہیں، حکومت تو کارکردگی دکھانا ہوتی ہے، معیشت اسحق ڈار کو برا بھلا کہنے سے درست نہیں ہو سکتی، مہنگائی نواز شریف کو چور ڈاکو کہنے سے کم نہیں ہوتی، برآمدات گزشتہ حکمرانوں کے کرپشن کے قصے بیان کرنے سے نہیں بڑھتیں، ڈالر کی قیمت دعوے کرنے سے کم نہیں ہوتی، ایک کروڑ نوکریاں منہ پر ہاتھ پھیر کر لوگوں کو جیل میں ڈالنے سے نہیں ملتیں۔
سیاسی مخالفین کے خلاف ریفرنس بنانے سے پچاس لاکھ مکان نہیں بنتے، اس کے لیے ملک کی معاشی صورت حال کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ پرانی تقریریں دہرانے سے معاشی حالات ٹھیک نہیں ہوں گی، برآمدات بڑھانے کے لیے بجلی کی قیمت زیادہ کرنے کی بجائے کم کرنا ہوگی، اس کے بغیر آپ کی مصنوعات عالمی منڈیوں میں دوسرے ملکوں کا مقابلہ نہیں کرسکتیں، زراعت کو ترقی دینی ہوگی، شرم کا مقام ہے کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم سبزیاں اور گندم وغیرہ درآمد کر رہے ہیں۔ پارلیمنٹ کوفعال بنا کر عوام کے مفاد میں قانون سازی کرنی ہوگی۔
وزیر اعظم صاحب کہہ رہے ہیں کہ ہماری تیاری نہیں تھی اور حکومت مل گئی اس لیے کافی عرصے تک سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ حکومت کیسے کی جاتی ہے؟ حالانکہ وہ کہا کرتے تھے کہ ہماری تیاری کافی ہے اور میرے پاس دو سو افراد کی ٹیم ہے جو ملک کی صورت حال کو تبدیل کر دے گی، معلوم نہیں کہ وہ دوسو افراد کی ٹیم کہاں گئی۔؟ لیکن ایک بات صاف ظاہر ہے کہ حفیظ شیخ، غلام سرور خان، پرویز خٹک، شاہ محمود قریشی، خسرو بختیار، شیخ رشید، رزاق دائود، عمر ایوب اور باقی وزراء کیا غیر تجربہ کار ہیں جنہوں نے پوری عمر مختلف حکومتوں میں وزارتیں چلانے میں گزاری ہے، آخر تجربہ اور کیسے ہوتا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ اگر حکومت نے کچھ اچھا کیا ہے اور عوام کو ریلیف دیا ہے تو اس کی حقیقت سامنے کیوں نہیں آرہی، ابھی تک تو اس طرز حکمرانی میں تو صرف عوام ہی مار کھا رہے ہیں۔