وہ انسانی روح کا وزن معلوم کرنا چاہتا تھا، اس نے نیو یارک کے چند ڈاکٹروں کو ساتھ ملایا اورمختلف طریقے وضع کرنا شروع کر دیے، یہ لوگ بالآخر ایک طریقے پر متفق ہو گئے۔ ڈاکٹر نزع کے شکار لوگوں کو شیشے کے باکس میں رکھ دیتے تھے، مریض کی ناک میں آکسیجن کی چھوٹی سی نلکی لگا دی جاتی تھی اور باکس کو انتہائی حساس ترازوپر رکھ دیا جاتا تھا، ڈاکٹر باکس پر نظریں جما کر کھڑے ہو جاتے تھے، مریض آخری ہچکی لیتا تھا، اس کی جان نکلتی تھی اور ترازو کے ہندسوں میں تھوڑی سی کمی آ جاتی تھی، ڈاکٹر یہ کمی نوٹ کرلیتے تھے۔
ان لوگوں نے پانچ سال میں بارہ سو تجربات کیے، 2004ء کے آخر میں ٹیم نے اعلان کیا"انسانی روح کا وزن 67 گرام ہوتا ہے" ٹیم نے اپنی تھیوری کے جواز میں 12 سو انتقال شدہ لوگوں کی ہسٹری بیان کی، ٹیم کا کہنا تھا ان کے باکس میں رکھا شخص جوں ہی فوت ہوتا تھا اس کا وزن 67 گرام کم ہوجاتا تھا لہٰذا وہ بارہ سو تجربات کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں انسانی روح کا وزن 67 گرام ہوتاہے۔
اسی قسم کے تجربات لاس اینجلس کے ایک ڈاکٹر ابراہام نے بھی کیے، اس نے انتہائی حساس ترازو بنایا، وہ مریض کو اس ترازو پر لٹاتا، مریض کے پھیپھڑوں کی آکسیجن کا وزن کرتا اور اس کے مرنے کا انتظار کرتا، ڈاکٹر ابراہام نے بھی سیکڑوں تجربات کے بعد اعلان کیا "انسانی روح کا وزن 21 گرام ہے" ابراہام کا کہنا تھا انسانی روح اس 21 گرام آکسیجن کا نام ہے جو پھیپھڑوں کے کونوں، کھدروں، درزوں اور لکیروں میں چھپی رہتی ہے، موت ہچکی کی صورت میں انسانی جسم پر وار کرتی ہے اور پھیپھڑوں کی تہوں میں چھپی اس 21 گرام آکسیجن کو باہر دھکیل دیتی ہے اس کے بعد انسانی جسم کے سارے سیل مر جاتے ہیں اور یوں انسان فوت ہوجاتا ہے۔
نیویارک کے ڈاکٹروں کا اندازہ درست ہے یا ڈاکٹر ابراہام کی تحقیق، یہ فیصلہ ابھی باقی ہے تاہم یہ طے ہو چکا ہے انسانی روح کا وزن گراموں میں ہوتا ہے، ہمارے جسم سے 21 یا 67 گرام زندگی خارج ہوتی ہے اورہم فوت ہوجاتے ہیں، میں نے پچھلے دنوں ہالی وڈ کی ایک فلم دیکھی تھی، یہ فلم ڈاکٹر ابراہام کی تھیوری پر بنی تھی اور اس میں بھی انسانی روح کو 21 گرام قرار دیا گیا تھا لہٰذا اگر ہم فرض کرلیں ہمارے جسم میں بھاگنے دوڑنے والی زندگی کا وزن محض 21 گرام ہے تو پھرسوال پیدا ہوتا ہے ان 21 گراموں میں ہماری خواہشوں کا وزن کتنا ہے۔
اس میں ہماری نفرتیں، ہمارے ارادے، ہمارے منصوبے، ہماری ہیرا پھیریاں، ہمارے سمجھوتے، ہماری چالاکیاں، ہمارے لالچ، ہماری سازشیں اور ہماری ابد تک زندہ رہنے کی تمنا کتنے گرام ہے، ان 21 گراموں میں ہماری ہوس اقتدار، ہمارے پانامہ، ہماری ٹی او آرز، ہمارے اقتدار، ہمارے الیکشن، ہماری لبرل ازم، ہماری آزاد خیالی اور ہماری بہادری کا کتنا وزن ہے، ان 21 گراموں میں ہمارے حوصلے، ہماری قوت برداشت، ہماری جرأت، ہماری خوشامد، ہماری پھرتیوں، ہماری عقل اور ہماری فہم کا کتنا حصہ ہے، ان 21 گراموں میں ہماری اسمارٹ نس، ہماری الرٹ نس، ہماری فارن پالیسی اور ہماری امریکا نوازی کا بوجھ کتنا ہے اور ہم لاہور کے سارے پلاٹ ہتھیانا چاہتے ہیں، ہم اپنی اگلی نسل کو بادشاہ بنانا چاہتے ہیں، ہم اپنی ساری دولت لندن شفٹ کرنا چاہتے ہیں اور ہم اگلے بیس پچیس برس تک کرسی پر جلوہ افروز رہنا چاہتے ہیں، ہم نے خوشامد کو آرٹ کی شکل دے دی ہے۔
ہم روزانہ لاکھوں لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں، ہم ایک منٹ میں دس دس مرتبہ ضمیر کا سودا کرتے ہیں، ہم صرف اپنا اقتدار بچانے کے لیے چھ چھ سو جھوٹ بولتے ہیں، ہم داڑھی اور نماز کو خوف کی شکل دے رہے ہیں اور ہم ظالم سے نفرت کرنے والے ہر شخص کو مجرم سمجھتے ہیں، سوال پیدا ہوتا ہے ہماری ان ساری سوچوں، ہمارے ان سارے خیالات اور ہماری ان ساری خواہشوں کا وزن کتنا ہے اور ان21 گراموں میں ہماری گردن کی اکڑ، ہمارے لہجے کے تکبر اور ہماری نظر کے غرور کا بوجھ کتنا ہے اور ہم ان21 گراموں کی مدد سے قدرت کا کتنی دیر تک مقابلہ کر سکتے ہیں، ہم ان 21 گراموں کے ذریعے قدرت کے فیصلوں سے کتنی دیر بچ سکتے ہیں، یہ 21 گرام ہمیں کتنی دیر تک وقت کی آنچ سے بچا سکتے ہیں، یہ21 گرام کب تک ہمارے غرور کی حفاظت کر سکتے ہیں اور یہ 21 گرام ہمارے منصوبوں اور ہماری خواہشوں کی کتنی دیرنگہبانی کر سکتے ہیں۔
میں نے کسی جگہ پڑھا تھا تبت کے لوگ 21گراموں کی اس زندگی کو موم سمجھتے ہیں لہٰذا یہ لوگ صبح کے وقت موم کے دس بیس مجسمے بناتے ہیں اور یہ مجسمے اپنی دہلیز پر رکھ دیتے ہیں، ان میں سے ہر مجسمہ ان کی کسی نہ کسی خواہش کی نمایندگی کرتا ہے، دن میں جب سورج کی تپش میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ مجسمے پگھلنے لگتے ہیں حتیٰ کہ شام تک ان کی دہلیز پر موم کے چند آنسوؤں کے سوا کچھ نہیں بچتا، یہ لوگ ان آنسوؤں کو دیکھتے ہیں اور اپنے آپ سے پوچھتے ہیں"کیا یہ تھیں میری ساری خواہشیں" اور اس کے بعد ان کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور یہ کائنات کی اس طاقت کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں جو ہمارے 21 گرام کی اصل مالک ہے، جس کے حکم سے ہماری سانسیں چلتی ہیں اور ہمارے قدم اٹھتے ہیں۔
میں نے کسی جگہ پڑھا تھا ہمارے بدن میں ایک منٹ میں 87 کروڑ حرکتیں ہوتی ہیں، ہمارے ذہن میں ایک دن میں 68 ہزار خیال آتے ہیں، ہم ایک دن میں دس ہزار منصوبے بناتے ہیں لیکن اگلے دن یہ سارے خیال، یہ سارے منصوبے اور یہ ساری کروٹیں ہمارے ذہن کی بھول بھلیوں میں گم ہو جاتی ہیں، ہمارے یہ سارے خیال، یہ سارے منصوبے اور یہ ساری حرکتیں بھی انھی 21 گراموں کی مرہون منت ہیں لیکن آپ انسان کا کمال دیکھئے ڈیڑھ سو گرام گندم، 8 اونس انگور اور کسی ایک وزیر کی خوشامد اس کے 21گراموں کو خدا بنا دیتی ہے۔ یہ خدا کے لہجے میں بولنا شروع کردیتاہے، یہ اپنی ذات کو دنیا کی بقا قرار دے دیتا ہے، یہ خود کو ناگزیر سمجھنے لگتا ہے، ہم سب کیا ہیں؟
محض 21 گرام، محض ایک سانس، محض ایک ہچکی، محض ایک چھینک، محض ایک جھٹکا، محض ایک بریک، محض دماغ کا ایک شارٹ سرکٹ اور محض دل کے اندر اٹھتی ہوئی ایک لہر اور بس، ہم نے کبھی سوچا 21 گرام کتنے ہوتے ہیں، 21گرام لوبیے کے 14 دانے ہوتے ہیں، ایک چھوٹا ٹماٹر، پیاز کی ایک پرت، ریت کی چھ چٹکیاں اور پانچ ٹشو پیپرہوتے ہیں، یہ ہیں ہم اور یہ ہے ہماری اوقات لیکن ہم بھی کیا لوگ ہیں، ہم 21 گرام کے انسان خود کو کھربوں ٹن وزنی کائنات کے خدا سمجھتے ہیں، ہم 21گرام کے انسان خود کو کروڑوں انسانوں کا حکمران سمجھتے ہیں، ہم وقت کو اپنا غلام اور زمانے کو اپنا ملازم سمجھتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں بس ذرا سی تپش کی دیر ہے اور ہمارے اختیار، ہمارے اقتدار کی موم پگھل جائے گی۔
ہم شام تک موم کا آنسو بن جائیں گے، ہمارے 21گرام مٹی میں مل جائیں گے، ہم تاریخ کی سلوں تلے دفن ہوجائیں گے اور21 گرام کا کوئی دوسرا خدا ہماری جگہ لے لے گا اور بس۔ کاش ہم روز موم لیں، اپنی ذات کا مجسمہ بنائیں، یہ مجسمہ اپنے اقتدار کی دہلیز پر رکھیں اور پھر اسے آنسو بنتا دیکھیں اور اس کے بعد سوچیں دنیا میں اگر فرعون جیسے لوگ نہیں رہے تو ہم کتنی دیر رہ لیں گے، دنیا سے اگر محمد علی کلے جیسا شخص رخصت ہوگیا تو ہم یہاں کتنی دیر رہ لیں گے اور ملک سے اگر ذوالفقار علی بھٹو رخصت ہوگیا تو ہم کتنی دیر حکمران رہ لیں گے، کاش ہم چند لمحوں کے لیے یہ سوچ لیں یہ ایوان اگر جنرل پرویز مشرف کے نہیں رہے تو یہ ہماری 21 گرام کی زندگی سے کتنے دیر وفا کر لیں گے، ہم ان میں کتنی دیر بس لیں گے۔