ایک طرف توجیل میں بیٹھے بانی پی ٹی آئی نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے کمیٹی بنادی ہے جس کا سپیکرقومی اسمبلی ایازصادق کی سربراہی میں ایک اجلاس ہوچکا جبکہ دوسرا اجلاس 2جنوری 2025ء کوہونے جارہا ہے اور دوسری طرف بانی بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کوپاکستان میں کم ازکم ریمٹنس بھیجنے کی تلقین کررہے ہیں جو سول نافرمانی کاآغاز ہے۔
جمعرات 26دسمبر کو ایک صحافی کے سوال کاجواب دیتے ہوئے بانی یہ اقرار کرچکے کہ ملک دیوالیہ ہونے والاتھا لیکن اب معیشت سنبھل چکی۔ شاید اِسی لیے قدم بہ قدم بڑھتی معیشت نے اُنہیں پریشان کردیا اور اُنہوں نے کم ازکم ریمٹنس بھیجنے کااعلان کیا کیونکہ اُنہیں پھلتاپھولتا پاکستان کسی بھی صورت میں قبول نہیں۔ اُسی دن بانی کی منتخب کردہ مذاکراتی کمیٹی نے اڈیالہ جیل میں اُن سے ملاقات کی۔
ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صاحبزادہ حامدرضا نے کہا "ہمارا مطالبہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی کورہا کیاجائے، بانی کی رہائی کسی ڈیل کے نتیجے میں نہیں چاہتے۔ بانی اپنے خلاف تمام کیسزکے فیصلے عدالتوں سے چاہتے ہیں"۔ سوال یہ ہے کہ اگرتحریکِ انصاف بانی کی رہائی کسی این آراو کے تحت نہیں چاہتی توپھر یہ مطالبہ حکومت سے نہیں، عدالتوں سے کرنا چاہیے جوآج بھی بانی کے لیے "ماں کے جیسی" ہیں۔
پوری قوم دیکھ رہی ہے کہ بانی کے وکلاء تاخیری حربے استعمال کرکے کیسزکو لٹکاتے جارہے ہیں۔ 190ملین پاؤنڈکیس کوڈیڑھ سال ہوگیا لیکن تاحال اُس کافیصلہ نہیں آیا۔ اِسی طرح سے سپریم کورٹ کے حکمِ امتناعی کی بدولت 9مئی 2023ء کے 60 شَرپسندوں کے ملٹری کورٹ نے فیصلے 26دسمبر کوسنائے۔ اِس سے 3دن قبل 25شرپسندوں کے فیصلے سنائے گئے جس پرامریکہ برطانیہ اوریورپی یونین نے تشویش کااظہار کیا۔ اُن کے خیال کے مطابق ملٹری کورٹس میں شفاف ٹرائل ممکن نہیں جبکہ حقیقت اِس کے برعکس۔
ملٹری کورٹس میں ملزمان کو غیرجانبدارانہ اور شفاف ٹرائل کاحق دیاجاتا ہے۔ ملزمان کووکیل اور شہادتوں پر جرح کی اجازت ہوتی ہے جوکہ یورپی یونین کے ICCPR کے سیکشن 14کے عین مطابق ہے اورسیکشن 14میں کہیں بھی ملٹری ٹرائل کی ممانعت نہیں کی گئی۔ ویسے بھی بھارت کے جاسوس کلبھوشن یادوکے کیس میں عالمی عدالتِ انصاف پاکستان کے ملٹری کورٹس کوتسلیم کرچکی ہے۔
امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین سے یہ سوال توبہرحال کیا جاسکتا ہے کہ اُنہیں غزہ کے معصوم ومظلوم کیوں یادنہیں آتے جہاں ایک صحافی جب ایک معصوم بچی سے سوال کرتاہے کہ وہ بڑی ہوکر کیابنے گی تووہ جواب دیتی ہے "انکل! ہم بڑے نہیں ہوتے، ہم توپہلے ہی شہید ہوجاتے ہیں"۔ اُنہیں کشمیرکی بیٹیوں کے سروں سے چھنتی ردائیں کیوں یادنہیں آتیں جبکہ اُنہی کی قائم کردہ اقوامِ متحدہ 76سال پہلے اُن کشمیری مظلوموں کاحقِ خودارادیت تسلیم کرچکی ہے۔
صاحبزادہ حامدرضا نے بانی کادوسرا مطالبہ یہ دُہرایاکہ 9مئی اور 26نومبر کے ملزموں کی تفتیش کے لیے سپریم کورٹ کے سینئرترین 3جسٹس صاحبان پرمشتمل جوڈیشل کمیشن تشکیل دیاجائے۔ اِس وقت سپریم کورٹ کے سینئرترین 3ججز، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصورعلی شاہ اور جسٹس منیب اختر ہیں۔ جس سے صاف ظاہرہے کہ اِس مطالبے کے محرکات کیاہیں۔ جسٹس منیب اختربندیالی کورٹ کے مستقل رُکن رہ چکے ہیں، جس کا ہرفیصلہ بانی کے حق میں ہی آتارہا اور 26ویں آئینی ترمیم کی وجہ سے جسٹس منصورعلی شاہ چیف جسٹس بنتے بنتے رہ گئے۔
مزید تفصیل سے گریزکہ اعلیٰ عدلیہ کاہرجسٹس ہمارے لیے انتہائی قابلِ احترام۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات سے پہلے تحریکِ انصاف کے رَہنماؤں نے واشگاف الفاظ میں کہاتھا کہ وہ غیرمشروط مذاکرات کے لیے تیارہیں لیکن اب وہ وہی مطالبات سامنے لارہے ہیں جوکچھ عرصہ پہلے بانی نے پیش کیے تھے۔ سوال یہ ہے کہ ایک طرف سول نافرمانی اوردوسری طرف مطالبات۔۔ ایسا کیسے چلے گا؟ کیاایسے میں مذاکرات کی کامیابی کاکوئی امکان ہے؟
27دسمبر کوپاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمدشریف چودھری نے ایک بھرپور پریس کانفرنس کی۔ اُنہوں نے بتایاکہ رواں سال 59ہزار 775 کامیاب آپریشنز کیے جس کے دوران 925دہشتگردوں کوواصلِ جہنم کیاگیا ان میں 27افغان دہشتگرد بھی تھے۔ اِن آپریشنز میں پاک فوج کے 383آفیسرز اور جوان شہید ہوئے۔ اُنہوں نے بتایاکہ پاکستان طویل عرصے سے افغان مہاجرین کی نہ صرف مہمان نوازی کرتا آرہاہے بلکہ افغانستان میں استحکام کے لیے اہم کردار بھی اداکررہا ہے۔
فتنہ الخوارج افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے۔ آرمی چیف افغانستان سے دہشتگردی کے خلاف دوٹوک مؤقف رکھتے ہیں۔ وہ کہہ چکے "ایک پاکستانی کی جان افغانستان پرمقدم ہے"۔ جب ایک صحافی نے سوال کیاکہ بانی نے افغانستان کے صوبے پکیتکا میں ایئراٹیک کی مذمت کی اورکہا کہ معاملہ مذاکرات کے ذریعے حل ہوناچاہیے۔ ترجمان پاک فوج نے فرمایاکہ پچھلے 2سال سے نہ صرف براہِ راست بلکہ دوست ممالک کے ذریعے بھی افغان عبوری حکومت کوکہاجارہا ہے کہ فتنہ الخوارج کابندوبست کرے۔ اُنہوں نے کہابانی سے پوچھا جائے کہ 21دسمبر کوجب فوجی چوکی پر دہشتگردوں کے حملے سے ایف سی کے 16جوان شہیدہوئے، کیاوہ کسی کے بیٹے نہیں تھے؟ کیااُن کاکوئی گھربار نہیں تھا؟
افغانستان ہمارا برادرملک ہے لیکن جب اِس قسم کے حملوں کا سَدِباب کرنے کے لیے کوئی تیارہی نہ ہوتو کیاہم بھی خاموش رہیں؟ اُنہوں نے مزیدکہا "2021ء میں دہشتگردوں کی کمرٹوٹ چکی تھی اُنہیں بات کرنے کے نام پرکِس نے دوبارہ آباد کیا؟ کچھ لوگ سیاست کے نام پرزہریلے پراپوگنڈے سے عوام کوگمراہ کرتے ہیں، کچھ لوگ جوملٹری کورٹس پربات کررہے ہیں وہ ماضی میں اِس کے حق میں تھے۔ انصاف کاسلسلہ تب تک چلے گاجب تک منصوبہ سازوں کو کیفرِکردار تک نہیں پہنچایا جاتا۔ انتشاری سیاست کاکنٹرول اندرونِ ملک سیاسی لیڈرز کے پاس نہیں، ملک سے باہر افرادکے پاس ہے۔ کیسے انسانی حقوق کی تنظیمیں دنیاکے سامنے آئی ہیں اِن تنظیموں کوغزہ، فلسطین نظرنہیں آئیں گے۔
انسانی حقوق پرجو تنظیمیں واویلا مچارہی ہیں وہ ایسی مہم غزہ اورکشمیر پر چلائیں"۔ اُنہوں نے فرمایا "26نومبر 2024ء کی سازش 9مئی 2023ء کاتسلسل ہے، نومبرکی سازش کے پیچھے سیاسی دہشتگردوں کی سوچ ہے۔ کچھ لوگ سیاست کے لیے نوجوانوں میں زہر ڈالتے ہیں۔ مغربی ممالک میں سیاسی انتشاریوں کوکوئی جگہ نہیں دیتا۔ 2020ء میں کیپیٹل ہِل پرحملہ ہوا۔ تیزی سے لوگوں کو سزائیں دی گئیں۔ 2011ء میں لندن رائٹس میں 1200سے زیادہ لوگوں کو سزائیں دی گئیں۔ 2023ء میں فرانس کے فسادات میں 700سے زائدلوگوں کوسزائیں دی گئیں۔ پاکستان اورقوم بھی 9مئی جیسے سانحے یاایسی سیاست کی اجازت نہیں دے سکتی"۔ یقیناََ پوری قوم کامطالبہ بھی یہی ہے۔