Sunday, 29 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Mian Sahab Bhi Paanch Saal Pure Karain Ge

Mian Sahab Bhi Paanch Saal Pure Karain Ge

جنرل احمد شجاع پاشا آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی ہیں، یہ 2012ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد "یو اے ای" چلے گئے تھے، وہاں انھوں نے ملازمت اختیار کر لی، یہ پچھلے سال مارچ میں پاکستان آئے تو میری ایک ریستوران میں لنچ پر ان سے ملاقات ہوئی، یہ طویل ملاقات تھی جس میں انھوں نے ریمنڈ ڈیوس، ایبٹ آباد آپریشن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات پر بے شمار واقعات شیئر کیے، جنرل پاشا نے انکشاف کیا" صدر آصف علی زرداری مجھے اور جنرل کیانی کو جب بھی ملاقات کے لیے بلواتے تھے، ہم میٹنگ کے دوران خاموش رہتے تھے، یہ میری اور جنرل کیانی کی انڈرسٹینڈنگ تھی۔

ہم صدر کے سامنے منہ نہیں کھولیں گے، وہ بولتے رہیں، وہ جو چاہیں کہیں مگر ہم ناں کریں گے اور نہ ہی ہاں اور یہ تمام ملاقاتوں کے دوران ہوتا رہا، صدر بول بول کر تھک جاتے تھے لیکن ہم خاموش بیٹھے رہتے تھے یہاں تک کہ ملاقات ختم ہو جاتی تھی اور ہم سلام کر کے واپس آ جاتے تھے۔ جنرل پاشا نے انکشاف کیا "ایم کیو ایم دو بار پاکستان پیپلز پارٹی کے اتحاد سے نکلی، میں دونوں بار اسے منا کر واپس لایا" میں نے پوچھا "آپ کو یہ ٹاسک کس نے دیا تھا" جنرل پاشا کا جواب تھا " مجھے یہ ٹاسک صدر آصف علی زرداری نے دیا تھا" جنرل پاشا نے یہ انکشاف بھی کیا " 2011ء میں اکوڑہ خٹک میں مولانا سمیع الحق کے مدرسے پر طالبان نے قبضہ کر لیا تھا۔

مولانا کے ایک ملازم استاد کا حکیم اللہ محسود سے تعلق تھا، وہ گیارہ طالبان کو لے کر مدرسے میں آیا اور طالبان عمارت پر قابض ہوگئے، ہم نے مولانا سمیع الحق کی مدد کی، قابض استاد مارا گیا اور یوں مولانا سمیع الحق اپنے مدرسے میں داخل ہوئے" جنرل پاشا نے انکشاف کیا" ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا فیصلہ صدر آصف علی زرداری نے کیا تھا، وہ ریمنڈ ڈیوس کو جلد سے جلد چھوڑنا چاہتے تھے، ہماری میٹنگ میں صدر، وزیراعظم، وزیر داخلہ، آرمی چیف اور میں شامل تھا، یہ معاملہ رحمن ملک اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے تھے لیکن صدر نے انھیں جھاڑ پلا دی اور پھر جنرل کیانی اور مجھے کہا، آپ ہماری جان چھڑا دیں، میٹنگ میں فیصلہ ہوا، ہم لواحقین کو خون بہا دیں گے اور پھر ریمنڈ ڈیوس کو جہاز پر بٹھا دیں گے۔

وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اسی وقت خون بہا کی رقم ریلیز کر دی، ہم نے یہ رقم لواحقین میں تقسیم کر دی، یہ فیصلہ بھی ہوا وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ملک سے باہر چلے جائیں گے، وہ اس معاملے میں کوئی مداخلت نہیں کریں گے، یہ فیصلہ بھی ہوا صدر آصف علی زرداری پریس ریلیز میں ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کی ذمے داری اٹھائیں گے، جنرل پاشا نے انکشاف کیا " ہم اگر ریمنڈ ڈیوس کو رہا نہ کرتے تو وہ جیل میں مارا جاتا کیونکہ جیل میں اس کی نگرانی کرنے والے ملازمین نے وردی پر ختم نبوت کے بیج لگا رکھے تھے اور وہ لوگ کہتے تھے۔

یہ وردی اتر سکتی ہے لیکن یہ بیج نہیں اتر سکتے" جنرل پاشا نے انکشاف کیا"16 مارچ 2011ء کو ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے دن میاں شہباز شریف لندن چلے گئے جب کہ میاں نواز شریف پہلے سے لندن میں تھے، ہم نے امریکا کے سفیر کیمرون منٹر کو لاہور بھجوا دیا، وہ سارا دن ایس ایم ایس کے ذریعے ہمارے ساتھ رابطے میں رہے" جنرل پاشا نے انکشاف کیا" ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں چیف جسٹس نے بھی ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کیا، وہ اگر تعاون نہ کرتے تو ہم ریمنڈ ڈیوس کو رہا نہیں کرا سکتے تھے" جنرل پاشا نے بتایا " ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ جوں ہی مکمل ہوا۔

پنجاب حکومت نے یہ خبر لیک کر دی، پنجاب حکومت کا خیال تھا، یہ ایشو وفاقی حکومت کے گلے پڑ جائے گا لیکن پاکستان مسلم لیگ ن الٹا اس خبر کی زد میں آ گئی اور میڈیا نے انھیں رگیدنا شروع کر دیا، میں نے اگلے دن صدر آصف علی زرداری سے رابطہ کیا، ان کو وعدہ یاد کرایا اور عرض کیا، آپ اب حسب وعدہ پریس ریلیز جاری کر کے یہ ذمے داری اٹھالیں لیکن صدر نے قہقہہ لگا کر جواب دیا، جنرل صاحب یہ ایشو پنجاب حکومت کے کھاتے میں جا رہا ہے تو جانے دیں۔

ہمیں یہ گند اپنی جھولی میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے؟"۔ جنرل پاشا نے اس کے بعد میری طرف دیکھا اور کہا "آپ لوگ اس کے باوجود مجھ جیسے لوگوں کو طعنہ دیتے ہیں، ہم ملک کے منتخب نمایندوں کا احترام نہیں کرتے، کیا مجھے ان کا احترام کرنا چاہیے؟"۔ میں خاموش رہا۔ جنرل پاشا نے اس کے علاوہ بھی بے شمار انکشافات کیے لیکن میں نے ان سے وعدہ کیا تھا، میں یہ باتیں تحریر میں نہیں لاؤں گا چنانچہ سر دست میں آپ کو ان انکشافات میں شریک نہیں کر سکتا لیکن اگر وقت اور زندگی نے اجازت دی تو انشاء اللہ مستقبل میں یہ تمام باتیں بھی سامنے آئیں گی، ان باتوں کا ایک حصہ عمران خان سے متعلق بھی تھا۔

مجھے ان تمام انکشافات کے دوران جنرل پاشا کے ایک اعتراف نے زیادہ متاثر کیا، جنرل پاشا کا کہنا تھا "میں نے ایک دن جنرل کیانی سے کہا، سر ہمیں بہرحال یہ ماننا پڑے گا، ہم نے پیپلز پارٹی کے لوگوں کو کام نہیں کرنے دیا"جنرل پاشا نے جب یہ اعتراف کیا تو میں دیر تک ان کی طرف دیکھتا رہا کیونکہ یہ وہ حقیقت ہے جس سے آج ملک کے زیادہ تر سمجھ دار لوگ واقف ہو چکے ہیں لیکن میں اس کا ذمے دار جرنیلوں کو نہیں سمجھتا، میری نظر میں اس کے ذمے دار ہم عام لوگ ہیں، ہم لوگ غلام جینز کے مالک ہیں، آپ تاریخ پڑھیں آپ کو اس میں دو قسم کے لوگ ملیں گے۔

ایک، وہ لوگ جو درہ خیبر پار کر کے پنجاب کے میدانوں میں داخل ہوتے تھے، دلی پہنچتے تھے اور چند گھوڑوں اور چند تلواروں کے زور پر کروڑوں لوگوں کو غلام بنا لیتے تھے اور دوسرے وہ لوگ تھے جو ہزار سال تک ہر گھوڑے اور ہر تلوار کو اپنا آقا مانتے رہے، دوسری قسم کے لوگ اکثریت میں تھے، ہم صدیوں تک غلام رہے، صدیوں کی یہ غلامی ہمارے جینز کا حصہ بن گئی، ہم غلام ابن غلام ہیں، ہم کہنے کو 1947ء میں آزاد ہو گئے لیکن ہم آزاد ہونے کے باوجود ہر چند برس بعد ایک آقا، ایک آمر کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں، آپ جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک پاکستان میں آمریت کی تاریخ نکال کر دیکھ لیجیے۔

آپ کو ہم پاکستانی ہر آمر کے قدموں میں پھول رکھتے نظر آئیں گے، ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا ہم لوگ اپنی عزت نہیں کرتے چنانچہ ہم اپنے ووٹ، اپنی چوائس کے بھی خلاف ہیں، ہم لوگ جنھیں منتخب کرتے ہیں، ہم انھیں گالی ضرور دیتے ہیں، ہم اپنے محبوب آمروں کو بھی اس وقت تک برداشت کرتے ہیں جب تک وہ آمر رہتے ہیں، وہ جوں ہی ہمارے ووٹ کے لیے ہم سے رجوع کرتے ہیں، ہم انھیں بھی نکال پھینکتے ہیں، ہم پھر جمہوری لیڈروں کو واپس لاتے ہیں اور پھر چند ماہ بعد "قدم بڑھاؤ جرنیل، ہم تمہارے ساتھ ہیں، کے نعرے لگانے لگتے ہیں۔

ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا امریکا اور فوج اس ملک کی سب سے بڑی حقیقتیں ہیں، ہم امریکا اور فوج کے بغیر یہ ملک نہیں چلا سکتے، امریکا آج ہماری امداد بند کر دے، ہم لیٹ جائیں گے اور فوج آج سول حکومت کا ساتھ دینا چھوڑ دے، ہمارے لیڈر جنازے اٹھا اٹھا کر تھک جائیں گے، ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا، آپ فوج کو ناراض کر کے سسٹم نہیں چلا سکتے خواہ آپ کے پاس ایوان میں دوتہائی اکثریت ہی کیوں نہ ہو اور آپ کو یہ حقیقت بھی ماننا ہو گی آصف علی زرداری میں سیکڑوں ہزاروں خامیاں ہو سکتی ہیں، ان کے دور میں درجنوں خرابیاں بھی تھیں لیکن ان کو یہ کریڈٹ بہرحال دینا پڑے گا۔

انھوں نے ان انتہائی نامساعد حالات میں جب میڈیا بھی ان کے خلاف تھا، میاں نواز شریف بھی سیاہ ٹائی لگا کر ان کو غدار ثابت کرنے کے لیے سپریم کورٹ چلے جاتے تھے، جب جنرل کیانی اور جنرل پاشا بھی ان کے سامنے خاموش بیٹھے رہتے تھے، جب ان کی پارٹی بھی ملک کو لوٹ رہی تھی اورجب خاندان کے بے شمار ایشو بھی مینڈکوں کی طرح پھدک کر باہر نکلتے رہتے تھے، زرداری صاحب نے ان حالات میں نہ صرف پانچ سال پورے کیے بلکہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب اسپیکر نے دوسرے منتخب اسپیکر، ایک منتخب وزیراعظم نے دوسرے منتخب وزیراعظم اور ایک منتخب صدر نے دوسرے منتخب صدر کو اقتدار بھی منتقل کیا، آصف علی زرداری نے افہام و تفہیم کی اس سیاست میں اپنی پارٹی تک قربان کر دی، یہ وفاق سے سندھ اور سندھ سے لاڑکانہ کے لیڈر بن گئے لیکن یہ جمہوریت کو بچانے اور سسٹم کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہو گئے۔

میاں نواز شریف بھی دھرنے کے بعداب ان زمینی حقائق سے واقف ہو چکے ہیں، یہ بھی اب آصف علی زرداری بن چکے ہیں، آصف علی زرداری ثانی کیونکہ یہ بھی اب پانچ سال پورے کرنے کے ٹریک پر آگئے ہیں، آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ استعفے واپس لینے کے لیے عمران خان کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگاتے میاں نواز شریف کو دیکھ لیجیے، آپ ایم کیو ایم کی منتیں کرتے میاں نواز شریف کو بھی دیکھ لیجیے اور آپ مشاہد اللہ خان سے استعفیٰ لیتے میاں نواز شریف کو بھی دیکھ لیجیے، آپ کو اگر پھر بھی یقین نہ آئے تو آپ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی حلف برداری کی تقریب کی روداد نکال کر پڑھ لیجیے۔

وہاں صدر، وزیراعظم اور چیف جسٹس کی موجودگی میں جنرل راحیل شریف کے نعرے لگے اور نعرے لگانے والوں نے صدر کی پرواہ کی، وزیراعظم کی اور نہ ہی چیف جسٹس کی، آپ یہ دیکھئے اور اس کے بعد فیصلہ کیجیے کیا میاں نواز شریف نے بھی آصف علی زرداری کی طرح پانچ سال پورے کرنے کا فیصلہ نہیں کرلیا، جی ہاں! میاں صاحب بھی فیصلہ کر چکے ہیں اور یہ بھی زرداری صاحب کی طرح کامیاب ہو جائیں گے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.