سمے کے اس وشال اورگوناگوں حقیقت پر ہم کچھ کم ہی سوچ پاتے ہیں اور پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ جب اس کی حقیقت کو سمجھ پاتے ہیں، تب بہت کم ہی وقت رہ جاتا ہے۔ یہ ماجرہ دوستو فسکی نے " اڈیٹ " ناول کے کردار " پرنس میئشکن" سے اپنی سچی آپ بیتی کو رقم کرتے ہوئے لکھا ہے۔
کس طرح زار بادشاہ نے اس کے موت کا پروانہ لکھا تھا اور پھر فائرنگ اسکواڈ کے سامنے آنکھوں پر پٹی باندھ کرکھڑا کردیا گیا تھا۔ چند اور بھی تھے دوستو وسکی کے ساتھ جن پر بھی یہی حکم نامہ صادرکیا گیا تھا اور پھرکتنا کم وقت تھا اس کے پاس، وہ سوچنا چاہتا تھا تمام خوبصورت لمحے جو اس کی یادوں میں تھے وہ تمام باتیں، اس کا بچپن، آنگن، وہ ریگزار، وہ گلیاں، اس کے دوست۔ صرف چند سیکنڈ باقی بچے تھے کہ دور سے ایک شہسوار سفید جھنڈا لہراتا ہوا ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ فائرنگ اسکواڈ رک گئی اور اس شہہ سوار نے یہ نوید دی کہ زارکو بیٹا ہوا ہے۔
اس لیے ان کو ابھی موت کی آغوش میں نہیں سلوایا جائے گا اور ان کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کیا جاتا ہے اور یوں دوستو وسکی نے زندگی کو بہت قریب سے پایا تھا۔ وہ اپنے ہاتھ چومنے لگا جب پٹی اس کے آنکھوں سے اتار دی گئی۔ جب اس کے ہاتھ کھول دیے گئے۔
ایسے کئی لوگ ہوں گے جنہوں نے زندگی کو ہارتے دیکھا ہوگا یا ہارتے ہارتے اسے پایا ہوگا جو وہ رقم نہیں کر پاتے۔ ہم سب انھیں گم نام داستانوں کی مانند ہیں جو خود اسی عمل سے گذریں گے۔ کوئی بڑی بات نہیں کہ یہ ہم سب پرگذرتی ہے۔ فرق اتنا ہے کہ ہم "سب " نہیں ہم فرد ہیں، واحد ہیں، اور پھر یہاں سے شروع ہوتی ہے وہ ترتیب جو ہمیں تنہا بھی کرتی ہے اور انفرادی بھی۔
تین سو پنسٹھ دنوں کا یہ سال۔ ایک ہی رنگ کے یہ دو لمحے ہیں۔ ایک میں سورج طلوع ہوتا ہے اور دوسرے میں غروب۔ زندگی زندگی کو جنم دیتی ہے وقت کی مانند وقت ہی آج 2019 کی کوکھ سے 2020 بن کرنکلے گا۔ یہ سب انسانوں کے بنائے ہوئے زاویے ہیں۔ کائنات کے گھنٹہ گھر میں نہ دن ہے نہ کوئی رات، نہ ماہ وصال ہیں نہ صدیاں ہیں۔ ہجر وصال کے پیمانے سب اپنے ہیں۔ تبھی تو صوفیوں سادھووٌں کو انسان کا ہونا مکاں اور نہ ہونا لامکاں نظر آیا تھا۔
تب ہی تو رومی کو وہ کوزہ گر نظر آیا تھا، کوزے کی مٹی بھی اور کوزے کا خریدار بھی پھر وہی تھا جس نے کوزہ توڑ دیا اور چل دیا۔ وہ آتا تھا کئی روپ سادھ کر اور پھر چلا جاتا تھا۔ جتنے دن ورات 2019 میں تھے، اتنے ہی دن و رات 2020 میں بھی ہوں گے یہ سال نہ ہو جیسے کوزہ ہو اور ہم کوزے کے خریدار اور ہم ہی ہیں اس کوزے کو توڑنے والے بھی۔ سچ تو یہ ہے کہ کوزے کا مقدر ہی ٹوٹناہے۔ ہر اک شے میں کوزے کی کہانی ہے آنا اور جانا ہے، اور بس دھوپ کنارہ ہے۔
بہت پڑھا فیض کو، راتیں بتائیں، مگر اس کی یہ نظم جیسے میرا عکس بن گئی اور میں اس کے گرد رقص کرتا رہا۔
یہ دھوپ کنارہ شام ڈھلے
ملتے ہیں دونوں وقت جہاں
جو رات نہ دن جو آج نہ کل
پل بھر کر امر پل بھر دھواں
میرے والد کمیونسٹ نہیں تھے مگر ساری زندگی بائیں بازو کی سیاست کو سونپ دی۔ جوانی کے سال علامہ مشرقی کے ساتھ خاکسار تحریک میں بتائے، پاکستان بنایا، نواب شاہ مسلم لیگ ضلع صدر اور سندھ کمیٹی کے رکن رہے اور زندگی کے باقی سال دہقانوں کی تحریک، شہید سہروردی کی عوامی لیگ کے سرگرم رکن رہے او ر پھر ڈھاکا میں نیشنل عوامی پارٹی کی بنیادیں ڈالیں اور پھر واپس عوامی لیگ تا وقت جب وہ ہم سے جدا ہوئے۔ کون نہ آیا ہمارے گھر فیض احمد فیض دو بار آئے ہمارے پاس ٹھہرے۔ نواب شاہ کی تاریخ میں اتنا توکوئی سیاسی گھرانہ، نہ رہا ہوگا جیسا کہ ہمارا۔ سب جیسے پل بھرکو امر پل بھر میں دہواں ہوگیا۔ سب جیسے پل دو پل تھے۔ جب تین سو پنسٹھ دنوں کا یہ سال بلآخر اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔
میں دنیا کے سب دھندوں سے اپنے آپ کو الگ کر دیتا ہوں۔ دوستو وسکی کے پرنس میکشن کی طرح جانا چاہتا ہوں ان تمام یادوں میں، ان باتوں میں۔ اور انھی یادوں کی پگڈنڈیوں سے لوٹ جاتا ہوں اپنے آنگن، ان گلیوں اور چوباروں میں، کھیتوں وکھلیانوں میں۔ وہ تتلیاں جن کو پکڑنے کی آرزو رہتی تھی جن کے پروں کے رنگ میری انگلیوں میں رہ جاتے تھے۔ میرے گاؤں کی ایک حویلی تھی۔ کتنے ہم بچے تھے اور وہ جھیل جہاں ڈھیر سارے سائیبریا سے پرندے آکے بسیرا کرتے تھے۔ لکڑیوں سے آ گ جلاتے تھے، راتیں کتنی طویل ہوتی تھیں اور دن کتنے چھوٹے۔
ہماری ہر بات میں، یاد میں، سوچ میں وقت کا ڈیرہ ہے۔ ہم خود وقت ہیں، دل کی دھڑکن کسی گھڑی کی ٹک ٹک طرح دھڑکتی ہے۔ یہ ہم ہیں جو ایک دوسرے کو غلامیاں دیتے ہیں۔ اس وقت میں کسی کو مٹھی بھر تو کسی کو بہت سارا۔ مگر جب غالب نے اس پیمانے سے وقت کو دیکھا تو اسے "خاک میں کیا صورتیں ہوں گی" نظر آئیں۔
زندگی کی اس مسافت میں یہ وقت ہے جو حقیقت ہے اور اس حقیقت میں بھی سب کچھ پگھلتی برف کی مانند ہے، جس طرح 2019 کے سال کے ساتھ ہوا ہے۔ جس طرح جنرل مشرف بستر مرگ پر ہے اور بے نظیر خوشبوکی طرح مہک رہی ہے کہ "سب کہاں کچھ لال وگل میں نمایاں ہوگئیں۔"
عجیب تھا یہ 2019، جاتے جاتے ایسے رازکھول دیے کہ مجھ کو یقین ہوچلا ہے کہ 2020 کو جوکچھ منتقل ہوا ہے، اس میں ایک جمہوری تسلسل ہے، کل جوکورٹ نظریہ ضرورت دیتی تھی اب نہیں دے سکتی کل جوآرٹیکل 58(2)(b) کے پیچھے کھڑے ہوتے تھے اب نہیں ہوسکتے۔ یہ سب فیصلے 2020 میں نہ صحیح مگر مسافتوں کے اس سفر میں ہم ایک اور دریا پارکرچکے ہوں گے۔
پیرا 66 جو اس ملک کی سیاسی حقیقت میں کچھ اس طرح سے گھل مل گیا ہے کہ جیسے اس سے بڑی کوئی حقیقت نہ ہو۔ جو پیرا ججمنٹ کا حصہ بھی نہیں اور اس پر عمل بھی نہیں ہو سکتا۔ مگر علامت سی بن گیا۔ ایک ایسی علامت کہ جس کی آغوش سے جنم لیتی ہے نظریہ ضرورت کی ہجرت۔ پیرا 66 اس 2019 کا climax تھا۔ ایک قلم تھا جو بہہ گیا، رقم ہوا اور ایک جمہوریت تھی، جو زندہ ہوئی۔ ایک کڑی تھی جو ٹوٹ گئی، فیض کی ان سطروں کی مانند، " بول کے لب آزاد ہیں تیرے، بول کے جان اب تک تیری ہے"
ہمیں جو زندگی کردار دیتی ہے، ہم ان کے ہی ہوکر رہ جاتے ہیں۔ کچھ تاریخ میں قید ہو جاتے ہیں اور کچھ ردی کی ٹوکری میں چلے جاتے ہیں۔ جب آج کی شام اس سال کا آخری سورج سمندرکے اس پار پڑے گا، اس لمحے کو اپنی آنکھوں میں سمو دینا ہے۔
ہر سال اس سور ج کو میں الوداع کہتا آیا ہوں کبھی لب مہران پر، جامشوروکی اس پل پر جہاں میرے روحانی دادا علامہ آئی آئی قاضی نے "سوہنی کی طرح " اپنا وجود دریا کو دے دیا تھا۔ میں نے یہ سورج ننگرپار کر پر روپلو کولھی کے دار کی اس خشک ٹہنی کے نام کیا تھا جہاں انگریز سامراج نے 1857 کی بغاوت میں حصہ لینے پر پھانسی چڑھایا تھا۔
اور پھرکچھ دن پہلے یہ سورج میں نے رنی کوٹ کے پہاڑوں سے اپنی آنکھوں میں سمو دیا تھا۔ 500 قبل مسیح یہ میلوں پھیلی دیوارکس نے بنائی تھی اورکیوں بنائی تھی سب پر خاموشی ہے اور وقت اپنے ایک مخصوص انداز میں رواں ہے۔ یہ لمحہ ہے اس کو ارپنے کا، اس سے گھل مل جانے کا۔ نئے ارادوں اور عہد کا، یہ دیس ہمارا ہے، اس کے مستقبل میں رہتی ہیں میرے آیندہ کی نسلیں، اس کی تاریخ میں تھے میرے اجداد۔ اور اس دیس کی فقط ایک ہی منزل ہے وہ منزل جو اس کے آئین میں تحریر ہے۔
الوداع 2019…