میں نے اتوار کے دن جس کو بھی فون کیا، وہ پاکستانی ٹیم کی ہار پر دل برداشتہ ہو کر سو چکا تھا۔ اتوار کا دن تھا، لوگ چھٹی کے دن دیر سے جاگتے ہیں، لیکن میچ کیونکہ صبح ساڑھے آٹھ بجے شروع ہوا لہٰذا دنیا بھر میں موجود پاکستانیوں کو جلدی جاگنا پڑ گیا۔ میچ شروع ہوااور بھارتی بیٹسمینوں نے ہمارے باؤلرز کو دھونا شروع کر دیا۔ محمد عرفان نے 58 رنز دے دیے، یاسر شاہ آیا، 60 سکور دے کر گیا اورشاہد آفریدی نے 50 اوروہاب ریاض نے 49 رنز دے دیے۔ بھارت نے 300 سکور کر لیا، پاکستانی قوم کو پہلے ہاف میں اپنی شکست کا اندازہ ہو گیا مگر ہم کیونکہ معجزوں پر یقین رکھتے ہیں، چنانچہ ہم نے اتوار کو بھی معجزے کا انتظار شروع کر دیا۔
ہم میچ دیکھتے تھے، تسبیح رولتے تھے، یااللہ تیرا ہی آسرا، یاپروردگار اپنے پیارے حبیبؐ کے صدقے ہمیں فتح یاب فرما دے اور یا علیؑ مدد کے نعرے لگاتے تھے، اور کافر بالرز کے ہاتھوں اہل ایمان کی وکٹیں اڑتے دیکھتے تھے، اور اگلے بیٹسمین کو محمود غزنوی بنا کر معجزوں کی تمام امیدیں اس سے وابستہ کر لیتے تھے۔ یہ سلسلہ ساڑھے تین گھنٹے تک جار رہا لیکن معجزہ نہ ہوا، کرکٹ کرکٹ ہی ثابت ہوئی، ہم ہار گئے اور ہم سے بہتر ٹیم جیت گئی۔ قوم کا حوصلہ ٹوٹ گیا اور لوگ غم منانے کے لیے رضائیوں میں گُھس گئے۔
نادان قومیں خوشی ہو یا غم، سو کر مناتی ہیں اور اتوار کا دن ہم سب نے اسی طرح گزارا۔ قوم شام کے وقت جاگی تو اس نے کرکٹ ٹیم کو لعن طعن شروع کر دی، ہمارے تمام ٹیلی ویژن چینلز، ہمارا سارا سوشل میڈیا اور ہماری تمام محفلیں تین دن سے اسی لعن طعن میں مصروف ہیں۔ ہماری کرکٹ ٹیم نے زیادتی کی، ہمارے کھلاڑیوں کو قوم کو مایوس نہیں کرنا چاہیے تھا۔ لیکن سوال یہ ہے، کیا یہ ظلم صرف ہماری کرکٹ ٹیم نے کیا؟ کیا ہم باقی تمام شعبوں کے ورلڈ کپ جیت چکے ہیں، کیا ہماری معاشی ٹیم نے ملک کو کشکول سے آزاد کر دیا، کیا ہماری بجلی کی ٹیم نے لوڈ شیڈنگ کا ورلڈ کپ جیت لیا؟
کیا ہماری گیس کی ٹیم نے قوم کو سردیوں میں سرخرو کر دیا، کیا پٹرول کی ٹیم نے ملک کو پٹرولیم کرائسس سے نکال لیا، کیا پولیس کی ٹیم نے ملک میں لاء اینڈ آرڈر مضبوط کر دیا، کیا انصاف کی ٹیم نے بے انصافی کے خلاف میچ جیت لیا، کیا ہماری خارجہ پالیسی کی ٹیم نے سفارت کاری کے ورلڈ کپ جیت لیے، کیا ہماری پانی کی ٹیم نے ملک میں پانی کے مسائل کو شکست دے دی؟ کیا ہماری دہشت گردی کی ٹیم نے لاشیں گرانے والوں کو ہرا دیا، کیا ہماری بیورو کریسی کی ٹیم نے ریڈ ٹیپ ازم کو شکست دے دی، کیا ہم نے" کم بچے پیدا کریں " کا میدان مار لیا، کیا ہم نے ملک میں جعلی ادویات کی جنگ جیت لی؟
کیا ہم نے پولیو ویکسین کے خلاف جاری مذہبی جنگ کا مقابلہ کر لیا، کیا ہم لاؤڈ اسپیکر، نفرت آمیز تقریروں اور مذہبی شدت پر مبنی لٹریچر کے خلاف کامیاب ہو گئے، کیا ہم نے ملک میں جاری شیعہ سنی لڑائی ختم کرا دی، کیا ہم نے ملک میں ڈاکٹروں، سرجنوں اور نرسوں کی جان بچا لی، کیا ہم نے ملک میں ڈاکوؤں، چوروں اور نوسر بازوں کا مقابلہ کر لیا اور کیا ہم نے جیلوں میں قید سزائے موت کے قیدیوں کو پھانسی دے لی؟ نہیں ہر گز نہیں، ہماری تمام قومی ٹیمیں اس طرح شرمندہ ہیں، جس طرح ہماری کرکٹ ٹیم اور یہ شرمندگی قومی ہے! قوموں میں جزیرے نہیں ہوتے، یہ مکمل ہوتی ہیں، ترقی یافتہ یا غیر ترقی یافتہ، ذمے دار یا غیر ذمے دار۔
آپ دنیا کا نقشہ سامنے بچھائیے اور دنیا کو غور سے دیکھئے، آپ دیکھیں گے، دنیا کی تمام ترقی یافتہ اقوام زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی یافتہ ہیں۔ امریکا اگر فوجی لحاظ سے سپر پاور ہے تو یہ معیشت، سفارت کاری، تعلیم، ریسرچ، انصاف، فلم، میوزک اور کتاب بینی میں بھی سپر پاور ہے۔ یہ ہوا بازی، اسپورٹس، سیاست، کلچر، تعمیرات اور صفائی میں بھی دنیا میں، نمبر ون، ہے اور یورپ اگر "اسٹیبل لیونگ" میں ہے تو یہ دنیا کے تمام شعبوں میں " اسٹیبل" ہے۔ یہ آپ کو فوج، پولیس، عدلیہ، یونیورسٹی، اسپورٹس، فلم، میوزک، فیشن، کتاب اور سیاست غرض زندگی کے تمام شعبوں میں اسٹیبل دکھائی دے گا۔
چین اگر دنیا میں آگے بڑھ رہا ہے، تو یہ آپ کو زندگی کے تمام شعبوں میں آگے بڑھتا دکھائی دے گا۔ آپ اگر چین کو صنعتی میدان میں تیزی سے آگے دوڑتا دیکھتے ہیں تو آپ کو یہ میوزک، فلم، کتاب، اسپورٹس، لاء اینڈ آرڈر، انصاف، تعلیم، تحقیق اور سیاست میں بھی سرپٹ بھاگتا دکھائی دے گا۔ اور آپ اگر کسی ملک کو سیاسی لحاظ سے پسماندہ دیکھتے ہیں تو آپ کو وہ ملک فوجی، ثقافتی، تعلیمی، صنعتی، سماجی اور ادبی لحاظ سے بھی پسماندہ ملے گا۔ آپ کو وہ اسپورٹس کے شعبے میں بھی مار کھاتا نظر آئے گا۔
ترقی ہو یا پسماندگی یہ دونوں گلدستے کی طرح ہوتی ہیں، ترقی کے گلدستے کے تمام پھول تازہ، خوبصورت اور خوشبودار ہوتے ہیں جب کہ پسماندگی کے گلدستے کے تمام پھول باسی، بدبودار اور بے رنگ ہوتے ہیں۔ اور اگر خوش قسمتی سے کبھی پسماندگی کے گلدستے میں کوئی خوبصورت، خوشبودار اور تازہ پھول آ بھی جائے تو بھی وہ زیادہ دیر تک گلدستے میں رہ نہیں سکتا، ترقی کا کوئی نہ کوئی ہاتھ بہت جلد اس تازہ پھول کو اچک لیتا ہے۔ ہم من حیث القوم مار کھا رہے ہیں۔
آپ آنکھ کھول کر دیکھیں گے تو آپ کو یہ مار ملک کے ہر شعبے میں نظر آئے گی۔ آپ کو پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل مل، واپڈا اور واسا بھی اس بحران کا شکار ملے گا جس بحران کا شکار ہماری کرکٹ ٹیم تھی۔ یہ تمام محکمے بھی میچ میں اسی طرح آؤٹ ہوتے ہیں جس طرح اتوار کو یونس خان، صہیب مقصود اورعمر اکمل آؤٹ ہوئے۔ اور یہ محکمے اگر کبھی عمران خان کی طرح ورلڈ کپ جیت بھی لیں، توپھر ہماری ٹیم کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو 1992ء کے بعد ہماری ٹیم کے ساتھ ہوتا آ رہا ہے۔ ہم ٹیم بناتے ہیں، ہم اس ٹیم سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں اور پھر ہماری امیدیں پانی کے بلبلے کی طرح ہوا میں پھٹ جاتی ہیں، ہم دوبارہ پرانی پوزیشن پر آ جاتے ہیں۔
میں کل سے سن رہا ہوں، ہمارا کرکٹ بورڈ ٹھیک نہیں، یہ لوگ نااہل بھی ہیں، کرپٹ بھی اور نالائق بھی۔ یہ الزام درست ہوگالیکن کیا ہم باقی شعبوں میں لائق، ایماندار اور اہل ثابت ہو رہے ہیں، ہم اگر زندگی کے باقی شعبوں میں نالائق، کرپٹ اور نااہل ہیں تو پھر ہم کرکٹ میں لائق، ایماندار اور اہل کیسے ہو سکتے ہیں؟ ہماری رگوں میں اگر گندہ خون ہو گا تو پھر ہم کیسے توقع رکھ سکتے ہیں، ہمارے کان خراب ہو جائیں لیکن ہماری ناک اور پلکیں خوبصورت رہیں، کیا یہ ممکن ہے؟ یہ ممکن نہیں جناب!
ہمارا المیہ کیا ہے؟ ہمارے دو بڑے المیے ہیں، ہمارا پہلا المیہ ترقیاتی کام ہیں، یورپ، امریکا اور مشرق بعید کے ترقی یافتہ ممالک نے آج سے ستر سال قبل تمام ترقیاتی کام مکمل کر لیے تھے۔ ترقی یافتہ قوموں کو جتنے ڈیم، ریل کی پٹڑیاں، بجلی کے منصوبے، اسٹیل ملیں، ائیر لائینز، ائیر پورٹس، سڑکیں، پل، پارکس، اسٹیڈیم اور اسکول چاہیے تھے، انھوں نے بنا لیے۔ یہ اب اپنے بجٹ کا آدھے سے زیادہ حصہ سماجی ترقی پر لگاتی ہیں، یہ انصاف، تعلیم، اسپورٹس، فلم، میوزک، بچوں کی بہبود، ماحولیاتی آلودگی، صنعت اور کاروبار پر سرمایہ کاری کررہی ہیں۔
جب کہ ہم ابھی تک ترقیاتی کاموں سے فارغ نہیں ہوئے، ہم نے ابھی ڈیم، ائیرپورٹس، سڑکیں، نہریں، پل، ریل کی پٹڑیاں، اسٹیل ملیں، پبلک ٹرانسپورٹ کا سسٹم، پانی کا نظام، اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بنانی ہیں ۔ چنانچہ ہمارے بجٹ کا زیادہ تر حصہ ان سرگرمیوں پر خرچ ہو جاتا ہے۔ ہمارے پاس قوم کو بنانے، سمجھانے اور سنوارنے کے لیے رقم ہی نہیں بچتی، ہم سماجی بہبود پر سرمایہ خرچ نہیں کر پاتے۔ ہم لوگوں کو یہ نہیں سمجھا پاتے ہاتھ دھونا، ایکسرسائز کرنا، لائین بنانا، پانی ابال کر پینا اور کتابیں پڑھنا کیوں ضروری ہوتا ہے؟ چنانچہ ہم سماجی لحاظ سے ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں لوگوں کو بولنے تک کی تمیز نہیں، ہم اختلاف کرتے ہوئے لڑ پڑتے ہیں اور لڑتے لڑتے ہنس پڑتے ہیں۔ ہم اکیسویں صدی میں بھی سڑکوں پر کاغذ، شاپنگ بیگز اور چھلکے پھینکتے ہیں۔ ہماری مسجدوں تک میں صفائی نہیں ہوتی، کیوں؟ کیونکہ ہم اپنا زیادہ تر وقت اور سرمایہ ترقیاتی کاموں پر خرچ کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس سماجی ترقی اور انسانی وسائل کے لیے وقت اور سرمایہ نہیں بچتا، چنانچہ ہمارے لوگ پیچھے رہ گئے ہیں۔ اور ہمارا دوسرا المیہ ترقی سے نفرت ہے، ہم آج بھی ترقی سے نفرت کرتے ہیں۔
آپ اپوزیشن کے تمام بیانات نکال کر دیکھ لیجیے، آپ کو یہ لوگ ترقیاتی کاموں کی مخالفت کرتے نظر آئیں گے۔ یہ لوگ آپ کو میٹرو بس سروس، موٹروے، ڈیمز، دانش اسکولوں اور بجلی کے منصوبوں پر تلواریں لہراتے نظر آئیں گے، آپ کو عام لوگوں میں بھی یہ رویہ نظر آئے گا۔ یہ آج کے دور میں بھی فیکٹریوں، شاپنگ سینٹروں، دکانوں، زمین اور ہاؤسنگ اسکیموں کے مالکان کو گالی دیں گے، یہ ٹیکس دینے والوں کو برا کہیں گے۔ ہمارے لوگ فیکٹریاں، دکانیں، اسکول، یونیورسٹیاں اور سڑکیں بند کرنا کارنامہ سمجھتے ہیں۔
یہ واپڈا اور گیس کے دفاتر اور پٹرول پمپوں کو آگ لگانے کا بہانہ تلاش کرتے رہتے ہیں۔ حکومت سڑک بناتی ہے اور یہ کبھی بجلی کی تار بچھانے، کبھی گیس کا پائپ گزارنے اور کبھی سیوریج کی لائین بچھانے کے لیے وہ سڑک توڑ دیتے ہیں اور باقی زندگی سڑک پر ٹھڈے کھاتے گزار تے ہیں۔ چنانچہ جو قوم 21 ویں صدی میں ترقی کے خلاف ہو، وہ قوم خاک ترقی کرے گی؟ ہمیں یہ دونوں المیے دور کرنا ہوں گے۔ ہم جتنی جلد ترقیاتی کام مکمل کر لیں گے، ہمیں اتنی ہی جلدی سماجی ترقی کے لیے وسائل اور وقت مل جائے گا۔
اور ہم جتنی جلد ترقی سے محبت شروع کر دیں گے، ہم اتنا جلد، کمفرٹ ایبل لیونگ، میں آ جائیں گے۔ ہم اتنی ہی جلد مسائل سے باہر آ جائیں گے۔ ہم جب تک پوری قوم کو نہیں بدلتے، ہمیں اس وقت تک اپنی کرکٹ ٹیم سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کرنی چاہئیں ۔ کیونکہ یہ امیدیں اگر پوری بھی ہو گئیں، تو بھی یہ اندھیرے میں جگنوں کی مسکراہٹ سے زیادہ چمک نہیں دے سکیں گے۔ امید کا شعلہ اٹھے گا، پھڑپھڑائے گا اور پھر بجھ جائے گا، کیوں؟ کیونکہ قومیں مکمل ہوتی ہیں، ان میں جزیرے نہیں ہوتے۔