Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Gwadar Ka Golden Beach (2)

Gwadar Ka Golden Beach (2)

کوسٹل ہائی وے پر تین مقامات دیکھنے لائق ہیں، پہلا مقام ہنگول نیشنل پارک ہے، یہ چھ ہزاردو سو مربع کلومیٹر پرمشتمل قدرتی علاقہ ہے جس میں خشک پہاڑ بھی ہیں، جنگل بھی اور صحرا بھی، ہنگول پارک میں کراچی سے 240کلو میٹر کے فاصلے پر ہنگلاج دیوی کا مندر ہے، مندر مین شاہراہ سے 17 کلومیٹر دور پہاڑوں کے درمیان ہے، آپ کو وہاں پہنچنے کے لیے کوسٹل ہائی وے سے اتر کر سمندر کی مخالف سمت پہاڑوں کی طرف جانا پڑتا ہے، ہنگلاج دیوی ہندوئوں کی مقدس اور اہم دیوی ہے اورانڈیا اور نیپال کے بعدسب سے زیادہ ہندو یاتری یہاں آتے ہیں، بھارت سے ہر سال سینکڑوں یاتری ہنگلاج آتے ہیں اور ننگے پائوں دیوی کے درشن کے لیے مندر تک جاتے ہیں۔

ہم مندر دیکھنا چاہتے تھے لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے ہنگلاج نہ جا سکے، دوسرا مقام بزی (بوزی) ٹاپ ہے، کوسٹل ہائی وے پر خشک پہاڑوں کا انتہائی قابل دید سلسلہ ہے، پہاڑ صدیوں تک سمندر میں رہنے اور ہوا اور پانی کی وجہ سے مختلف شکلیں اختیار کر گئے ہیں اور اب یہ دور سے پلین دیواریں، قلعے اور مینار دکھائی دیتے ہیں، آپ اگر ان کے سامنے کھڑے ہو جائیں تو آپ کی نظریں یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گی کہ یہ تمام مناظر اصلی اور قدرتی ہیں، آپ کو یہ ہر لحاظ سے قدیم اجڑے ہوئے شہر محسوس ہوتے ہیں، یوں لگتا ہے یہاں کوئی بڑی تہذیب پروان چڑھ رہی تھی۔

پہاڑوں میں پورے پورے شہر آباد تھے لیکن پھر صور اسرافیل پھونک دیا گیا یا پھر فرشتوں اور جنات نے تمام بستیاں الٹا دیں اور اس کے بعد پوری وادی ہڑپہ اور موہن جو داڑو بن گئی، لوگ چلے گئے اور ان کے گھر کوچے مٹی کی دیواریں بن گئے، بوزی ٹاپ قدرت کے اس تھیٹر کا بلند ترین مقام ہے، آپ اگر وہاں کھڑے ہوں تو آپ کو سامنے دور دور تک قدرت کے مبہوت کر دینے والے مظاہر نظر آتے ہیں، آپ انہیں دیکھ کر سکتے میں چلے جاتے ہیں اور دل انہیں قدرتی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا، دل مانے بھی کیسے جب آپ کے سامنے قلعے ہوں گے، قلعوں کی فصیلیں، برجیاں، مینار اور سپاہیوں کی چوکیاں ہوں گی۔

آپ کو پہاڑوں کے درمیان مکانوں کی شیپس نظر آئیں گی، گلیاں اور بازار محسوس ہوں گے، محلات دکھائی دیں گے اور پھر چوکوں اور چوراہوں پر گھوڑوں کو پانی پلانے کے لیے تالاب ہوں گے اور وہاں اصطبل بھی ہوں گے تو پھر دل کیسے مانے یہ سب نظر کا دھوکا ہے، یہ مٹی کی ڈھیریاں ہیں؟ مجھے کئی بار اُردن میں پیٹرا اور ترکیہ میں کیپا ڈوشیا دیکھنے کا اتفاق ہوا، آپ یقین کریں کوسٹل ہائی وے کا بوزی ٹاپ ان سے کسی بھی طرح کم نہیں، یہ بنا بنایا ٹورسٹ سپاٹ ہے لیکن یہاں الو بول رہے ہیں جب کہ کیپا ڈوشیا اور پیٹرا ہر سال اپنے ملکوں کو اربوں روپے کما کر دے رہے ہیں، کاش ہماری ٹورازم منسٹری کو یہ مقام بھی نظر آ جائے، یہ اسے بھی وزٹ کر لے اور یہ یہاں ہوٹلز، موٹلز، ریستوران اور ویو پوائنٹس بنا دے اور کیپا ڈوشیا کی طرح یہاں بھی ہاٹ ائیر بلونز شروع کر دے تو یہ مقام دنوں میں کھرب روپے کی انڈسٹری بن سکتا ہے مگر شاید ہم من حیث القوم کام ہی نہیں کرنا چاہتے، ہم صرف رو دھو اور پیٹ ہی سکتے ہیں اور ہم ماشاء اللہ اس کام کے ایکسپرٹ ہیں۔

کوسٹل ہائی وے کا تیسرا قابل دید مقام پرنسیس آف ہوپ (امید کی شہزادی) اور فینکس آف بلوچستان (بلوچستان کا ابولہول) ہے، یہ دو قدرتی مجسمے ہیں، میرے خیال میں انہیں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ یا دنیا کے سات قدرتی عجوبوں میں شامل ہونا چاہیے، یہ دونوں پہاڑوں کے اوپر قدرتی طور پر تراشے ہوئے مجسمے ہیں، فینکس ایک وسیع چٹان ہے، ہوا، بارشوں اور زلزلوں نے اسے شیر کی شکل دے دی ہے اور یہ اب دور سے قاہرہ کے فینکس کی طرح دکھائی دیتا ہے، مصر کے فرعون شیر سے متاثر تھے لہٰذا یہ اپنے محلات اور اہراموں کے سامنے چٹانیں تراش کر شیر کا مجسمہ بنوایا کرتے تھے، قاہرہ کے مضافات میں گیزا کے مقام پر سات اہراموں کے سامنے بھی شیر کا دیوہیکل مجسمہ ہے، یہ قدیم مصری زبان میں فینکس جب کہ عربی میں ابولہول کہلاتا ہے۔

بوزی ٹاپ پر قدرت نے ہمارے لیے بھی ایک فینکس تخلیق کر دیا ہے تاہم مصر اور ہمارے فینکس میں ایک فرق ہے، مصر کا ابولہول انسانی تخلیق ہے جب کہ بوزی کا فینکس قدرتی ہے اور یہ ہو بہو مصری ابولہول کی کاپی ہے، آپ اگر کوسٹل ہائی وے پر کھڑے ہو کر اسے دیکھیں تو آپ کو پہاڑوں پر ایک شیر سڑک کی نگرانی کرتا ہوا دکھائی دے گا اور آپ اسے دیکھ کر سدھ بدھ کھو بیٹھیں گے، دوسرا قدرتی شاہ کار ایک چٹانی مجسمہ ہے، یہ دور سے ایسی یورپی شہزادی لگتی ہے جس نے شہزادیوں جیسا فراک، ٹائیٹ بلائوز اور ہیٹ پہن رکھا ہے اور جو پوری شاہی تمکنت کے ساتھ انتہائی بلندی سے پوری وادی کو دیکھ رہی ہے، یہ مجسمہ حضرت لوطؑ کی بیگم کی طرح بھی دکھائی دیتا ہے، مجھے اُردن میں ڈیڈ سی کے کنارے یہ مجسمہ بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔

پرنسیس آف ہوپ اس سے بھی ملتی جلتی ہے، اس مجسمے کو پرنسیس آف ہوپ کا نام ہالی ووڈ کی مشہور ایکٹریس انجلینا جولی نے دیا تھا، یہ 2002ء میں پاکستان کے دورے پر آئی تو صدر مشرف اسے لے کر ہنگول پارک گئے، انجلینا جولی نے ہنگلاج مندر کی وزٹ بھی کی اور وہ چٹانی خاتون کا یہ مجسمہ بھی دیکھنے آئی، اس نے وہاں کھڑے کھڑے اسے پرنسیس آف ہوپ (امید کی شہزادی) کا ٹائٹل دے دیا اور یوں شہزادی کو اس کا نام مل گیا، حکومت اگر یہاں بھی ایک آدھ ہوٹل بنوا دے اور اس مجسمے کو محفوظ کر لے تو یہ بھی ایک شان دار ٹورازم سپاٹ بن سکتا ہے۔

ہم بہرحال طویل سفر اور ایک بے آرام رات اورماڑہ میں گزار کر گوادر پہنچ گئے، گوادر واقعی ایک ناقابل فراموش شہر ہے، میں اگر یہ کہوں قدرت نے ہمیں دوبئی سے زیادہ خوب صورت کوسٹل سٹی دے رکھا ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا، یہ شہر سمندر کے درمیان میں بہت آگے تک نکل گیا ہے جس کی وجہ سے اس کے تین اطراف سمندر ہے، یہ وادی نما زمین کا ٹکڑا ہے جسے مٹی کے خشک پہاڑوں نے گھیر رکھا ہے، آپ درمیان میں کھڑے ہوتے ہیں تو آپ کے سامنے دور دور تک سمندر جب کہ دائیں بائیں مٹی کے خشک پہاڑ ہوتے ہیں، آپ کو یہ نظارہ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں ملتا، ہمارا قیام پی سی میں تھا، پی سی جیسی لوکیشن پورے علاقے میں نہیں، یہ ہوٹل پہاڑ پر ایک ایسے مقام پر بنایا گیا جہاں سے تین طرف سمندر، شہر اور وادی دکھائی دیتی ہے، گوادر پورٹ بھی ہوٹل کے پائوں میں ہے۔

ہم اس شام غروب آفتاب کا منظر دیکھنے "سن سیٹ پوائنٹ" پر گئے، یہ پوائنٹ پہاڑ کی بلندی پر آخری کنارے پر واقع ہے، حکومت نے وہاں پارک بنوا دیا مگر "سن سیٹ پوائنٹ" کی عمارت ادھوری چھوڑ دی، وہ عمارت انڈہ نما تھی، اس کا ڈیزائن انتہائی خوب صورت اور جدید تھا، تین فلورز پر دائرے کی شکل میں ویو پوائنٹ تھا مگر وہ ہماری ریاستی نالائقی اور بے حسی کی وجہ سے ادھورا رہ گیا، اس کے ڈھانچے تک کو زنگ کھا رہا ہے جب کہ کروڑوں روپے کی کھڑکیاں، دروازے اور لفٹیں نیچے پڑی گل رہی ہیں، یہ عمارت اگر مکمل ہو جاتی تو یہ گوادر کا آئفل ٹاور ہوتی لیکن ظاہر ہے ہم کام ہی نہیں کرنا چاہتے، ہمیں قدرت نے شاید دنیا کو اجاڑنے اور تباہ کرنے کے لیے بنایا ہے لہٰذا ہم ہر اچھی جگہ اور منصوبے کو تباہ کر دیتے ہیں۔

گوادر کا سن سیٹ پوائنٹ بھی ہماری اس صلاحیت کا نمونہ ہے لہٰذا یہ سمندر کے کنارے کھڑا ہو کر روزانہ ہماری قومی بے حسی کا ماتم کرتا ہے، آپ یقین کریں میں نے سامنے سمندر میں ڈوبتے ہوئے سورج کو دیکھا اور پھر اس خوف ناک ڈھانچے کو دیکھا تو میری آنکھوں میں آنسو آ گئے، کیا کوئی اتنا بے حس اور نالائق ہو سکتا ہے؟ حکومت کو فوری طور پر اس بے حسی کے ذمہ داروں کا تعین کرکے انہیں چوک میں الٹا لٹکا دینا چاہیے کیوں کہ یہ قومی خزانے کے ساتھ ظلم ہے اور دنیا کے خوب صورت مقام کی توہین بھی ہے، مجھے دنیا کے چاروں کونوں میں ابھرتے اور ڈوبتے ہوئے سورج کی زیارت کا موقع مل چکا ہے لیکن سورج نے گوادر کے ساحلوں پر ڈوب کر جو پیغام دیا وہ مجھے دنیا کے کسی کونے میں نصیب نہیں ہوا، سورج ڈوبنے کے باوجود دیر تک سمندر کی لہروں میں زندہ رہا اور وہ باقاعدہ تیرتا ہوا ساحل کی طرف آتا تھا، ہمیں سلام پیش کرتا تھا اور پھر مایوس ہو کر واپس لوٹ جاتا تھا۔

گوادر کی گولڈن بیچ سن سیٹ پوائنٹ سے تھوڑی دور ہے، ہم پیدل اس کی طرف چل رہے تھے، چٹانوں کے نیچے سمندر کا سنہری کنارہ تھا، ہم چٹانی سیڑھیاں اتر کر ساحل تک چلے گئے، ہمارے سامنے سنہری رنگ کی ریت بکھری ہوئی تھی، دائیں بائیں سونے کے پہاڑ تھے اور سامنے تاحد نظر پھیلا ہوا سمندر تھا، یہ مقام قدرت کی بائولی محسوس ہوتا ہے، تین طرف بلند سنہری پہاڑ، ان کے درمیان چٹانی سیڑھیاں اور پھر گیلی ریت پر پانی اور لہروں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ، وہ جگہ اور وہ وقت حیران کن تھا، ہمیں یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ہم ابھی چند لمحے پہلے پیدا ہوئے ہیں اور دنیا کی کوئی تکلیف، کوئی ڈپریشن، کوئی فرسٹریشن اور کوئی تکلیف ابھی ہم تک نہیں پہنچی، ہمارا دنیا کے کسی دکھ، کسی تکلیف سے بھی تعارف نہیں ہوا، ہم بس چھوٹے سے بچے کی طرح قدرت کے پنگھوڑے میں لیٹے ہیں اور قدرت دائیں بائیں بیٹھ کر بڑے پیار سے ہمیں دیکھ رہی ہے، ہم تاریکی پھیلنے تک گولڈن بیچ پر پانی میں کھڑے رہے اور آدھے مہینے کا چاند حیرت سے ہمیں دیکھتا رہا۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.