مجھے گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد کے کراچی میں ایف پی سی سی آئی میں خطاب نے چونکا دیا۔ انہوں نے کہا کہ اڑھائی برس میں پاکستان کے غیر ملکی قرض میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ یہ اڑھائی برس وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت اور ایڈمنسٹریشن کے ہی بنتے ہیں۔
اگر ہم اس بیان کو عمومی طور پر دیکھیں تو یہ درست نہیں لگے گا کہ انہی اڑھائی برسوں میں آئی ایم ایف سمیت کئی دوسرے اداروں اور چین، سعودی عرب سمیت کئی ملکوں نے پاکستان کو کئی پیکج دئیے مگر جمیل احمد اس کے ساتھ ہی کہتے ہیں کہ پاکستان نے قلیل مدت کے لئے لیا ہوا آٹھ ارب ڈالر کا قرض واپس کر دیا یعنی جب ہم جمع تفریق کریں گے تو ہماری صورتحال وہ نہیں ہوگی جو عمران خان کے دور میں تھی یعنی کھایا نہ پیا اور گلاس توڑا بارہ آنے۔
بانی پی ٹی آئی جب وزیراعظم تھے تو انہوں نے پاکستان کو ایک بھی میگا پراجیکٹ نہیں دیا مگر ستر برس میں لئے ہوئے قرضوں میں اپنے ساڑھے تین، پونے چار برس میں ستر فیصد اضافہ کرکے چلے گئے۔ گورنر سٹیٹ بینک بتا رہے تھے کہ دسمبر میں ترسیلات زر تین ارب ڈالر اور رواں مالی سال میں کم از کم پینتیس ارب ڈالر رہنے کا امکان ہے یعنی پی ٹی آئی کی طرف سے سول نافرمانی کی جو کال دی جا رہی ہے، وہ ٹھُس ہوجائے گی۔
میں نے دیکھا، سیاست ڈاٹ کام نے عمران خان کا ایک بیان گرافکس کی صورت شئیر کیا کہ وقت آگیا ہے کہ اپنی ذاتی انائوں اور وقتی مفادات سے ہٹ کے ملکی ترقی اور قوم کی خوشحالی کا سوچا جائے۔ انگور کھٹے ہیں جیسا یہ بیان پڑھ کے مجھے ہنسی آ گئی کہ یہ وقت بھی عمران خان کے لئے شہباز شریف ہی لائے ہیں ورنہ یہ وہی عمران خان ہیں جنہوں نے اپنی گرفتاری پر اپنے عہدیداروں اور کارکنوں سے جی ایچ کیو، کورکمانڈر ہائوس اور شہداء کی یادگاروں تک پر حملے کروائے۔
یہ وہی عمران خان ہیں جنہوں نے بطور وزیراعظم آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ توڑا اور جب پٹرول ایک سوساٹھ روپوں سے ایک سو اسی روپے کرنے کی ضرورت تھی اسے ایک سو پچاس روپے لیٹر کر دیا۔ اس سے وقتی طور پرسیاسی فائدہ تو اٹھایا مگر ٹوٹے ہوئے معاہدے نے پاکستان کو ڈیفالٹ کے کنارے پر پہنچا دیا۔ یہاں عمران خان کا براہ راست مقابلہ شہباز شریف کے ساتھ تھا۔ اسی شہبا زشریف کے ساتھ جس نے اپنے محترم بھائی اور پیاری بھانجی کو جیل سے نکالا تھا اور اسی شہباز شریف نے اپنی حکمت عملی سے عمران خان کو عین آئینی اور قانونی طریقے سے ایوان وزیراعظم سے نکالا اور پھر انہی کی حماقتوں بلکہ جرائم کی بنیاد پر جیل پہنچا دیا۔
شہباز شریف نے نہ صرف ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا بلکہ سٹاک مارکیٹ کو دنیا کی دوسری تیزی سے گروتھ کرتی ہوئی مارکیٹ بنا دیا۔ افراط زر کو اڑتیس فیصد سے واپس چار فیصد پر لائے اور شرح سود بائیس سے تیرہ فیصد پر، اب اسے چھ فیصد پر لانا ہے۔ شہباز شریف کے وزیر توانائی بھی دوٹوک انداز میں کہہ رہے ہیں کہ وہ بجلی کو پچاس روپے تک سستی کرنا چاہتے ہیں مگر اب بھی دس سے بارہ روپے تک سستی کر سکتے ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے یہ سب کچھ ناممکن سمجھا جا رہا تھا۔
بات کرپشن کے خاتمے کی کر لی جائے تو نواز شریف کے دور میں پاکستان کی کرپشن پرسیپشن انڈیکس پر پوزیشن بہتر ہوئی تھی اور عمران خان کے دور میں دوبارہ خراب۔ اب پاکستان میں کرپشن کا دوبارہ خاتمہ کیا جا رہا ہے۔ میں نے وزیراعظم شہباز شریف کو کراچی میں ہی فیس لیس کسٹم اسیسمنٹ سسٹم کا افتتاح کرتے ہوئے دیکھا۔
میں جانتا ہوں کہ وزیراعظم شہباز شریف کے اس فیلڈ میں تین ٹارگٹس ہیں، پہلا یہ کہ وہ کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں، دوسرا یہ کہ ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن چاہتے ہیں اور تیسرا یہ کہ وہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا شئیر بڑھانا چاہتے ہیں جو اس وقت نو فیصد کے ارد گرد ہے جبکہ جدید اور مہذب قومیں اس وقت تیس سے چالیس فیصد پر ہیں۔ انہوں نے کسٹم ڈیوٹی کی اسیسمنٹ کے لئے بے چہرہ نظام دیا ہے۔ نہ امپورٹر کو علم ہو رہا ہے کہ اس کے سامان کی کلئیرنگ کون کر رہا ہے اور نہ ہی افسر کو پتا ہے کہ وہ کس کے سامان کی اسیسمنٹ کر رہا ہے یعنی ذاتی رابطہ ختم۔
اس نظام کے آنے سے سے کسٹم کلئیرنس کم از کم پندرہ سے بیس منٹ میں اور زیادہ سے زیادہ انیس گھنٹوں میں ہو رہی ہے جو اس سے پہلے ہفتوں بلکہ مہینوں تک پھنسی رہتی تھی۔ یہی شہباز شریف اور عمران خان کے ویژن کا فرق ہے کہ شہباز شریف نہ لیٹرینوں پر نمبر لکھنے کی پالیسیاں دیتے ہیں اور نہ ہی کٹوں وچھوں کی باتیں کرتے ہیں۔ بتایا جا رہا تھا کہ کسٹم کلئیرنس کے اس نئے جدید نظام میں جہاں ایماندار افسرلگائے جا رہے ہیں وہاں ان کے کمپیوٹروں پر کوئی سوشل میڈیا نہیں ہوگا اور نہ ہی ان کے پاس فون ہوں گے۔
ان کا کھانا پینا، نماز پڑھنا اور واش روم جانا بھی اسی مرکزی حصے میں ہوگا جہاں وہ کام کر رہے ہوں گے۔ کیا عمران خان ایسا سوچ بھی سکتے تھے جب وہ دوپہر بارہ ایک بجے سو کر اٹھنے کے بعد ایوان وزیراعظم فواد چوہدری کے پچپن روپے کلومیٹر والے ہیلی کاپٹر میں آتے تھے اور شام ہوتے ہی واپس بنی گالہ چلے جاتے تھے۔ ان کے مقابلے میں شہباز شریف ہیں جن کے بارے بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ چوبیس گھنٹوں میں اڑتالیس گھنٹوں کا کام کرتے ہیں۔
آپ ایک معاشی اور تکنیکی قسم کے کالم سے بور ہو رہے ہوں گے اس لئے ہم واپس سیاست پر آتے ہیں۔ آج اگر پی ٹی آئی بہت اچھی، بہت بی بی بنی ہوئی ہے تواس کا کریڈٹ بھی حکومت کو ہی جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کے قیام سے وزارت عظمیٰ کے دور تک سیاستدانوں سے بات کرنے سے انکاراورنو مئی تک برپا کرنے والا عمران خان آج مذاکرات کا راپ الاپ رہا ہے تواس کی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے سرکار کی طرف سے فری ہینڈ کے ساتھ سنگجانی اور کاہنے کے جلسے بھی کرکے دیکھ لئے کسی جگہ بھی دس ہزار بندہ نہ جمع کر سکے۔
انہوں نے اکتوبر میں ایس سی او کانفرنس سے پہلے اور پھر فائنل کال کے نام پر اسلام آباد پر حملے بھی کرکے دیکھ لئے اور وہاں سے بھی انہیں جوتوں سمیت بہت کچھ چھوڑ کے بھاگنا پڑا۔ انہوں نے امریکی ایوان نمائندگان سے نومنتخب امریکی صدر کے مشیروں سے دبائو ڈلوا کر بھی دیکھ لیا مگر عمران خان رہا نہیں ہوسکے۔ شہباز شریف نے ان کو سکھا دیا ہے کہ یہ اُوووں، اُوووں، کرکے ہی احتجاج کرسکتے ہیں سو اب یہ مذاکرات کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ فیصلہ یہ ہے کہ یہ بھیک ان کو ضرور ملے گی تاکہ ملک میں معاشی استحکام آئے، غریبوں کو ریلیف ملے۔ شہباز شریف نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ عمران خان سے ہزار گنا بہتر سیاستدان، لاکھ گنا بہتر ایڈمنسٹریٹر اور کروڑ گنا بہتر پاکستانی ہیں۔