طاہر خان نیازی بدھ 5 اگست 2015ء دن دو بجے تک راولپنڈی کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تھے، عدالتوں میں اگست کے مہینے میں سالانہ تعطیلات ہوتی ہیں، یہ بھی دوسرے ججز کی طرح چھٹی پر تھے، یہ راولپنڈی میں سیٹلائٹ ٹاؤن کے سی بلاک میں رہائش پذیر تھے، پونے دو بجے ان کے گھر میں تین مسلح لوگ داخل ہوئے، جج صاحب کو پہچانا، ان کی پسلی پر سیون ایم ایم کی رائفل رکھی اور گولی چلا دی، گولی پسلی میں پیوست ہوئی اور گھٹنے سے باہر نکل گئی۔
اسلحے سے واقف لوگ جانتے ہیں، سیون ایم ایم کی گولی جسم میں داخل ہو کر گھومتی ہے اور اس کے راستے میں جسم کا جو عضو آتا ہے، یہ اسے قیمہ بنا کر آگے چلی جاتی ہے، گولی نے نیازی صاحب کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا، ان کے جسم کے تمام "کور آرگنز" اڑ گئے، یہ گرے اور تڑپنے لگے، قاتل موٹر سائیکل پر بیٹھے اور فرار ہو گئے، یہ سیدھی سادی ٹارگٹ کلنگ تھی، کیوں؟ کیونکہ نیازی صاحب کا گھر بند گلی کے آخری سرے پر ہے۔
ڈاکو عموماً ایسے گھروں میں ڈاکے نہیں ڈالتے کیونکہ اس میں ان کے گھیرے جانے، پھنسنے اور پکڑے جانے کا خطرہ ہوتا ہے، ڈاکو ڈاکے کے دوران سیون ایم ایم رائفل بھی استعمال نہیں کرتے کیونکہ یہ رائفل اٹھانا، لانا اور گھر میں تنگ جگہ پر کھڑے ہو کر چلانا مشکل ہوتی ہے اور تین ڈاکو عموماً ڈکیتی سے پہلے ریکی کرتے ہیں، یہ ریکی کرتے تو یہ جان لیتے، یہ گھر سیشن جج کا ہے اور ڈاکو عموماً ججوں کے گھروں میں بھی ڈاکے کا رسک نہیں لیتے کیونکہ سیشن ججوں کے پاس سیکیورٹی بھی ہوتی ہے اور پولیس بھی ان کے خلاف ہونے والے جرائم میں ایکٹو ہو جاتی ہے چنانچہ آپ جس بھی زاویئے سے دیکھیں، آپ کو یہ واردات ٹارگٹ کلنگ دکھائی دے گی، اب سوال یہ ہے، طاہر خان نیازی کو کس نے اور کیوں قتل کیا؟ ہم اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے طاہر خان نیازی کا پروفائل دیکھتے ہیں۔
نیازی راولپنڈی کے رہائشی تھے، اسی شہر میں تعلیم حاصل کی، اسی شہر میں وکالت کی پریکٹس کی اور پھر اسی شہر میں 1998ء میں سول جج ہو گئے، جج عموماً اپنے شہر میں پوسٹنگ پسند نہیں کرتے، کیوں؟ کیونکہ اپنے شہر میں ان کی برادری اور دوست احباب ہوتے ہیں اور یہ لوگ نہ نہ کرتے بھی انصاف کے راستے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں لیکن طاہر خان نیازی مختلف انسان تھے، یہ جی بھر کر ایماندار اور افسانوی حد تک بہادر انسان تھے، یہ ہمیشہ اپنے شہر میں رہے اور انصاف کے معاملے میں کسی کی سفارش سنی اور نہ ہی کبھی دباؤ میں آئے، یہ سیکیورٹی کا خیال بھی نہیں رکھتے تھے۔
دبنگ آدمی تھے، کھلے عام پھرتے تھے اور کسی ترغیب میں نہیں آتے تھے، گھر ذاتی تھا اور یہ اس ذاتی گھر میں رہتے تھے، یہ ان چند ججوں میں بھی شمار ہوتے تھے جن کا احترام جج کمیونٹی بھی کرتی تھی اور وکلاء بھی۔ یہ ان کے احترام کی دلیل ہے کہ ان کے قتل کے بعد بار نے تین دن کی ہڑتال کر دی اور وکلاء مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔
اب سوال یہ ہے طاہر خان نیازی کو کس نے قتل کیا اور کیوں قتل کیاگیا؟ آپ یہ سوال طاہر خان نیازی کے اسٹاف، ان کے کولیگ ججوں اور راولپنڈی کے نامور وکلاء سے پوچھ لیں، آپ کو فوراً قاتل کا نام معلوم ہو جائے گا، کیوں؟ کیونکہ طاہر خان نیازی نے بھری عدالت میں بتایا تھا " مجھے فلاں سائیڈ سے دھمکیاں مل رہی ہیں لیکن میں پیچھے نہیں ہٹوں گا، جان اللہ کی امانت ہے، ڈرنے کی کیا ضرورت ہے"۔ آپ ان کے ریڈر سے پوچھ لیں، آپ ان کے جونیئر ساتھیوں سے پوچھ لیں یا پھر ان کے خاندان کے لوگوں سے پوچھ لیں، ریاست کو معاملے کی تہہ تک جاتے دیر نہیں لگے گی۔
طاہر خان نیازی کی کسی شخص کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں تھی، یہ واردات ڈکیتی بھی نہیں تھی، یہ فرقہ وارانہ ایشو بھی نہیں تھا لہٰذا پھر نیازی صاحب کو کیوں قتل کیا گیا؟ بات یقینا ان کے کورٹ روم میں جائے گی اور ریاست جس دن ان کے کورٹ روم کو تفتیش کا حصہ بنائے گی، یہ قاتل تک پہنچ جائے گی! نیازی صاحب کا قاتل کون تھا؟ میں ریاست کو ان کا قاتل سمجھتا ہوں، کیوں؟ کیونکہ لوگ ریاست کے سامنے دس سال سے قتل ہو رہے ہیں، کیا دس برسوں میں فوجی اداروں پر حملے نہیں ہوئے، کیا جی ایچ کیو پر حملہ نہیں ہوا، کیا مہران بیس اور کامرہ ائیر بیس کو نشانہ نہیں بنایا گیا، کیا آئی ایس آئی۔
آئی بی اور اسپیشل برانچ کے دفتروں کو نہیں اڑایا گیا، کیا ایف سی اور رینجرز کے ٹریننگ سینٹروں اور قافلوں پر حملے نہیں ہوئے، کیا حاضر سروس جرنیل خودکش حملوں میں شہید نہیں ہوئے، کیا پولیس کے ٹریننگ سینٹروں، تھانوں اور گاڑیوں کو نہیں اڑایا گیا اور کیا سیاستدانوں کو خودکش حملوں میں شہید نہیں کیا گیا؟ ہمیں یہ ماننا پڑے گا یہ دس سال ہماری تاریخ کے سیاہ ترین دن تھے اور ان سیاہ ترین دنوں میں مسجدیں بچیں، امام بار گاہ، جلوس، اجتماعات، پولیس، فوج، سیاستدان اور نہ ہی وکلاء اور جج بچے اور ہماری تاریخ کے ان دس برسوں نے ملک میں ہر اس شخص کو یہ پیغام دیا۔
جس کے ہاتھ میں پستول یا رائفل تھی " تم ملک میں کسی بھی ادارے یا شخصیت کو گولی مار دو، ملک کا کوئی ادارہ، کوئی شخص تمہارا ہاتھ نہیں روکے گا، تمہیں گرفتار بھی نہیں کیا جائے گا اور اگر تمہیں گرفتار کر لیا گیا تو ملک کا کوئی جج تمہیں سزا سنانے کی جرأت نہیں کرے گا اور اگر کسی طاہر خان نیازی جیسے جج نے یہ جرأت کر بھی لی تو بھی ریاست تمہیں پھانسی چڑھانے کی ہمت نہیں کرے گی"۔ یہ پیغام دس برسوں میں ملک کے ہر اس شخص تک پہنچا جس کے پاس پستول تھی، جو کسی نہ کسی مافیا کا حصہ تھا، جو بے روزگار تھا یا جس کا کسی فرقے کے ساتھ تعلق تھا اور وہ فرقہ دوسرے فرقے کے لوگوں کو قتل کرنا عبادت سمجھتا تھا، یہ پیغام روز دیا جاتا تھا اور روز سنا جاتا تھا لیکن ریاست کیا کرتی تھی؟
ریاست خاموشی سے تماشہ دیکھتی تھی، آپ ریاست کی کمزوری ملاحظہ کیجیے، ملک اسحاق پندرہ سال جیلوں اور عدالتوں میں رہا مگر وکلاء، جج اور ریاست اس پر کوئی جرم ثابت نہیں کر سکی، اس دوران 72 ججوں اور گواہوں نے پیش ہونے اور کیس سننے سے انکار کیا، ملک اسحاق کو جس بھی عدالت میں پیش کیا جاتا تھا، اس عدالت کا جج چھٹی لے لیتا تھا، نوکری چھوڑ دیتا تھا یا پھر مقدمہ سننے سے معذرت کر لیتا تھا، یہ شخص اس قدر اہم اور مضبوط تھا کہ 10 اکتوبر 2009ء میں جب جی ایچ کیو پر حملہ ہوا تو ہماری ریاست ملک اسحاق کو خصوصی طیارے پر راولپنڈی لانے پر مجبور ہو گئی، ملک اسحاق نے حملہ آوروں کے ساتھ مذاکرات کیے اور یوں حملہ آور جی ایچ کیو سے پیچھے ہٹے۔
ہماری ریاست کس قدر مضبوط ہے، آپ اس کا اندازہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل سے لگا لیجیے، یہ درست تھا سلمان تاثیر کے رویئے بھی ٹھیک نہیں تھے، وہ بھی بولتے، اٹھتے اور چلتے پھرتے اپنی عمر اور عہدے دونوں کا خیال نہیں رکھتے تھے لیکن وہ اس کے باوجود ملک کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر تھے۔
وہ ریاست کی عزت اور توقیر کی علامت تھے مگر ریاست اپنی توقیر، اپنی عزت کو قتل ہونے سے بچا سکی اور نہ ہی آج تک اس کے قاتل کو سزا دے سکی، سلمان تاثیر کا قاتل واردات کے بعد معتبر ہستی بن گیا، ریاست خاموش رہی، ریاست جب اس بے نظیر بھٹو کو نہ بچا سکے جو ملک کی دو بار وزیراعظم رہیں اور جو شہید ہونے تک ملک کی سب سے بڑی پارٹی کی قائد بھی تھیں اور ریاست جب محترمہ کے قتل کے بعد اس کے قاتلوں کو گرفتار کر سکے اور نہ ہی انھیں سزا دے سکے اور ریاست کو جب یہ علم نہ ہو دنیا کا مطلوب ترین شخص اسامہ بن لادن کس راستے سے ہوتا ہوا ایبٹ آباد پہنچا اور وہ سات آٹھ برس چھاؤنی ایریا میں پناہ گزین رہا اور ریاست کو جب دو مئی 2011ء کو امریکی ہیلی کاپٹروں کا علم نہ ہو سکے اور جب علم ہو اور اس نالائقی پر تحقیقاتی کمیشن بن جائے اور پھر اس کمیشن کی رپورٹ سامنے آئے اور نہ ہی رپورٹ میں موجود ذمے داروں کو سزا ہوا اور ریاست میں جب بنوں اورڈی آئی خان کی جیلیں ٹوٹ جائیں اور طالبان بنوں جیل سے 383 اور ڈی آئی خان کی جیل سے 248 ملزموں کو چھڑا لے جائیں اور ریاست ان لوگوں کو آنے سے روک سکے اور نہ ہی جانے سے اور جب غیر ملکی نشریاتی ادارے یہ دعویٰ کر دیں ملا عمر کراچی کے ایک اسپتال میں فوت ہوئے تھے تو پھر ریاست کا کیا بھرم رہ جائے گا۔
اس کا کیا امیج رہے گا اور اگر اس امیج کے بعد بھی کوئی شخص طاہر خان نیازی کو گھر میں گھس کر گولی نہیں مارتا تو کیا وہ شخص بے وقوف نہیں ہوگا؟ کیا وہ دنیا کا بزدل ترین شخص نہیں ہوگا؟ میں اس ریاست، اس پوری حکومت اور اس پورے نظام کو طاہر خان نیازی کا قاتل سمجھتا ہوں، کیوں؟ کیونکہ جو ریاست اپنے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو نہ بچا سکے، جو ریاست اپنے ججوں کے قاتلوں کو گرفتار نہ کر سکے۔
اس ریاست کو قاتل ڈکلیئر ہونا چاہیے! کیا میرا دعویٰ غلط ہے؟ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے، کیا طاہر خان نیازی عین اس دن قتل نہیں ہوئے جس دن سپریم کورٹ نے اٹھارہویں اور اکیسویں ترمیم کی تصدیق کی، جس دن سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملک میں ملٹری کورٹس کو جائز قرار دے دیا تھا اور کیا یہ قتل یہ ثابت نہیں کرتا ہمارے ملک میں قانون شکن دندناتے پھر رہے ہیں اور ہم خواہ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے خلاف کتنے ہی اتحاد قائم کر لیں ہم ان کا حوصلہ نہیں توڑ سکیں گے۔
ملک میں 21 ویں ترمیم منظور کرنے والو اور اس ترمیم کی تصدیق کرنے والو! آپ اپنے دروازے کھول کر دیکھو، آپ کی دہلیز پر طاہر خان نیازی کی لاش پڑی ہے، آپ یہ لاش دیکھیں، آپ اس لاش کے ماتھے پر لکھی تحریر پڑھیں، کیا یہ لاش آپ سے یہ نہیں کہہ رہی، جو ریاست اپنے جج کی حفاظت نہ کر سکے۔
جو ریاست اپنے جج کو انصاف نہ دے سکے، اس ریاست کو ریاست کہلانے کا کوئی حق نہیں ہوتا، خواہ اس ریاست کے گلے میں ترامیم کے کتنے ہی ہار اور اس کے سر پر متفقہ فیصلوں کے کتنے ہی تاج کیوں نہ ہوں، یہ لاش وزیراعظم اور چیف جسٹس سے کہہ رہی ہے، آپ اگر ججوں کی حفاظت نہیں کر سکتے تو آپ ان سے انصاف کی توقع کیوں کرتے ہیں؟ کیا چیف جسٹس، کیا وزیراعظم انصاف کی اس لاش کو جواب دیں گے؟ اگر آپ زندہ ہیں، اگر اس ریاست کی رگوں میں جان باقی ہے تو پھر اسے طاہر خان نیازی کی عدالت میں پیش ہو کر اس سوال کا جواب دینا ہو گا۔