آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے گزشتہ روز کی پریس کانفرنس میں گزشتہ سے پیوستہ روز اور اس سے قبل فیلڈ کورٹ مارشل جنرل (ملٹری کورٹس) سے "سانحہ" 9 مئی کے مقدمات میں سنائی گئی سزائوں کے حوالے سے عسکری اسٹیبلشمنٹ کے موقف کی تفصیل کے ساتھ وضاحت کی اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے چند حساس معاملات پر بھی اظہار خیال کیا۔
سابق وزیراعظم کے لمحہ بہ لمحہ بدلتے موقف پر ان کی برہمی اور رائے ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور سابق وزیراعظم عمران خان کا آپسی معاملہ ہے۔ اپریل 2022ء سے قبل دونوں کے تعلقات مثالی تھے لیکن یہ ہمارا موضوع ہرگز نہیں نہ یہ عرض کرنے کی ضرورت ہے کہ جن حالات زبان دانیوں اور گالم گلوچ کا آج ملٹری اسٹیبلشمنٹ کوسامنا ہے اس کے لئے دونسلوں کو تربیت اس نے خود دی ایک بدزبان لشکر تیار کیا اس کے دل و دماغ میں راسخ کیا کہ ملک کے دو ہی خیرخواہ ہیں ا یک فوج اور دوسرا عمران خان باقی سب چور اچکے اور لٹیرے ہیں۔
ساجھے داری کی یہ ہنڈیا چوراہے پر پھوٹی تو ففتھ جنریشن وار کے لئے تیار شدہ لشکر سمیت دوسرے لشکروں نے اسٹیبلشمنٹ کی بجائے عمران خان کے ساتھ جانے کو ترجیح دی۔
یہاں یہ سوال ضرور ہے کہ کیا سرکاری خرچ اور تربیت پر تیار ہوئے "مجاہدین کی باگیں" "سرکار" کی بجائے جاسوسی کے اس متوازی نظام کے کرتا دھرتائوں کے ہاتھ چلی گئیں جس کے پیشوا جنرل فیض حمید تھے جو قبل ازیں آئی ایس آئی کے سربراہ اور پشاور و بہاولپور کے کور کمانڈر رہے۔
ہاں ان کی یہ بات درست ہے کہ فوجی عدالتوں کی بات 2021ء میں عمران خان کی حکومت نے کی تھی، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس سے بھی قبل جب 2018ء میں پی ٹی آئی کو آر ٹی ایس سسٹم بیٹھا اور سیاسی پارٹیاں توڑ کر آزاد امیدواروں کو جہانگیر ترین کے جہاز میں لاد کر اقتدار میں لایا گیا تو پی ٹی آئی بضد تھی کہ میاں نوازشریف دورکے ڈان لیکس سکینڈل کا معاملہ خصوصی فوجی عدالت میں لے جایا جائے۔ اس پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا کیوں؟ بہتر ہوتا اس بارے بھی لب کشائی کردی جاتی۔
یہاں یہ عرض کرنا ازبس ضروری ہے کہ خود تحریک انصاف کے دورمیں 29 عام شہریوں جن میں انسانی حقوق کے لئے سرگرم پشتون رہنما ادریس خٹک بھی شامل ہیں کو ملٹری کورٹس سے سزائیں سنائی گئیں۔ 23ویں ترمیم کے باوجود فوجی عدالتوں نے 3 سویلین کو سزائے موت سنائی اور جنرل باجوہ نے اس کی توثیق بھی کی۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ کابل مذاکرات 2022ء میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد نہیں شروع ہوئے، بلکہ ان مذاکرات کے لئے جنرل فیض حمید نے زمین ہموار کی اور پھر جب وہ پشاور کے کور کمانڈر بنائے گئے تو انہوں نے معروف "جہادی بچے" بیرسٹر سیف کو کابل بھجوایا اگلے مرحلے میں مذاکراتی کمیٹی بنی۔ کسی عقل سے پیدل شخص کا یہ دعویٰ کہ کابل مذاکرات وفاقی کابینہ کی منظوری سے ہوئے درست نہیں ہے۔
کابینہ اور پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی میں یہ معاملہ پہلی باراس وقت آیا جب کابل مذاکرات میں کالعدم ٹی ٹی پی نے اپنے سزا یافتہ 103 افراد کی رہائی، سات ارب روپے کے خون بہا سمیت 7 مطالبات حکومت کے سامنے رکھے یادرہے پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کے اس اہم اجلاس میں عمران خان نے وزیراعظم ہونے کے باوجود شرکت گوارہ نہ کی۔
103 سزا یافتہ دہشت گردوں کی رہائی کے لئے خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی سے تحریری درخواست کی تھی۔ صدرمملکت نے ہی سزائیں معاف کیں اور 103 افراد رہا کئے گئے یہ سال 2022ء میں ہوا تب ہم نے ان سطور میں سوال اٹھایا تھا کہ صدر مملکت نے پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کی جانب سے 103 افراد کی سزائیں معاف کرنے کی تحریری اپیل پر فیصلے سے قبل وزیراعظم اور وزارت داخلہ سے مشورہ کیوں نہیں کیا؟
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آئی ایس پی آر کے سربراہ کی پریس کانفرنس سے یہ تاثر ابھرا ہے کہ کابل مذاکرات تنہا عمران خان کا فیصلہ تھا، ایسا نہیں ہے یہ مجموعی طور پر تین افراد کا فیصلہ تھا عمران خان، جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید۔ ہاں منصوبہ ساز جنرل فیض حمید تھے۔ کابل مذاکرات اصل میں 2032ء تک پاکستان کے اقتدار اور اسٹیبلشمنٹ پر گرفت مضبوط رکھنے کے پروگرام کا حصہ تھے۔
بہتر ہوتا اگر جنرل احمد شریف چودھری امریکی صدر ٹرمپ عمران خان اور باجوہ کے درمیان مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر ہوئی اعتماد سازی پر بھی کچھ روشنی ڈالتے۔ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ جولائی 2019ء میں جنرل باجوہ کے پینٹاگون کے دورے میں انہیں سربراہ مملکت کا پروٹوکول کیوں دیا گیا نیز یہ کہ اسی عرصے میں عمران خان کے نجی دورے کو وزارت خارجہ کی کوششوں سے اسٹیٹ گیسٹ میں کیسے تبدیل کیا گیا۔
مندرجہ بالا دونوں معاملات کی تفصیل سے یہ امر دوچند ہوسکتاہے کہ مسئلہ کشمیر پراس وقت پاکستانی ریاست نے "کلٹی" کیوں ماری اور کس برتے پر بھارت نے اگست 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے باقاعدہ بھارتی ریاست کا حصہ بنالیا۔
اسی طرح سال 2022ء کے وسط میں جب کالعدم ٹی ٹی پی کے لوگ سوات وغیرہ میں ظاہر ہوئے۔ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں، بھتہ خوری کا سلسلہ شروع ہوا تو اس پر عوامی ردعمل بہت شدید تھا تب خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔ بیرسٹر سیف اس وقت بھی مشیر تھے انہوں نے پریس کانفرنس میں کہا "طالبان آگئے کا شور پروپیگنڈہ ہے ایک طالبان کمانڈر کی ہمشیرہ بیمار تھی وہ اپنی ہمشیرہ کی عیادت کے لئے آبائی علاقے میں آیا تھا"۔
اس موقف پر ہم نے تب سوال کیا، کیا یہ وہی کمانڈر نہیں جس نے حساس ادارے کے ایک افسر اور متعدد پولیس اہلکاروں کو اغوا کیا ہے؟ یہ کہ عیادت کے لئے آئے ہوئے کمانڈر نے اغوا کی وارداتیں کیوں کیں؟
یہ بھی یاد دلادوں یہ وہی دن ہیں جب سوات کے ایک علاقے میں سڑک پر بم لگاکر اے این پی کے ایک رہنما کو نشانہ بنایا گیا اور وہ بم دھماکے میں شہید ہوگئے عوامی ردعمل میں پی ٹی آئی کے بعض رہنمائوں کے ساتھ عوام نے جو سلوک کیا وہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔
باردیگر کابل مذاکرات کی طرف پلٹتے ہیں۔ بیرسٹر سیف نہ صرف خود پرانے جہادی ہیں بلکہ ان کا خاندان جہادیوں کا پرجوش معاون ہے اب تو خیر انہوں نے خود اعتراف کرلیا ہے کہ چونکہ میں افغان جہاد میں شریک رہا ہوں اس لئے مختلف الخیال جہادی گروپس مجھ پر اعتماد کرتے ہیں اسی اعتماد کی بدولت کابل مذاکرات میں میرا کردار رہا۔
معاملہ یہ نہیں کہ کابل مذاکرات کیوں ہوئے بلکہ سوال یہ ہے کہ کابل مذاکرات کا ملبہ صرف عمران خان پر کیوں 2 اور کردار بھی تو ہیں اور یہ اہم سوال بھی ہے کہ کابل مذاکرات کے دو بڑے مطالبات تھے پہلا 103 افراد کی رہائی اور دوسرا 7 ارب روپے، ٹی ٹی پی کے ان مرنے والوں کا تاوان جو مختلف اوقات میں ریاستی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے۔ کیا یہ درست ہے کہ 7 ارب میں سے 3 ارب روپے کی رقم ابتداً دے دی گئی؟
آئی ایس پی آر کے سربراہ کی پریس کانفرنس میں کچھ سیاسی باتی بھی ہیں۔ تحریک انصاف کا اس پر ردعمل بہت شدید ہے، یہ ردعمل اس کا حق ہے لیکن جب اسی طرح کی سیاسی باتیں، عزت اور ذلت والے ٹیویٹس اور شٹ آپ کال پی ٹی آئی کے دور میں آئی ایس پی آر کا سربراہ دیا کرتا تھا تب تو دونوں ایک پیج پر تھے اعتراض اس وقت کرنا چاہیے تھا کہ یہ آپ کا کام نہیں۔
"ایک مثال ہے وہ یہ کہ لڑائی کے بعد یاد آنے والا مکہ اپنے منہ پر مارنا چاہیے" اس میں ترمیم کرتے ہوئے اب یوں کہیں "محبت میں ناکامی کےبعد عاشق کو گالیاں دینے کی بجائے طمانچے اپنے منہ پر مارنے چاہئیں"۔
اب آئیے پریس کانفرنس میں پارا چنار کی صورتحال پر، جنرل احمد شریف چودھری کے خیالات پر بات کرلیتے ہیں۔ لاریب پارا چنار میں کیا پورے ضلع کرم میں فرقہ وارانہ اختلافات بھی ہیں اور زمین و پہاڑوں کی ملکیت کے تنازعات بھی لیکن پچھلے تین ماہ میں وہاں جو ہورہا ہے اور جس طرح 80 دن سے محاصرہ جاری ہے اس محاصرے کے کرداروں پر بات کرنے کی بجائے چشم پوشی سنگین مذاق ہے۔
پارا چنار کا محاصرہ کرنے و الے جنگجوئوں میں کالعدم ٹی ٹی پی، کالعدم لشکر جھنگوی اور رواں سال کے آغاز پر بننے والی تحریک المجاہدین کے جنگجو شامل ہیں ان میں افغان درانداز بھی ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ پارا چنار کو ملیامیٹ کرکے سابق قبائلی علاقوں پر مشتمل امارات اسلامی قائم کرنے کا منصوبہ پرانا ہے اس منصوبے کا انکشاف جنرل پرویز مشرف کے دور میں 2004ء میں پہلی بار ہوا تھا۔
گزشتہ 20 برسوں کے دوران پارا چنار پر مسلط ہونے والی جنگوں کی ظاہری وجہ کچھ بھی ہو مگر ان میں غیرمقامی اور افغان جنگجوئوں کی شرکت کچھ اور ہی کہانی سناتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ٹل پاراچنار شاہراہ کیا کابل میں واقع ہے یا پاکستانی حدود میں۔ افغان حدود میں ٹی ٹی پی اور تحریک المجاہدین کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کرنے والے ٹل پارا چنار شاہراہ کیوں نہیں کھلواسکتے؟