Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Mujra

Mujra

ہم چائے پینے کے لیے کھوکھے پر رک گئے۔ یہ غریبانہ چائے خانہ تھا، آپ کو عموماً اس قسم کے چائے خانے سڑکوں کے کنارے، اندرون شہر کی گلیوں، محلوں، چوکوں، بازاروں، منڈیوں اور بسوں اور ٹرکوں کے اڈوں پر ملتے ہیں، یہ گندے اور بے ترتیب چائے خانے ہوتے ہیں لیکن ان کی چائے، ان کی دودھ پتی مثالی ہوتی ہے، لوگوں کو ان کی باقاعدہ لت لگ جاتی ہے، لوگ سارا سارا دن یہاں گزار دیتے ہیں، یہ نہ آئیں تو ان کے آرڈر آتے رہتے ہیں اور چائے خانے کا چھوٹا پورا دن انہیں چائے سپلائی کرتا رہتا ہے، میں نے جوانی میں ان چائے خانوں کی "کام یابی" پر خاصی ریسرچ کی تھی، مجھے اس کی چار وجوہات معلوم ہوئیں، پہلی وجہ ان کی پتیلی ہوتی ہے، یہ سارا دن پتیلی دھوتے نہیں ہیں، پتیلی میں ایک کے بعد دوسری، تیسری اور بیسویں چائے بنتی ہے۔

کثرت استعمال کی وجہ سے پتیلی کے پیندے اور دیواروں پر جلی ہوئی پتی کی تہہ جم جاتی ہے، یہ جلی ہوئی پتی ان کی چائے میں ایک خاص خوشبو، ایک خاص ذائقہ پیدا کر دیتی ہے، لوگ اس ذائقے، اس خوشبو کے عادی ہو جاتے ہیں اور یہ اس خوشبو، اس ذائقے کے تعاقب میں بار بار چائے پیتے رہتے ہیں، چائے بنانے والا اگر پتیلی بدل لے یا یہ غلطی سے دن میں پتیلی دھو لے تو گاہک فوراً اعتراض کرتے ہیں" چاچا چائے کا مزہ نہیں آیا، آج چائے کس نے بنائی تھی" دوسری وجہ چائے کی پتی ہے، یہ لوگ برینڈڈ چائے کی بجائے کھلی پتی استعمال کرتے ہیں، یہ پتی تیز ہوتی ہے، اس میں کفین کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے اور اس کا ذائقہ اور خوشبو بھی مختلف ہوتی ہے، لوگوں کو یہ خوشبو اور ذائقہ گھر کی پتی اور چائے میں نہیں ملتا چناں چہ یہ چائے خانوں کی چائے کی لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

تیسری وجہ دودھ اور چائے کے اوبال ہیں، یہ لوگ تازہ دودھ خریدتے ہیں، یہ دودھ سارا دن ہلکی آنچ پر گرم ہوتا رہتا ہے، دودھ پر بالائی کی موٹی تہ جم جاتی ہے، یہ لوگ بالائی کا چھوٹا سا چھلکا چائے کے کپ میں ڈال دیتے ہیں، ہلکی آنچ پر پکنے کی وجہ سے بالائی اور دودھ میں بھی ایک خاص ذائقہ آ جاتا ہے، یہ چائے کی پتی کو چھ سات اوبال دیتے ہیں اور ہر اوبال پر پونی (چائے چھاننے والی چھلنی) اور "پوے" (چائے انڈیلنے والا ہینڈ کپ) سے پتی کے پانی کو پتیلی سے باہر نکالتے ہیں اور دھار کی شکل میں دوبارہ پتیلی میں پھینکتے ہیں، اس عمل سے چائے کے پانی میں آکسیجن کا اضافہ ہو جاتا ہے اور یہ آکسیجن بھی اس میں ایک خاص ذائقہ پیدا کر دیتی ہے، ہم گھروں میں عموماً چائے کو دم دیتے ہیں جب کہ یہ لوگ دم دینے کی بجائے چائے کو پھینٹتے ہیں اور عمل کا یہ فرق بھی چائے میں فرق پیدا کر دیتا ہے اور آخری وجہ مصالحہ ہے، چائے بنانے والے لوگ چائے میں مصالحہ بھی ڈالتے ہیں۔

یہ مصالحہ ان کا خفیہ نسخہ ہوتا ہے، یہ لوگ چائے میں دار چینی، سونف اور بھنگ کا ایک آدھ پتہ ڈال دیتے ہیں، یہ بھنگ کے پتوں کو خشک کرکے پیس لیتے ہیں اور یہ سفوف چائے کی پتی میں ملا دیتے ہیں، اس مصالحے کی وجہ سے چائے میں ہلکا سا سرور آ جاتا ہے اور چائے پینے کے بعد گاہک کی تھکاوٹ اتر جاتی ہے، یہ ان کھوکھوں، ان چائے خانوں کے ٹریڈ سیکرٹ ہیں لیکن یہ ٹریڈ سیکرٹ ہمارا موضوع نہیں ہیں، ہمارا موضوع جی ٹی روڈ کا وہ کھوکھا ہے جس پر ہم لوگ چائے کے لیے رک گئے تھے۔

ہم چائے پینے کے لیے کھوکھے پر رک گئے، چائے خانہ گندا تھا، اندر دھول تھی، دھواں بھی تھا، گرمی بھی اور بو بھی لیکن ہم اس کے باوجود وہاں رک گئے، میں ایسے چائے خانوں کی چائے کا رسیا ہوں، مجھے سال چھ ماہ بعد جب بھی موقع ملتا ہے، میں ان چائے خانوں میں ضرور جاتا ہوں اور چائے کو انجوائے کرتا ہوں، ہم چار لوگ تھے، ہم نے چائے منگوائی اور بیٹھ کر انتظار کرنے لگے، گرمی اور حبس تھا، ہمیں پسینہ آ رہا تھا، میں نے ٹشو پیپر نکالنے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا، ٹشو پیپر نکالا اور چہرہ صاف کرنے لگا، ٹشو پیپر نکالتے ہوئے پچاس روپے کا ایک نوٹ میری جیب سے نکل کر فرش پر گر گیا۔

میں نوٹ کے کے نکلنے اور گرنے سے واقف نہیں تھا، یہ نوٹ اُڑ کر میرے پائوں کے قریب پہنچ گیا، میں نے نادانستگی میں نوٹ پر پائوں رکھ دیا، دور کونے میں درمیانی عمر کا ایک مزدور بیٹھا تھا، وہ تڑپ کر اپنی جگہ سے اٹھا، بھاگتا ہوں میرے پاس آیا، زمین پر بیٹھ کر میرا پائوں ہٹایا، نوٹ اٹھایا، نوٹ کو سینے پر رگڑ کر صاف کیا، نوٹ کو چوما، آنکھوں کے ساتھ لگایا اور دونوں ہاتھوں میں رکھ کر مجھے واپس کر دیا، ہم چاروں اس حرکت پر حیران بھی تھے اور پریشان بھی۔ ہماری جیبوں سے عموماً نوٹ کر جاتے ہیں، دیکھنے والے ان کی نشان دہی کرتے ہیں اور ہم نوٹ اٹھا کر دوبارہ جیب میں رکھ لیتے ہیں لیکن ہم نے زندگی میں کوئی ایسا پاگل نہیں دیکھا تھا جو فرش پر گرے ہوئے نوٹ کے لیے تڑپ کر اپنی جگہ سے اٹھا ہو، فرش پر بیٹھا ہو، اس نے نوٹ اٹھا کر اپنے سینے سے صاف کیا ہو، پچاس روپے کے معمولی سے نوٹ کو چوما ہو، آنکھوں سے لگایا ہو اور کسی مقدس ورق کی طرح دونوں ہاتھوں میں رکھ کر مالک کے حوالے کیا ہو، یہ یقینا حیرت کی بات تھی اور ہم چاروں اس وقت حیران تھے، میں نے اسے اپنے ساتھ بٹھا لیا۔

اس کے لیے بھی چائے کا آرڈر دیا اور اس سے اس تڑپ، اس عقیدت کی وجہ سے پوچھی، وہ مزدور تھا مگر وہ سدا کا مزدور نہیں تھا، وہ بیس سال قبل شہر کے رئیس لوگوں میں شمار ہوتا تھا، اس کا والد شہر کے چار بڑے تاجروں میں شامل تھا، یہ اس کی واحد نرینہ اولاد تھا، یہ نازونعم میں پلا تھا، گاڑی تھی، بینک بیلنس تھا، جوانی تھی اور ماں باپ کی اندھی محبت تھی، یہ چاروں چیزیں جہاں جمع ہوتی ہیں، وہاں بگاڑ ضرور پیدا ہوتا ہے، یہ بھی بگڑ گیا، اس کی صحبت خراب ہوگئی، یہ شراب، کباب اور شباب کی لت میں مبتلا ہوگیا تھا، اس کے بعد کیا ہوا، یہ آپ اس کی زبانی سنیے۔

"میں جوان تھا، امیر تھا اور ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا، مجھے برے لوگوں نے گھیر لیا، میری صحبت خراب ہوگئی، میرے والد کو معلوم ہوا تو انہوں نے مجھے سمجھانا شروع کیا مگر انسان کی زندگی میں جب جوانی، شراب اور دولت تین نشے جمع ہو جائیں تو اس کی عقل پر پردے پڑ جاتے ہیں، یہ سمجھنے، سمجھانے کی حد کراس کر جاتا ہے، میرے ساتھ بھی یہی ہوا، میں نے والد کی بات سننے اور ماننے سے انکار کر دیا، میری خرابی نے میرے والد کو روگ لگا دیا، وہ اس روگ میں چل بسے، مجھے ساری زمین، جائیداد اور بینک بیلنس مل گیا، میں والد کے انتقال پر اداس ہونے کی بجائے دولت ملنے پر خوش تھا، میں نے اپنی ماں اور بہنوں کو چھوٹے سے مکان میں شفٹ کیا، ان کا ماہانہ خرچ طے کیا اور والد کی حق حلال کی دولت کو انجوائے کرنے لگا۔

میں نے اپنے گھر کو رقص گاہ بنا لیا، میں اور میرے دوست روز طوائفوں کو گھر لاتے، ساری رات مجرا کراتے، شراب پیتے اور شراب کے نشے میں طوائفوں پر نوٹ نچھاور کرتے، ہم طوائفوں کو حکم دیتے تھے، ہم ان پر جو نوٹ نچھاور کریں گے، وہ یہ نوٹ صبح تک فرش سے نہیں اٹھائیں گی، وہ ان نوٹوں پر ناچتی رہیں گی، مجھے دراصل فرش پر نوٹوں کا قالین اور اس قالین پر ناچتے تھرکتے ہوئے گورے گلابی پائوں اچھے لگتے تھے چناں چہ میری محفل میں ساری رات نوٹ نچھاور ہوتے تھے اور طوائفیں ان نوٹوں پر ناچتی تھیں، یہ کام مہینوں جاری رہا، میری عادت، میری حالت سے پورا شہر واقف ہوگیا، میرے والد کے ایک دوست کو اطلاع ہوئی تو وہ ایک روز میرے پاس آیا، اس نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا، بیٹا تمہارے والد لوگوں سے کہا کرتے تھے۔

اللہ تعالیٰ جب کسی سے خوش ہوتا ہے تو یہ اسے دولت سے نوازتا ہے، پھر صحت دیتا ہے، پھر اولاد عنایت کرتا ہے اور آخر میں اچھے دوست دیتا ہے، تمہارے والد کہا کرتے تھے، دولت ایمان کے بعد اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہوتی ہے، لوگوں کی نسلیں اسی نعمت کی دعا کرتے کرتے قبرستان پہنچ جاتی ہیں، اللہ بہت کم لوگوں پر خوش حالی کے دروازے کھولتا ہے لیکن جب اللہ کے بندے نوٹوں کو پائوں میں روندتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے اور یہ دولت کی ناقدری کرنے والوں سے ایمان بھی چھین لیتا ہے، عقل بھی، صحت بھی اور اچھے دوست بھی۔ والد کے دوست کا کہنا تھا، تم نوٹوں کو طوائفوں کے قدموں میں نچھاور کرکے اللہ کی بڑی نعمت کی توہین کر رہے ہو، تم تباہ ہو جائو گے، تم سنبھل جائو لیکن میں اس وقت نشے کے گھوڑے پر سوار تھا۔

میں نے ان کو یہ کہہ کر روانہ کر دیا"آپ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں، آپ اپنے بچوں پر توجہ دیں، یہ روز لوگوں کے گریبان پھاڑتے ہیں"۔ وہ چلے گئے، میں نے اپنا معمول جاری رکھا، میں اور میرے دوست طوائفوں کے قدموں میں نوٹ نچھاور کرتے رہے، ایک دن اس غرور کا نتیجہ نکل آیا، میں نے نشے کے عالم میں گولی چلا دی، ایک طوائف ماری گئی، کیس بنا میں سزا سے بچ گیا لیکن میرا سب کچھ چلا گیا اور میں اب فیکٹری میں مزدوری کرتا ہوں"۔

وہ رک گیا اس نے لمبی سانس لی اور بولا "میں جب بھی کسی نوٹ کو کسی پائوں میں گرا ہوا دیکھتا ہوں تو میں تڑپ اٹھتا ہوں، میں نوٹ کو اٹھا کر صاف کرتا ہوں، ہونٹوں اور آنکھوں کے ساتھ لگاتا ہوں او رمالک کو واپس کر دیتا ہوں کیوں کہ میں سمجھتا ہوں دنیا کا جو بھی شخص نوٹ کو پائوں میں روندتا ہے یا روندتا ہوا دیکھ کر خاموش رہتا ہے وہ تباہ ہو کر رہ جاتاہے" اس نے ایک اور لمبی آہ کھینچی اور بولا" چودھری صاحب یہ بات پلے باندھ لیں مجرا کرانے والا کوئی شخص امیر نہیں رہ سکتا، یہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے کیوں کہ یہ اللہ کی نعمت کو گندی عورتوں کے قدموں میں روندتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات اپنی نعمت کی یہ تذلیل برداشت نہیں کرتی"۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.