ایک بات واضح ہے کہ وفاق پاکستان میں اکائیوں کے تحفظ کے ایوان یعنی سینیٹ کی کارکردگی اور انتخاب دونوں ایک مذاق بن چکے ہیں۔
کارل مارکس نے کہا تھا کہ "مختلف فلاسفر وں نے دنیا کی تشریح مختلف انداز میں کی ہے لیکن اصل مسئلہ اس کو بدلنے کا ہے"۔ اب ہمیں بھی کہنا چائیے کہ "اصل مسئلہ سینیٹ کو بدلنے کا ہے"۔ ایک ایسے سینیٹ کا قیام جو وفاق پاکستان کے لیے ضروری ہے جس کی کوئی عزت ہو، وہاں دولت کا نہیں بلکہ میرٹ کا بول بالا ہو اور جہاں پر پرویز رشید اور فرحت اللہ بابر جیسے دیوانے بھی جا سکیں۔
1973کی آئین ساز اسمبلی کے ارکان نے خفیہ رائے شماری کا طریقہ اس لیے اختیار کیا تھا کہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے ارکان جو سینیٹ انتخابات میں ووٹر ہوتے ہیں، سیاسی پارٹیوں کی قیادت کے اثر سے آزاد اپنی رائے کا اظہار کرسکیں لیکن خفیہ رائے شماری عملاً ووٹوں کی خرید و فروخت کا اور بازار سیاست میں ضمیروں کی نیلامی، خیانت اور بدعنوانی کی ترویج کا بڑا ذریعہ بن گئی۔ سینیٹ چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کے وقت ممبران نے جو تماشے کیے، ان کی وجہ سے جمہوریت مذاق بن گئی، سینیٹ کا مسئلہ صرف ہارس ٹریڈنگ کا نہیں ہے بلکہ ایک وفاقی ریاست میں اس ایوان کی اہمیت کے مطابق اس کی ساخت اور کردار کا بھی ہے۔۔ چونکہ عمران خان امریکی انتخابات اور سسٹم کے حامی بن گئے ہیں تو آئیے امریکی سینیٹ کا جائزہ لیں۔
قدیم رومن سلطنت کے سب سے اعلی کونسل کو "سینیٹ "کہتے تھے، جس میں بڑے بڑے سردار، دانشور اور فلاسفر بیٹھتے تھے، سینیٹر ہونا عزت و احترام کا مقام سمجھا جاتا تھا۔ سینٹر کا لفظ قدیم فرانسیسی لفظ "senat"اور قدیم لاطینی الفاظ "senatus"اور "senex" سے ماخوذ ہے، جن کے معنی "بزرگ اور عقلمند شہری " کے ہوتے ہیں، اس لیے سینیٹ کا مطلب تھا "بزرگ اور دانشور شہریوں کی کونسل"۔ امریکا میں بھی سینیٹر بہت اہم سیاست دان سمجھا جاتا ہے، امریکی مقننہ دو ایوانوں پر مشتمل ہے۔
ایک آبادی کی بنیاد پر منتخب "ایوان نمائندگان " اور دوسرا ریاستوں کی برابری کی بنیاد پر منتخب "سینیٹ"۔ یہ ایوان امریکا میں آئین سازی کے وقت 1789میں چھوٹی ریاستوں کے تحفظات کے نتیجے میں قائم ہوا، اس میں بلا لحاظ آبادی ہر ریاست کے دو ممبر ہوتے ہیں، سینیٹ اس وقت سے 100نشستوں پر مشتمل ہے، کوئی مخصوص نشست نہیں بلکہ ہر ریاست دو سینیٹر منتخب کرتی ہے، چاہے وہ مرد ہو کہ عورت یا ٹیکنوکریٹ، کوئی بھی قانون صرف اس وقت منظور ہوتا ہے، جب کہ عوامی ووٹوں سے منتخب اسمبلی(ایوان نمائندگان)اور ریاستوں کی برابری کی بنیاد پر منتخب سینیٹ اس کی منظوری دے دیں، اس طرح چھوٹی ریاستوں کے خدشات دور ہو گئے۔
ہر وفاق میں ایوان بالا کی اہمیت ہوتی ہے لیکن پا کستا ن کے مخصو ص حا لا ت میں (سینیٹ)کی اہمیت بہت ز یا دہ ہے، پا کستان میں تینو ں صو بے مل کر بھی آبادی اور قو می اسمبلی میں نما ئند گی کی لحا ظ سے پنجا ب سے کم ہیں، اس لیے چھوٹی قومیتیں خود کو محروم سمجھتی ہیں، ان حالات میں سینیٹ ہی چھوٹے صوبوں کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔
پاکستان کا سینیٹ اپنی ساخت اور اختیارات دونوں کے لحاظ سے ایک عجوبہ ہے، یہ ایک بے اختیاراور ایک نمائشی ادارہ بنایا گیا ہے، عجیب بات تو یہ ہے کہ صوبوں کی نمایندہ ایوان میں مرکزی علاقوں، فاٹاکو 8نشستیں (شکر ہے کہ اب ختم ہو گئیں)اور اسلام آباد کو 4نشستیں دی گئی تھیں، یہ بارہ نشستیں مرکز کو کس کھاتے میں دی گئیں آخر یہ کس کی نمائندگی کرتے ہیں؟ ، سوئٹزر لینڈ ہو یا امریکا، ان تمام ممالک میں سینیٹ صرف صوبوں یا ریاستوں کا نمایندہ ہوتا ہے۔ پاکستان ایک وفاق ہے اور اس لیے اس کی پارلیمان کے دو ایوان ہیں۔
ایک قومی اسمبلی اور ایک سینیٹ، آئین کے آرٹیکل 59میں سینیٹ کی اراکین کی تعداد کے بارے میں تفصیل دی گئی ہے جو خاصی دلچسپ ہے، سینیٹ کے کل ممبران کی تعداد 104ہوگی، ہر صوبائی اسمبلی 14 ممبر منتخب کرے گی، 8ممبران فاٹا سے منتخب ہوں گے، 2ممبر جنرل سیٹ، ایک خاتون اور ایک ٹیکنوکریٹ (بشمول علماء) کو اسلام آباد کے وفاقی علاقے سے منتخب کیا جائے گا، ہر صوبائی اسمبلی 4خواتین کو بھی منتخب کرے گی، ہر صوبائی اسمبلی 4ٹیکنوکریٹس (بشمول علماء) کو بھی منتخب کرے گی اور ہر صوبائی اسمبلی ایک ایک اقلیتی رکن کو بھی منتخب کرے گی۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگرسینیٹ خالص صوبوں کی نمائندگی کرنے والا ہاؤس ہے، تو پھر اس میں وفاق نے اسلام آباد سے 4اور سابقہ فاٹا سے 8کل 12نشستیں کس حساب میں اپنے پاس رکھی تھیں، اقلیتوں، خواتین اور ٹیکنوکریٹس کی الگ الگ نشستوں کاسینیٹ میں کیا کام؟ یہ تو صوبوں کے حقوق کے تحفظ کا ایوان ہے، خواتین اوراقلیتوں کے حقوق کے لیے صوبائی اور قومی اسمبلی میں نشستیں موجود ہیں، یہ تو صوبوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بہترین افراد نمائندگی کے لیے ایوان میں بھیجیں، منتخب ہونے والی خواتین کی کوالیفیکشن کیا ہوتی ہے؟ اگر سینیٹ کے ادارے کی اصلاح مطلوب ہو تو پھر صرف طریقہ انتخاب نہیں، بلکہ اس ایوان کے بنیادی اہمیت کو دیکھتے ہوئے سنجیدہ ترامیم کی طرف توجہ دینی چائیے، عجیب حکمرانوں سے پالا پڑا ہے۔
چونکہ سینیٹ صوبوں کا نمایندہ ا یوان ہے تو اگر کوئی اپنے صوبے سے انتخاب لڑنے والا امیدوار مالدار ہو تو اس میں کو ئی برائی نہیں ہے، یہ اس کا حق ہے کیونکہ یہ نظام ہی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا ہے، کوئی غریب سیاسی کارکن انتخاب تو کیا، ٹکٹ کے حصول کے لیے پارٹی کو درخواست دینے کا بھی نہیں سوچ سکتا، البتہ پیسوں کے بل پر ووٹ خریدنا ناجائز ہے، کچھ لوگ اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ ان کو اپنے صوبے سے اٹھاکر دوسرے صوبے میں ٹکٹ دی جاتی ہے۔
صوبے سے تعلق نہ رکھنے والے کو پارٹیوں کی طرف سے ٹکٹ دینا کیا معنی رکھتا ہے؟ کیا یہ صوبائی نمائندگی کے ساتھ مذا ق نہیں ہے؟ ایک صوبے کا ووٹر آخر وقت میں دوسرے صوبے کو ووٹ منتقل کرتا ہے، اس طرح کے سنیٹرز کا متعلقہ صوبے کے عوام سے نہ تو کوئی رابطہ ہوتا ہے اور نہ ان کے مسائل اجاگر کرنے میں دلچسپی ہوتی ہے، کیا یہ سیاسی رشوت نہیں ہے، کیااس طرح عوام حقیقی نمائندگی سے محروم نہیں کردیے جاتے؟
رشوت، کمیشن اور کرپشن تو ہمارے ملک کی پہچان بن چکے ہیں، کوئی ایسا محکمہ، ایسا ادارہ، ایسا منصوبہ، ایسا انتخاب بھی ہے جہاں پیسہ استعمال نہیں ہوتا، کیا حکمران جماعت کے ممبران کو گلیوں اور نالیوں کے لیے ترقیاتی فنڈ دینا یا ان کی فرمائش پر خاص پراجیکٹ منظور کرنا، ان کے منظور نظر افراد کو ملازمتیں دینا، ٹھیکوں میں کمیشن لینا، ٹکٹوں میں من مانی اور رشتہ داریاں، کیا یہ سب جائز ہیں؟ پاکستان میں چھوٹے صوبوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سینیٹ کی کارکردگی اور اختیارات میں اضافہ ناگزیر ہے۔
اس ایوان میں نما ئند گی کو ہا رے ہو ئے سیا ستدانو ں کی ایڈجسٹمنٹ اور سرمایہ داروں کو سیا سی ر شوت کے طور پر استعمال کر نے کی روایت ختم کرنی ہو گی، اس ایوان کا انتخاب براہ راست ووٹ سے ہونا چاہیے تا کہ ہارس ٹریڈ نگ کی روایت ختم ہو۔ چیف جسٹس، افواج کی سربراہوں، چیف ا لیکشن کمشنر، وفاقی محتسب، آ ڈیٹر جنرل، سفیروں، کارپوریشنوں کے چیرمینوں، بینکوں، دیگر مرکزی کارپوریشنوں اور اداروں کے سربراہوں اور کابینہ کی تقرری کے لیے سینیٹ کی منظور ی لازمی قرار دی جائے۔
قائد ایوان (وزیراعظم) پر اعتماد اور عدم اعتماد دونوں مواقع پر سینیٹ کو قومی اسمبلی کے برابر ووٹ کا حق دیا جائے، بجٹ اور مالیاتی بلوں کی منظوری، سفیروں کی تقرری اور حکومتی اخراجات اور قرضوں پر بھی سینیٹ کی منظوری ضروری ہے۔ عوام کے ووٹوں سے براہ راست منتخب اور اختیارات کا حامل سینیٹ ہی اعتماد اور عزت کے قابل ادارہ سمجھاجائے گا، ورنہ کچھ بھی ہوجائے عوام کی نظروں میں سینیٹ لایعنی اور صرف نشستندو برخاستند کا ادارہ رہے گا۔