Friday, 10 January 2025
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Chiragh e Toor Jalao Bara Andhera Hai

Chiragh e Toor Jalao Bara Andhera Hai

وہ عہد جسے ہم تاریک دور کہتے ہیں، جب بچیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا، بڑی حقارت سے ہم اسکا تذکرہ کرتے اورعلماء کرام اسے موضوع گفتگو بناتے ہیں، کہا جاتا ہے اہل عرب اپنی جہالت کی بناء پریہ عمل اس لئے کرتے، کہ بعض اوقات لڑکی کو قبائلی جھگڑوں کی بنیاد پر دوسرے قبیلہ کے حوالہ کرنا پڑتا، انکی غیرت بس ایک لڑکی پر آکر ختم ہوتی، نبی ﷺ مہربان نے بچیوں کی پرورش کی ترغیب دینے کے لئے مسلمانوں کو خوشخبری سنائی کہ جو اپنی دو بیٹیوں کی تربیت اور پرور ش سلیقہ سے کرے گا، میرے ساتھ جنت میں وہ اس طرح ہوگا، جیسے ہاتھ کی انگلیاں۔

سیانے کہتے ہیں خوف بچیوں کی پیدائش پر نہیں ہوتا بلکہ ڈر ان کے نصیب سے لگتا ہے، والدین اگرچہ ان کا مقدر لکھنے کی قدرت تو نہیں رکھتے لیکن سماج کی تلخیاں انھیں وسوسوں میں مبتلا کئے رکھتی ہیں، والدین پال پوس کر اپنے جگر کا ٹکڑا دوسرے کے حوالہ اس امیدپے کرتے ہیں، کہ سسرال میں اسے بیٹی ہی طرح رکھا جائے گا۔

ذرا چشم تصور میں لائیں اگر والدین کو پتہ چلے کہ انکی لخت جگر کو قتل کرکے خود کشی کا نام دے کر انھیں لاش لے جانے کا پیغام دیا جارہا ہے تو ان کے دل پر کیا گزرے گی؟

بہت سے ایسے واقعات ہمارے معاشرہ میں اب جنم لے رہے ہیں، خواتین کے تحفظ کے لئے بنائے گئے قوانین بھی طاقتور سسرال کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں، تنگ نظری کے اس ماحول میں سب سے پہلا شک اس خاتون کی طرف جاتا ہے جو پہلے ہی کسی نہ کسی ظلم کا شکار ہوتی ہے، المیہ یہ ہے کہ اس نوع کے سانحات ان پڑھ خاندانوں میں ہی نہیں بلکہ تعلیم یافتہ افراد کے گھرانوں میں بھی رونماء ہوتے ہیں۔

گذشتہ دنوں ملتان میں اسی بابت دو دل خراش واقعات ہوئے، دوخواتین اپنے شوہروں کے ظلم کی بھینٹ چڑھ گئیں، ان میں ایک سید زادی تھی، جس کے قتل کو اہل خانہ نے خود کشی کا رنگ دیا، سماجی سطح پر جب احتجاج حد سے بڑھا تو پولیس نے ایف آر درج کی اور مرحومہ کے شوہر نے اس کے قتل کا اعتراف کرلیا، موصوفہ نہ صرف بچوں کی ماں تھی بلکہ موت کے وقت بھی امید سے تھی۔

اسی نوع کا دوسرا واقعہ بھی اسی شہر میں پیش آیا جب شوہر نے دوسری شادی کی اجازت نہ ملنے کی بناء پر اپنی زوجہ کو شوٹر سے قتل کروایا اس واردات کو ڈکیتی کا رنگ دیا، اس کا شوہر کسی دوسری خاتون سے پسند کی شادی رچانے کا آرزو مند تھا، پہلی کو ٹھکانے لگانے کے لئے اس نے کرائے کے قاتل کی خدمات لیں، پولیس نے شک ہونے پر مرحومہ کے شوہر کو گرفتار کیا، جس نے بعد ازاں اعتراف کرلیا، اسکی پہلی بیوی موت کے وقت امید سے تھی وہ کسی جامعہ میں عارضی طور پر تدریس کے فرائض انجام دے رہی تھی۔

چند ماہ قبل ایسا ہی ایک سانحہ ڈسکہ میں پیش آیا جب سگی خالہ نے اپنی بھانجی(بہو) کو محض اس ڈر سے بے دردی اور بربریت سے قتل کر دیا کہ کہیں اس کا بیٹا مکمل طور پر بہو کی گرفت میں نہ آجائے، باوجود اس کے مقتولہ نہ صرف امید سے تھی بلکہ اس کا اڑھائی سالہ بچہ بھی

تھا، قبیح جرم یہ کہ لڑکی کے والدین کی آمد پر گھر سے فرار ہونے کا الزام اس پر عائدکیا، مرحومہ کا شوہر دیار غیر میں ملازمت کرتا ہے۔

ملتان کی مقتولہ سید زادی کے والد نے سرکار سے مطالبہ کیا ہے کہ بیٹیوں کے سسرال میں تحفظ کا قانون وقت کی ضرورت ہے، ان کا یہ کہنا بر محل ہے کیونکہ ارض وطن میں متاثرہ خواتین کے حوالہ سے اعدادو شمار حوصلہ افزاء نہیں ہیں۔ ایشین ڈویلپمنٹ بنک کی رپورٹ ہے کہ خود کشی کرنے والوں میں خواتین کا تناسب ایک لاکھ میں سے4.3 ہے، صنفی امتیاز میں 146 ممالک میں پاکستان143 کی پوزیشن پر ہے۔ 2024 میں گھریلو تشدد میں 46 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سندھ میں کاروکاری کے الزام کے76 واقعات ہوئے ہیں۔

ہمارے سماج میں شادی شدہ خواتین کے قتل میں اضافہ قابل تشویش ہے اور اس جرم میں خاندان بھر کا ملوث ہونا زیادہ افسوس ناک ہے۔

خواتین کو چھری، ٹوکہ، کلہاڑی، تیز آلہ اورگولی سے قتل کرنا، زہر دینا ایسی سنگین وارداتیں ہیں، جو تحقیق طلب ہیں۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ جائنٹ فیملی کے جھگڑے خواتین کو خود کشی کرنے پر مجبور کرتے ہیں، جس میں بڑی وجہ معاشی مسائل اور اولاد نرینہ کا نہ ہونا بھی ہے۔

ہر چند خواتین کے تحفظ کے لئے بہت سی این جی اوز مصروف عمل ہیں لیکن انکی کارکردگی خود سوالیہ نشان ہے، پریشان کن بات یہ بھی ہے کہ سسرال اور شوہر وں کے منفی رویہ جات سے تنگ خواتین خلع کے لئے عدالتوں سے رجوع کر رہی ہیں، روز بروز اضافہ پورے سماج کے لئے قابل توجہ ہے۔

بعض ماہر نفسیات اس کے لئے دونوں فریقین کو موردالزام ٹھراتے ہیں، بدقسمتی سے ہمارا سماج روپئے پیسہ کی ایسی دلدل میں اتر چکا ہے، جس کی کوئی حد نہیں، نیز احساس برتری اور کمتری کا شکار ہونابھی شامل ہے، خانگی معالات میں الجھاؤ کی یہ وجوہات ہیں۔

روایت ہے کہ قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذؓ جب اللہ کے حضور پیش ہوئے تو ان کے جنازے میں ستر ہزار فرشتے تھے، جسکی بشارت نبی ﷺ مہربان نے دی، یہ واحد صحابی تھے جن کی وفات پر عرش الہی ہل گیا، ان کا جنازہ ہلکا رہا، لیکن تدفین کے بعد نبی آخر الزمان ان کی قبر پر دعا کے لئے ٹھہر گئے انھوں نے صحابہ ﷺ کو بتایا کہ انھیں قبر کی تنگی ہے، وجہ یہ بتائی کہ وہ اپنی زوجہ سے تلخ لہجہ میں پیش آتے تھے، ایک طرف اسلام کے لئے خدمات دوسری طرف یہ معمولی سی لغزش جسکی تلافی کے لئے آپ ﷺ نے دعا فرمائی، وہ تمام مجرم جو شادی شدہ خواتین کے قتل میں ملوث رہے انھیں سوچنا ہے کہ ان کا انجام کیا ہوگا؟

خواتین کے حوالہ سے اسلام کی تعلیمات بڑی واضع اورانکی ذمہ داریوں کی حدود متعین ہیں، مگر کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے انکی جان لے، سسرال میں بالخصوص خواتین کے تحفظ کے لئے جہاں قانون سازی لازم ہے وہاں اس جہالت کے خلاف چراغ طور جلانے کے لئے سماجی سطح پر متحرک ہونے کی ضرورت ہے تاکہ خواتین کے عدم تحفظ کے اندھیرے دور ہو سکیں۔ دنیا میں نبی مہربانﷺ وہ واحد ہستی ہیں جنہوں نے خواتین کو سب سے زیادہ احترام دیا ہے، مگرخواتین کے معاملہ میں ہمارا منفی رویہ کفار مکہ سے زیادہ شرمناک ہے۔