Sunday, 29 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Ye Qadam Acha Hai

Ye Qadam Acha Hai

پی آئی اے نے 14 اگست کو لندن کے لیے پریمیئر سروس شروع کی، میں 14 اگست کو لندن گیا اور 16 اگست کو اسی سروس کے ذریعے واپس اسلام آباد آ گیا، یہ تجربہ اچھا رہا، مسافروں نے عرصے بعد قومی ائیر لائین کو بین الاقوامی سطح کی سروس بنتے دیکھا، ہیتھرو ائیرپورٹ پر سفارت خانے اور پی آئی اے کا اسٹاف مسافروں کے استقبال کے لیے موجود تھا، میں نے مبارکباد کے لیے اسٹیشن منیجر کو تلاش کیا، مجھے منیجر کا لب ولہجہ جانا پہچانا لگا، میں نے ان سے پوچھا " کیا ہم پہلے بھی ملے ہیں" انھوں نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا "ہم نہیں ملے لیکن آپ میری آواز سے مل چکے ہیں" پتہ چلا یہ سینیٹر مشاہد اللہ خان کے چھوٹے بھائی ساجد اللہ خان ہیں، وہی آواز، وہی لہجہ، وہی شعر فہمی اور وہی حس مزاح، میں ان کا گرویدہ ہوگیا۔

پریمیئر سروس کا آئیڈیا شجاعت عظیم کا تھا، یہ حقیقتاً کام کرنے والے انسان ہیں، شجاعت صاحب نے دو اڑھائی برسوں میں پاکستان کی سول ایوی ایشن، ائیر پورٹ سیکیورٹی فورس اور پی آئی اے کا حلیہ بدل دیا، آپ پرانے ائیر پورٹس یاد کریں اورآج کے دیکھیں، آپ کو زمین آسمان کا فرق محسوس ہوگا، آپ تین سال پرانی پی آئی اے کا مقابلہ آج کی پی آئی اے سے کر لیں، آپ کو پی آئی اے میں بہتری نظر آئے گی اور آپ 2013ء کی ائیرپورٹ سیکیورٹی فورس کا مقابلہ آج کی اے ایس ایف سے کر لیں آپ کو اس میں بھی فرق نظر آئے گا اور ہم مانیں یا نہ مانیں ان تبدیلیوں کا کریڈٹ بہرحال شجاعت عظیم کو جاتا ہے لیکن افسوس ہم نے انھیں کام نہیں کرنے دیا، ہم بہت دلچسپ قوم ہیں، ہم نے آج تک پی آئی اے کو خراب کرنے والے کسی شخص کا حساب نہیں کیا، جنرل پرویز مشرف نے دوبار آئین توڑ دیا، ان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے 60 ہزار پاکستانی شہید ہو گئے۔

فوج دہشت گردوں کا نشانہ بن گئی اور ہماری معیشت تباہ ہوگئی لیکن سزا دینا تو درکنار ہم انھیں باہر جانے سے بھی نہیں روک سکے جب کہ ہم نے پی آئی اے کی حالت بدلنے والے شجاعت عظیم کو عدالتوں کے کوریڈورز میں رول دیا، ہم نے انھیں عبرت کی نشانی بنا دیا، ہم کیسے لوگ ہیں، ہم کام کرنے والوں کو ناک رگڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں اور کام نہ کرنے والوں کو اعزازات سے نوازتے ہیں، یہ سلسلہ بھی اب بند ہونا چاہیے، میری وزیراعظم نواز شریف سے درخواست ہے آپ ملک میں ایک نیا قانون متعارف کرائیں، حکومت سزائیں بھگتنے والے تمام مجرموں کی سلیٹ پانچ سال بعد صاف کر دے، آپ برطانیہ سے لے کر امریکا تک دنیا کا مطالعہ کریں۔

آپ حیران رہ جائیں گے ان تمام ممالک میں سزا بھگتنے کے چند برس بعد مجرموں کی شیٹ صاف ہو جاتی ہے اور ریاست انھیں دوبارہ مکمل زندگی گزارنے کا موقع دیتی ہے لیکن ہم مرنے کے بعد بھی لوگوں کی فائلیں کھلی رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ انسانوں کو معاف کر دیتا ہے لیکن اللہ کے بندے اپنے جیسے بندوں کو معاف نہیں کرتے، کیوں؟ سپریم کورٹ کو شجاعت عظیم کے معاملے کا ازسر نو جائزہ لینا چاہیے، ایک شخص اگر تنخواہ اور مراعات کے بغیر ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہے تو ہمیں کیا اعتراض ہے، ہم راہ میں رکاوٹ کیوں بن رہے ہیں۔

میں پریمیئر سروس کی طرف واپس آتا ہوں، پاکستان نے سری لنکا سے 330 Aکے تین جہاز لیز پر لیے ہیں، لنکن ائیر لائین کے پاس 21 ائیر بسیں ہیں، یہ جہاز سری لنکا کی غلط سرمایہ کاری تھی، سری لنکا میں مسافر کم ہیں اور جہاز زیادہ چنانچہ ائیر لائین معاشی دباؤ میں آ گئی، پی آئی اے کو خبر ملی تو یہ ایکٹو ہوگئی، سری لنکا سال بھر کی گفت وشنید کے بعد اپنے جہاز لیز پر پی آئی اے کو دینے کے لیے رضا مند ہوگیا، یہ بہت اچھی ڈیل ہے، پاکستان کو جہاز چاہیے تھے لیکن نقد رقم نہیں تھی اور ادھار دینے کے لیے کوئی تیار نہیں تھا دوسری طرف سری لنکا کے لیے قسطیں نکالنا مشکل تھا چنانچہ دونوں نے مسئلے کا خوبصورت حل نکال لیا، پاکستان کو جہاز مل گئے اور سری لنکا قسطیں ادا کرنے کے قابل ہوگیا۔

جہازوں کے پائلٹس اور سینئر عملہ سری لنکن ہے جب کہ جونیئر کریو پاکستانی ہے، آپریشن اور مینٹیننس سری لنکا کے پاس رہے گی یوں یہ جہاز ہمارے انجینئروں اور آلات کے سپلائرز سے محفوظ رہیں گے، ہم لوگ باس برے اور ماتحت بہت اچھے ہوتے ہیں لہٰذا ہمارے لوگ لنکن عملے کی نگرانی میں بہتر کام کریں گے، سری لنکا میں میزبانی باقاعدہ انڈسٹری بن چکی ہے، آپ کو دنیا بھر میں سری لنکن خانساماں اور ویٹرز ملتے ہیں، یہ لوگ باقاعدہ ٹریننگ لے کر دنیا میں نکل رہے ہیں، پریمیئر سروس کا لنکن اسٹاف ہمارے لوگوں کو بھی میزبانی سکھائے گا، یہ مسافروں کو بھی ڈسپلن میں رکھے گا، لنکن پائلٹس کی وجہ سے پاکستانی پائلٹس کی بلیک میلنگ بھی کم ہو جائے گی، یہ اب اندھا دھند ہڑتالیں نہیں کر سکیں گے اور اگر ہڑتال ہو بھی گئی تو بھی پریمیئر سروس چلتی رہے گی یوں مسافر اور ائیر لائین دونوں نقصان سے بچ جائیں گی، ہمارے جہاز پرانے ہو چکے ہیں، ائیر بسیں ان کے مقابلے میں جدید ہیں، سہولتیں بھی زیادہ ہیں، یہ سہولتیں بھی پی آئی اے کو بہت آگے لے جائیں گی چنانچہ یہ ڈیل ہر لحاظ سے اچھا فیصلہ ہے۔

میں 14 اگست کو ائیر پورٹ پہنچا، سروس کا افتتاح وزیراعظم، وزیر خزانہ، مشاہداللہ خان اور شجاعت عظیم نے کیا، میں سروس کے ابتدائی مسافروں میں شامل تھا، وزیراعظم نے مجھے مسافروں کی قطار میں دیکھ کر پوچھا "آپ کہاں جا رہے ہیں" میں نے قہقہہ لگا کر جواب دیا "میں سروس کا جائزہ لینے جا رہا ہوں" وزیراعظم بھی ہنس پڑے۔ پی آئی اے نے پریمیئر سروس کے لیے ائیر ہوسٹس کی یونیفارم بھی تبدیل کر دی ہے، ہماری ائیر ہوسٹس 1960ء کی دہائی میں سفید شلوار پرسبز قمیض پہنتی تھیں، ان کے گلے میں اسکول یونیفارم کی طرح سفید ربن ہوتا تھا اور سر پر سبزرنگ کی نیوی کیپ ہوتی تھی، یہ یونیفارم دوبارہ متعارف کرا دیا گیا، ائیر ہوسٹس مہمانوں کے استقبال کے لیے یہ یونیفارم پہن لیتی ہیں اور جہاز میں سروس کے دوران بینگنی رنگ کی شلوار قمیض اور اسی رنگ کی کیپ استعمال کرتی ہیں، یہ یونیفارم پرانی وردی کے مقابلے میں خوبصورت، پریکٹیکل اور گریس فل ہے۔

کھانے کا معیار بھی اچھا تھا، جہاز بھی صاف ستھرا تھا اور ٹیک آف کے بعد اور لینڈنگ سے پہلے پورے جہاز میں پرفیوم کا چھڑکاؤ بھی کیا گیا تاہم مسافروں کا رویہ روایتی تھا، ایک مسافر نے جہاز میں داخل ہوتے ہی دروازے کے قریب قے کر دی، باقی مسافر قے کے اوپر سے گزرتے رہے اور یوں یہ گندگی چند لمحوں میں پورے جہاز میں پھیل گئی، ٹوائلٹس بھی آدھ گھنٹے میں"چوک" ہو گئے، بچوں کے رونے کی آوازیں ساڑھے سات گھنٹے تک مسلسل آتی رہیں، درمیانی عمر کے ایک صاحب ہر گھنٹے بعد ٹوائلٹ آتے اور پورا جہاز ان کے ناک اور گلا صاف کرنے کی آوازیں سنتا، لوگوں نے آوازوں سے "متاثر" ہو کر کھانا پینا چھوڑ دیا، لنکن عملہ بھی خاصا پریشان تھا۔

میرا خیال ہے پی آئی اے کو "پیٹی کسنے اور پیٹی کھولنے" کی اناؤنسمنٹ میں واش روم کے استعمال کوبھی شامل کر دینا چاہیے، یہ ممکن نہ ہوتو ادارہ ٹوائلٹس میں"ایل سی ڈی" لگوا دے اور اس "ایل سی ڈی" پر واش روم کے طریقہ استعمال، عملے کے ساتھ برتاؤ اور مسافروں کے ساتھ رویئے کے بارے میں فلم چلتی رہے، یہ فلم پاکستانی مسافروں کی تربیت میں اہم کردار ادا کرے گی، میں نے مسافروں کو ائیر ہوسٹسز کے ساتھ بدتمیزی کرتے بھی دیکھا، یہ زیادتی ہے، یہ بے چاری مسلسل آٹھ گھنٹے مسافروں کی خدمت کرتی ہیں، یہ اتنی خدمت کے بعد شکریہ کی مستحق ہوتی ہیں لیکن ہم شکریہ ادا کرنے کے بجائے ان کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کرتے ہیں، یہ رویہ بھی بدلنا چاہیے۔

میں طویل عرصے سے مسافر ہوں، میں نے ان مسافتوں کے درمیان سعودی عرب اور لندن کے روٹس کو بہت مشکل پایا، لوگ احرام باندھ کر دوسروں کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں، لندن جانے والے مسافر انگریزی بولتے ہیں لیکن رویئے اجڈ دیہاتیوں سے بدتر ہوتے ہیں، کیوں؟ میں آج تک وجہ نہیں جان سکا جب کہ کینیڈا اور امریکا کی فلائیٹس بہت اچھی ہوتی ہیں لیکن بہرحال پریمیئر سروس اچھی شروعات ہے، ہمیں پہلا جہاز مل گیا، باقی بھی جلد مل جائیں گے، یہ جہاز پی آئی اے میں نیا خون ثابت ہوں گے، ہمیں ماننا ہوگا ہم اداروں کو مکمل طور پر تبدیل نہیں کر سکتے لہٰذا ہمیں انتقال کرتے اداروں کے درمیان پریمیئرسروس جیسے زندگی کے چھوٹے چھوٹے جزیرے بنانے چاہئیں، یہ جزیرے آہستہ آہستہ اداروں کو تبدیل کر دیں گے، یہ پریمیئر سروس سردست صرف برطانیہ تک محدود رہے گی، برطانیہ میں ہر ہفتے 22 فلائیٹس جاتی ہیں، ہم اگر یہ روٹ ٹھیک کر لیتے ہیں تو آہستہ آہستہ دوسرے روٹس بھی ٹھیک ہو جائیں گے اور یوں چند برسوں میں پی آئی اے کے مردہ جسم میں نئی روح آ جائے گی، یہاں سے تبدیلی کا عمل شروع ہو جائے گا۔

میں وزیراعظم اور پی آئی اے دونوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.