سابقہ کالم میں زرعی اور سماجی اصلاحات پر بات ہوئی تھی۔ پاکستان کی پسماندگی کی بنیادی وجہ اس کا نیم سرمایہ دارانہ، نیم قبائلی اور نیم جاگیردارانہ معاشی وسماجی نظام ہے، جب تک جاگیرداری اور قبائلی نظام ختم نہیں ہو گا، اس وقت تک سرمایہ داری یا مارکیٹ اکانومی بھی ترقی نہیں کر سکتی۔
اس کی بڑی مثال گندم ہے جو ہماری خوراک کا لازمی جز ہے، عام طور پر فروری کے بعد گندم کی کمی شروع ہوتی ہے، اب عجیب بات یہ ہوئی کہ گندم کی فصل آتے ہی غائب ہو گئی، اور دن بدن مہنگی ہوتی جا رہی ہے، شرم کی بات یہ ہے کہ ایک زرعی ملک جو ہمیشہ اضافی گندم برآمد کرتا رہا، اس سال گندم کی درآمد پر مجبور ہوگیا، یہ سب کچھ ہو رہا ہے لیکن حکومت مسئلے کی جڑ کی طرف توجہ نہیں دے رہی یعنی زراعت اور کسان کی ترقی کی طرف توجہ نہیں ہے۔
پچھلے چند سال کی رپورٹ کے مطابق زرعی شعبہ مسلسل منفی اشارے دکھا رہا تھا اگر کبھی اس شعبے کو مراعات دی گئیں تو کچھ عرصے کے لیے معاشی ترقی ہوئی لیکن حکومت نے کبھی اس شعبے میں ملکیت کی غیرفطری تقسیم پر کبھی بات نہیں کی اور نہ توجہ دی گئی، جب کہ یہ مسئلہ زراعت کی کمزوری کا سب سے بڑا سبب ہے۔
زراعت تین وجوہات کی وجہ سے اہمیت رکھتی ہے۔ یہ واحد ذریعہ ہے کہ جس سے خوراک کا حصول ہوتا ہے، یہ قومی دولت یا GDP میں اضافہ کرتی ہے اور محنت کشوں کی بڑی تعداد کو روزگار دیتی ہے اگر اس شعبے پر توجہ دی جائے تو نہ صرف زمیندار بلکہ حکومت کوبھی اس کا بڑا فائدہ ہو سکتا ہے۔
اس کے لیے لازمی ہے کہ اس شعبے کے چھوٹے مالکان پر توجہ دی جائے، حالیہ زرعی مردم شماری کے مطابق ایک ایکڑ سے کم مالکان کی تعداد کل مالکان کا 19 فی صد ہے لیکن ان کی اراضی کا رقبہ کل قابل کاشت اراضی کا ایک فی صد بنتا ہے، پانچ ایکڑ سے کم مالکان کی تعداد کل کا 64 فی صد ہے لیکن اراضی 19 فی صد ہے، دوسری طرف 25 ایکڑ سے 150ایکڑ تک کے مالکان کی تعداد کل مالکان کا 5 فی صد بنتا ہے لیکن ان کے پاس زمین کا 35 فی صد ہے۔
عام تجزیہ ہے کہ سابقہ زرعی اصلاحات کو چالیس سال ہو گئے ہیں اور اس دوران بڑے زمینداروں کے پاس زمین کی مقدار کم ہونے کے بجائے زیادہ ہو گئی ہے، کم زمین رکھنے والے کاشتکاروں کی زندگی بہت پسماندہ ہوتی ہے، نہ وہ لوازمات پورے کر سکتے ہیں اور نہ ہی مشین کے استعمال کے قابل ہوتے ہیں۔
ان کو قرضہ حاصل کرنے کی سہولت بھی نہیں ہوتی، خاندان کی تعلیم اور صحت کے مسائل حل کرنا ان کے لیے مشکل ہوتے ہیں اور وہ غربت کی وجہ سے سماجی زندگی میں بھی ترقی نہیں کر سکتے، اس لیے اپنی زمین فروخت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ ایوب خان کی 1959 اور ذوالفقار علی بھٹو کے1970 کی زرعی اصلاحات نے کسانوں کے بجائے جاگیرداروں کو فائدہ پہنچایا، 1977 کی اصلاحات میں جو فائدہ کسانوں کو پہنچنا تھا اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
آج تک سمجھ نہیں آئی کہ ہمارے سیاستدان اور خاص کر ممبران پارلیمنٹ، اسلام آباد میں کرتے کیا ہیں؟ دہشتگردی، صحیح مردم شماری، NFC ایوارڈ، ناروالوڈ شیڈنگ، مہنگائی، بیروزگاری، بجلی، تیل اور گیس کی ظالمانہ قیمتوں، نظام عدل کی اصلاح، کرپشن اور احتساب کے ایک صحیح نظام کے قیام، تعلیم اور صحت کے مسائل اور خارجہ پالیسی کی سمت درست رکھنے، جیسے مسائل پر کبھی سنجیدہ بحث نہیں ہوئی۔ کیا ان کا کام صرف ٹرانسفر، پوسٹنگ اور فنڈز کا ناجائز استعمال ہی رہ گیا ہے۔
دنیا کے سب معاشی ماہرین یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ جب تک جاگیردارانہ نظام ختم نہیں ہو گا اس وقت تک ملک ترقی نہیں کر سکتا، آج اسی مسئلے کی طرف حکمرانوں اور حزب اختلاف کو توجہ د لانے کی کو شش کرتے ہیں، کیونکہ یہ ملک کے بنیادی مسائل میں ایک ہے، عوام بھوکے ہیں اور ان کو خوراک کی ضرورت ہے، عوام کا حق ہے کہ ان کو کھانے کے لیے خوراک اور اس کو پیدا کرنے کے لیے کسان کو زمین ملے، عوام کا یہ حق ریاست کی بنیادی ذمے داری ہوتی ہے، جس کو ہمارے حکمران بھول چکے ہیں۔
اللہ تعالی نے انسان کی ہر ضرورت زمین میں پیدا کی ہے اگر انسان کے رزق کا یہ خزانہ چند جاگیرداروں کے قبضے میں ہو اور لاکھوں عوام اور غریب ان کی وجہ سے محروم اور بھوکے ہوں تو یہ عمل اسلامی کیسے ہو سکتا ہے؟ بھوک کسی کا انتظار نہیں کر سکتی اور عوام بھی اس وقت کا انتظار نہیں کر سکتے کہ جب سیاستدان اپنے ذاتی اقتدار اور اس کے مسائل سے فارغ ہوں تو پھر اس مسئلے کی طرف توجہ دیں گے، بھوک تو ہر وقت اور ہر جگہ لگتی ہے اور انسان بھوک مٹانے کے لیے کوئی بھی جرم یا احتجاج کر سکتا ہے۔ بقول ساحرؔ لدھیانوی!
نور سرمایہ سے ہے روئے تمدن کی جلا
ہم جہاں ہیں وہاں تہذیب نہیں پل سکتی
مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک، آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی
کسان ملک کے لیے خوراک پیدا کرتا ہے، خوراک وہ محنت کرکے اپنی دھرتی ماں سے حاصل کرتا ہے، اس کو اپنی ماں یعنی زمین سے محروم رکھ کر ملک کو بھوک اور خوراک کی کمی کا شکار بنا دیا گیا ہے، زراعت کا کوئی متبادل نہیں کیونکہ خوراک کی فراہمی کی ضمانت (Food Security) ناگزیر ہے، ملک کا کوئی اور شعبہ نہ اتنی پیداوار دے سکتا ہے اور نہ کسی دوسرے شعبے میں زراعت جتنے محنت کش کام کرتے ہیں۔
اگر پاکستان کی کل بہترین زرعی اراضی کا دو تہائی حصہ چند جاگیرداروں یا قبائلی سرداروں کے قبضے میں ہو تو اس سے ملک کو کیسے فائدہ حاصل ہوگا؟ اگر اس اراضی کو تقسیم کر دیا جائے تو ایک طرف لاکھوں لوگوں کو زرعی اراضی کی شکل میں روزگار اور وسائل مل جائیں گے اور ملک میں زیادہ خوراک بھی پیدا ہوگی۔
زرعی اصلاحات کو کمیونسٹوں کا منشور کہہ کر رد کر دیا جاتاہے، حالانکہ زرعی اصلاحات کوئی کمیونسٹوں کا مطالبہ نہیں تھا بلکہ خود سرمایہ داری نظام نے آتے ہی سب سے پہلے جاگیرداری پر وار کیا، اس طرح ایک طرف کسان جاگیردار کی غلامی سے چھٹکارا پاکر کارخانوں میں کام کے لیے آزاد ہوگئے، دوسری طرف ان کی قوت خرید بڑھ گئی اور اس طرح سرمایہ دار کے تیار کیے گئے مال کے لیے نئے خریدار بھی مل گئے۔
برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک میں صنعتی ترقی کے ساتھ سرمایہ داروں کو ابتداء میں کارخانوں کے لیے مزدوروں کی کمی کا سامنا تھا، ملک کے محنت کشوں کی اکثریت جاگیرداروں کے چنگل میں پھنسی ہوئی تھی، جاگیرداروں سے کسانوں کو کارخانوں میں کام پر لانے کے لیے ضروری تھا کہ جاگیرداری نظام کو ختم کیا جائے، کسان جو ملک کی آبادی کی اکثریت تھے وہ انتہائی غربت کی زندگی گزار رہے تھے۔
اس وجہ سے ان کی قوت خرید بھی بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر تھی، صنعت کاروں کو عوام کی قوت خرید میں اضافہ مقصود تھا، اگر کسان کی مالی حالت اچھی ہوگی تو وہ کارخانے میں بنی ہوئی اشیاء خریدنے کے قابل ہوگا، اس لیے جاگیرداری پر سب سے پہلے وار ان ممالک میں ہوا جہاں پر صنعتی ترقی کی رفتار تیز تھی، اس کے بعد امریکا اور بھارت جیسے ممالک میں بھی جاگیرداری ختم کی گئی، پاکستان میں زرعی اصلاحات صدر ایوب خان اور بھٹو صاحب کی حکومتوں میں ہوئیں، اگرچہ ان پر عمل درآمد پوری طرح حکمران جاگیردار طبقے نے نہ ہونے دیا۔
پاکستان میں اکثر سیاسی پارٹیوں کے منشوروں میں کسانوں کی حالت بہتر بنانے اور زرعی اصلاحات کا وعدہ تو کیا جاتا ہے، لیکن ان وعدوں پر عمل درآمد کرنے میں تمام پارٹیاں دھوکے بازی سے کام لے رہی ہیں، جاگیرداری موجودہ دور میں تاریخ کے کباڑ خانے میں پڑی ہوئی ہے۔ اگر پاکستان نے ترقی کرنی ہے تو اس فرسودہ اور پسماندگی کی وجہ بننے والے جاگیرداری نظام کو ختم کرنا ہوگا، اگر کسان مالک بن گیا اور حکومت نے اس شعبے کی طرف تھوڑی سی توجہ بھی دی تو پاکستان میں کم از کم بھوکا کوئی نہیں مرے گا، بلکہ ملک کی اکثریتی آبادی، یعنی کسانوں کا معیار زندگی بھی بہتر ہوجائے گا۔