Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Mera Sultan

Mera Sultan

سُلطان سلیمان دنیا کے ان تین بڑے حکمرانوں میں شمار ہوتے تھے جنھیں گریٹ کہلانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ پہلا حکمران سکندر تھا، دوسرا تیمور تھا اور تیسرا سُلطان سلیمان۔ وہ مشرقی یورپ اور ایشیا کے بڑے علاقے فتح کر کے، سلیمان دی عالی شان بن گئے۔ وہ 30 ستمبر 1520ء کو خلافت ِعثمانہ کے خلیفہ بنے، سُلطان کہلائے اور 46 سال تک سُلطان رہے۔ وہ 15 سال کی عمر میں گھوڑے پر بیٹھے اور پوری زندگی لڑتے گزار ی۔ سُلطان سلیمان کا انتقال 1566ء میں دوران جنگ ہوا۔

ان کے جسم کے اندرونی اعضاء ہنگری کے شمالی علاقے سی گتوار میں دفن کر دیے گئے ،جب کہ لاش واپس لا کر استنبول میں دفن کی گئی۔ آج سُلطان سلیمان کے مزار پر خوبصورت اور وسیع مسجد تعمیر ہے۔ یہ مسجد سُلیمانیہ کہلاتی ہے۔ آپ باسفورس سے سُلیمانیہ مسجد کے مینار دیکھ سکتے ہیں۔ سُلطان سلیمان کو پاکستان میں چند سال پہلے تک صرف تاریخ کے طالب علم جانتے تھے، یا پھر وہ لوگ جنھیں استنبول آنے اور تاریخ میں جھانکنے کا موقع ملا۔

لیکن پھر پاکستان کے پرائیویٹ چینلز نے سُلطان سلیمان پر بننے والی تُرکش سیریل "میرا سُلطان" نشر کرنا شروع کر دی ،اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کے ہر گھر کا حصہ بن گئی۔ یہ ڈرامہ 139 قسطوں پر مشتمل تھا اور دنیا کی مہنگی ترین سیریلز میں شمار ہوتاتھا۔ یہ ڈب ہو کر دنیا کے 15 ممالک میں دکھایا گیا۔ یہ تاریخ کا کمرشل نوحہ ہے۔ سُلطان سلیمان عظیم حکمران تھے۔وہ دنیا کے عظیم فاتح بھی تھے، منتظم بھی، منصف بھی اور عسکری موجد بھی۔ وہ اپنی قانون پسندی اور انصاف کی وجہ سے سلیمان قانونی کہلاتے تھے ۔لیکن ڈرامہ سیریل میں اس سلیمان قانونی کو ایک ایسا بادشاہ بنا کر پیش کیا گیا ،جس کی زندگی کا زیادہ تر حصہ حرم سرا میں کنیزوں سے کھیلتے، ملکاؤں کی زلفیں سیدھی کرتے اور غلام گردشوں کی سازشیں بھگتتے گزرا ،جب کہ حقیقت بالکل مختلف تھی۔

سیریل میں دکھائے جانے والے سُلطان سلیمان اور حقیقی سُلطان سلیمان میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اصل سُلطان بے چارہ پوری زندگی گھوڑے کی پیٹھ سے نہیں اترا ،جب کہ ٹی وی سیریل میں دکھائے جانے والے سُلطان نے حرم سرا سے باہر قدم نہیں رکھا۔ چنانچہ یہ سیریل بنیادی طور پر کمرشل ازم کا وہ نوحہ تھی جو بتاتی رہی، تاریخ جب بکنے پر آتی ہے توسوداگر ماضی کے ہیروز کے بھی چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے، چاکلیٹ کے خوبصورت ریپرز میں لپیٹتے ہیں اوربیچ دیتے ہیں ،اور سُلطان سلیمان بے چارے کے ساتھ بھی یہی ہوا۔

میں اپنے تین ساتھیوں اور دو ترک بھائیوں کے ساتھ، "میرا سُلطان" کے تعاقب میں جمعرات کی صبح استنبول پہنچ گیا۔ فریحہ ادریس "وقت ٹیلی ویژن" پر سیاسی شو کرتی ہیں۔ فواد چوہدری قانون اور سیاست کے میدانوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھ کر، اب میڈیا میں آ چکے ہیں۔ میں ان دونوں کے ساتھ ترکی گیا۔ بھائی ترگت اور بھائی صوات کئی برسوں سے پاکستان میں مقیم ہیں۔ بھائی صوات کی بیگم پاکستانی ہیں۔ یہ دونوں ترک دوست پاکستان میں "پاک ترک اسکول" چلا رہے ہیں۔ پاکستان کے دس شہروں میں 24 پاک ترک اسکول ہیں۔ لاہور میں اب پاک ترک یونیورسٹی بنانے کا منصوبہ بھی بن رہا ہے۔میں دونوں ترک بھائیوں کو دو برسوں سے جانتا ہوں۔ یہ دونوں ہمارے ساتھ استنبول گئے۔

استنبول جانے کا مقصد ترک میڈیا کی گروتھ اور ڈرامہ انڈسٹری کا مشاہدہ تھا۔ ترک میڈیا پاکستانی میڈیا سے مختلف ہے۔ہمارے ملک میں نیوز چینلز کو بہت اہمیت حاصل ہے، جب کہ ترکی میں ڈرامہ چینلز کو کئی گنا زیادہ قدر دی جاتی ہے۔ ترکی میں 350 ٹی وی چینلز ہیں۔ریڈیوز کی تعداد 1030 ہے۔ ملک سے پچاس بڑے اخبارات نکلتے ہیں۔ ٹیلی ویژن چینلز 24 گھنٹے ڈرامے اور سیریل چلاتے ہیں اور درمیان میں تھوڑی دیر کے لیے خبریں اور سیاسی ٹاک شوز نشر کیے جاتے ہیں۔ ترکی میں ہر ہفتے 40 ڈرامے یا اقساط ریکارڈ کی جاتی ہیں۔

یہ ڈرامے زیادہ تر استنبول میں شوٹ ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ استنبول کی جغرافیائی اور زمینی خوبصورتی ہے۔ یہ شہر قدرت کا خوبصورت سیٹ ہے۔ آپ شہر کے کسی کونے میں کیمرہ لگائیں اور آپ کو دل کش بیک گراؤنڈ مل جائے گی۔ یہ شہر محلات کا شہر بھی کہلاتا ہے۔ آپ کو شہر میں سیکڑوں محل مل جاتے ہیں۔ آپ یہ محلات بھی کرائے پر حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ شہر جزیروں، قدیم درسگاہوں، مسجدوں اور پرانے بازاروں کا شہر بھی ہے چنانچہ آپ اگر استنبول شہر میں نکلیں ،تو آپ کو جگہ جگہ کیمرے لگے اور کسی نہ کسی مقبول سیریل کی شوٹنگ ہوتی نظر آتی ہے۔

ترکش سیریلز مشرقی یورپ، مشرق وسطیٰ،افریقہ اور مشرق بعید میں بھی دیکھی جاتی ہیں۔ ڈراموں کی عالمی مقبولیت کی وجہ سے ترکی میں اداکاروں، اداکاراؤں اور ٹیکنیکل اسٹاف کی مانگ میں اضافہ ہو چکا ہے۔ یہاں ڈرامے کی ایک ایک قسط، اڑھائی سے دس کروڑ روپے میں بنتی ہے۔ میرا سُلطان کی بعض قسطیں، پچاس پچاس کروڑ روپے میں تیار ہوئیں،یہ اس لحاظ سے مہنگی ترین سیریل تھی۔ میڈیا ڈراموں کی کاسٹ پوری کرنے کے لیے، جوائنٹ وینچر، بھی کرتا ہے۔ تین چار چینلز مل کر ڈرامہ بناتے ہیں اور پھر مشترکہ اشتہارات کے ساتھ یہ ڈرامے اپنے اپنے چینلز پر چلاتے ہیں۔

ترکی میں میڈیا ایک بڑی اور مرکزی انڈسٹری تھا، لیکن یہ اب شفٹ ہو رہا ہے۔ میڈیا مالکان اب پاکستان کی طرح ڈرامہ چینلز کے ساتھ ،نیوز چینلز کو بھی فوقیت دینا چاہتے ہیں۔ یہ اب نیوز چینلز کی حورم سُلطانیں، سُلطان سلیمان اور ابراہیم پاشا بھی تخلیق کرنا چاہتے ہیں۔ کیوں؟ اس کی وجہ بہت دلچسپ ہے۔میڈیا مالکان ماضی میں ڈراموں کے ذریعے سرمایہ کماتے رہے۔ یہ میرا سُلطان، عشق ممنوع اور معصومہ جیسے سیریلز کے ذریعے ارب پتی بن گئے، لیکن یہ دولت کمانے کے اس عمل کے دوران سیاسی لحاظ سے بے دانت اور بے ڈنگ ہو گئے۔ یہ پیسہ کماتے رہے اور حکومت مضبوط ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ طیب اردگان نے میڈیا مالکان پر بھی ہاتھ ڈالنا شروع کر دیا۔

ملک کے زیادہ تر میڈیا مالکان شروع میں طیب اردگان کے دوست تھے۔ یہ طیب اردگان کی جماعت کو سپورٹ بھی کرتے رہے۔ طیب اردگان اقتدار میں آئے ،تو یہ لوگ دونوں ہاتھوں سے سرمایہ سمیٹنے لگے۔ اردگان اس دوران معاشرے کی ریفارم میں مصروف رہے۔ یہ گیارہ برسوں میں انتہائی طاقتور ہو گئے، اور یہ اب اسی خبط کا شکار ہو گئے ہیں جس میں اسلامی دنیا کے زیادہ تر حکمران ہوتے ہیں ،اور اپنی اپنی ریاست دونوں کی مت مار لیتے ہیں۔ طیب اردگان انتہائی وژنری،محنتی اور شاندار انسان ہیں۔ یہ استنبول کے میئر کی حیثیت سے اٹھے، اور یورپ کے مرد بیمار کو دنیا کی 20 بڑی طاقتوں میں شامل کر دیا۔

یہ ترکی میں پرفارمنس، لاء اینڈ آرڈر اور معیشت کے "اتاترک" بھی ہیں۔ یہ ملک کو صفر سے نوے درجے تک لے آئے ،لیکن دنیا میں صرف پرفارم کرنا اتنا کمال نہیں ہوتا ،جتنا بڑا کمال پرفارم کرنے والی ٹیم بنانا ہوتا ہے، اور ہمارے مسلمان حکمران ٹیم بنانے میں ہمیشہ ناکام رہتے ہیں۔ یہ خود کو میرا سُلطان بنانے میں جت جاتے ہیں اور آخر میں یہ اور ان کا ملک دونوں تباہ ہو جاتے ہیں۔ طیب اردگان کے ساتھ بھی یہ ہو رہا ہے۔ یہ اب خود کو ناگزیر سمجھنے لگے ہیں۔ یہ تین بار ترکی کے وزیراعظم رہے اور یہ 28 اگست 2014ء کو صدر بن گئے۔

احمد داؤد اوغلو کو وزیراعظم بنا دیا گیا، یہ نام کے وزیراعظم ہیں۔ حکومت کے اصل تر اختیارات طیب اردگان کے پاس ہیں، اور طیب اردگان ترکی کے میرا سُلطان بن رہے ہیں۔ یہ اس وقت اسمبلی میں 327 نشستیں رکھتے ہیں، یہ اگلے الیکشن میں دوتہائی اکثریت حاصل کرنا چاہتے ہیں،یہ اگر کامیاب ہو گئے تو یہ آئین میں بنیادی تبدیلیاں کرکے ملک میں صدارتی طرز حکومت لے آئیں گے۔ یہ آل ان آل ہو جائیں گے۔ میڈیا اور کاروباری طبقہ طیب اردگان کو" میرا سُلطان" نہیں دیکھنا چاہتا چنانچہ میڈیا اور طیب اردگان کے درمیان کھچاؤ پیدا ہو چکا ہے۔ حکومت مضبوط اور میڈیا کمزور ہے، اس کی وجہ سیریل ہیں۔

ڈرامے نے میڈیا کو ارب پتی تو بنا دیا لیکن مالکان سیاسی اثر و رسوخ سے محروم ہو گئے۔ عوام ترکی میں خبریں اور سیاسی گفتگو کے بجائے، ڈرامے کی لت میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ مالکان اب یہ ٹرینڈ بدلنا چاہتے ہیں، لیکن یہ شاید اب ممکن نہ ہو۔ طیب اردگان میڈیا مالکان اور عوام کی کمزوری سے واقف ہیں، لہٰذا انھوں نے میڈیا پر ہاتھ ڈالنا شروع کر دیا۔ یہ اپنے کاروباری دوستوں کو لے کر آگے بڑھے، سرمایہ جمع کیا اور دوستوں نے میڈیا گروپ خریدنا شروع کر دیے۔ یہ لوگ اب تک ترکی کا ساٹھ فیصد میڈیا خرید چکے ہیں،باقی چالیس فیصد میں ملک کے دو بڑے میڈیا گروپ زمان اور ثمن یولو شامل ہیں۔ ثمن یولوگروپ 14 ٹیلی ویژن چینلز اور 6 ریڈیوز کا مالک ہے۔

یہ گروپ چھ زبانوں میں پروگرام نشر کرتا ہے۔ حکومت نے 63 دن قبل ،ثمن یولو کے سی ای او ہدایت کروچا کو گرفتار کر لیا۔ ان پر 2007ء میں نشر ہونے والے ایک ڈرامے کے دو ڈائیلاگ کو بنیاد بنا کر، مقدمہ درج کر دیا گیا۔ یہ اس وقت جیل میں ہیں۔ زمان میڈیا گروپ ہی،ترکی کا سب سے زیادہ چھپنے والا اخبار زمان اور انگریزی روزنامہ ڈیلی زمان شایع کرتا ہے۔ حکومت نے اس کے چیف ایڈیٹر کو بھی گرفتار کر لیا۔ تاہم 80 گھنٹے کی تفتیش کے بعد اسے چھوڑ دیا گیا ،لیکن یہ ملک سے باہر نہیں جا سکتا۔ ان دو گرفتاریوں نے ترکی کے میڈیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ ترکی میں اس دوران بینک ایشیا پر بھی حکومت کا قبضہ ہو گیا۔ یہ ترکی کا دوسرا بڑا بینک ہے۔

بینک کے شیئرز 175 کاروباری لوگوں کے پاس ہیں۔ ان شیئر ہولڈرز میں سے چند لوگ ملک کے تین بڑے میڈیا گروپس کے مالک بھی ہیں۔ یوں حکومت کے صرف ایک قدم سے میڈیا، بینکنگ انڈسٹری اور کاروباری خاندان تینوں گرم پانیوں میں جا گرے۔ ترکی کے میڈیا مالکان اب اپنے چینلز کو تیزی سے پاکستان جیسے نیوز چینلز میں تبدیل کر رہے ہیں۔ لیکن ترک مالکان لیٹ ہو چکے ہیں۔ کیونکہ عوام اب خبروں اور سیاسی پروگراموں کے بجائے ،حورم سُلطان میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ اب سیاسی پروگرام نہیں دیکھنا چاہتے۔ترک میڈیا اس وقت دباؤ میں ہے۔ حکومت، میڈیا مالکان اور ان کے کاروباری سپورٹرز میں جنگ چھڑ چکی ہے۔

مجھے استنبول میں گھومتے ہوئے جنگ کی شدت کا اندازہ ہوا۔ یہ جنگ طویل نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ سو سال بعد ایک اسلامی ملک ترقی یافتہ دنیا میں داخل ہوا۔ یہ ملک اگر برباد ہو گیا ،تو اس کا اثر پورے عالم اسلام پر ہو گا۔ ہم سب متاثر ہوں گے، چنانچہ اردگان اور ترک میڈیا دونوں کو وقت کی نزاکت کا احساس کرنا چاہیے۔ داعش ترکی کی سرحدوں پر کھڑی ہے۔ ترک حکومت کی ایک غلطی ،ترکی کو شام اور عراق بنا دے گی۔ اللہ نہ کرے ایسا ہو، کیونکہ اگر ایسا ہو گیا تو پورا عالم اسلام آگ اور خون میں نہا جائے گا، اور اس کے بعد کوئی سُلطان بچے گا؟کوئی میرا سُلطان اور نہ ہی کوئی تیرا سُلطان۔ پوری اسلامی دنیا برباد ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس برے وقت سے بچائے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.