اسٹیڈیم وہ ہی ہے جہاں کرکٹ ہوتی ہے مگر سیاست کے اجتماع الگ نوعیت کے ہوتے ہیں چاہے وہ پھر اسٹیڈیم میں ہوں، گلی کوچوں میں ہوں یا پھر چوکوں اور چوراہوں پر۔
جناب آپ نے اسٹیڈیم لاک کیے تو لوگوں کے اس ریلے نے اپنے راستے خود ہی متعین کر لیے۔ بجلی بند کی، راستے بند کیے، فون بند کیے اور تمام ذرایع بھی منقطع کیے مگر اس اجتماع پر ذرا برابر بھی اثر نہ ہوا۔ کورونا کا بہانہ بس اک بہانہ بنا اور مولانا صاحب جا پہنچے گھنٹہ گھر۔ تقریرسوشل میڈیا کے ذریعے، ہر موبائل کی اسکرین پر یوٹیوب کی ونڈوکھلی ہوئی تھی، یہ اسکرین چھوٹی سہی مگر اس کو دیکھنے والی آنکھیں دیکھتی رہیں۔
خان صاحب کرکٹ کے میدان سے باہر نہ آ سکے، وہ سمجھتے رہے کہ وہ بولر ہیں اور فیلڈنگ کو بال کے مطابق ہونا چاہیے تو آپ بولر بھی فاسٹ ہیں اور فیلڈنگ بھی آپ نے جو ترتیب دی وہ اسپن بولر والی تھی پھر تو چوکے اور چھکے ہی لگنے تھے۔
وہ جلسے اتنے اہم نہ ہو پاتے اگر آپ نے اتنی رکاوٹیں نہ ڈالی ہوتیں۔ آپ نے بھی جلسے کیے مگر آپ کے جلسوں میں تو رکاوٹیں نہیں ڈالی گئیں اگر رکاوٹیں ڈالی جاتیں تو وہ ان کی نہیں آپ کی جیت ہوتی۔ آپ نے تو رکاوٹیں ڈالنے میں حد ہی کر دی۔ ٹی وی شوز پر اپنے اینکرز بٹھا کر جس طرح بال کی ٹیمپرنگ کی جاتی ہے وہ ہی کیا آپ نے۔ مگر بیٹنگ سیاست کے میدان میں ہوتی رہی، کیونکہ یہ ملک میں بادشاہت نہیں ورنہ آمریت یہاں دس سال نہیں بلکہ تیس سال تک چلتی رہتی۔ ہاں یہ بات اور ہے کہ ہم آمریت ہیں اور نہ ہی جمہوریت۔ یہ جوکچھ آج اس ملک میں ہو رہا ہے، یہ اسی بات کا نتیجہ ہے، اگر اس حکومت سے غلطیاں نہ ہوتیں اورمہنگائی جو آج ہے اس طرح نہ ہوتی تو شاید ملتان کے جلسے کے بعد آج یہ منظر نہ ہوتا۔
ملتان کے اس جلسے سے پہلے اپوزیشن کے سامنے ایک بندگلی تھی۔ کورونا کا بیانیہ اور بلاول بھٹوکا کورونا میں مبتلا ہونا۔ پشاور اورکوئٹہ کے جلسے کراچی اور گوجرانوالہ نہ بن سکے۔ کراچی جلسہ کے بعد بھی آپ نے ایک انوکھا کارنامہ سر انجام دے کر اپوزیشن کے سر پر سہرا سجایا۔ ایف آئی آر کٹوائی، آئی جی کا معاملہ وغیرہ وغیرہ۔
یوں لگتا ہے جیسے وہ جو سوال تھا "ہنوز دلی دور است؟ " ملتان کے بعد اس کا جواب نظر میں ہے۔ لاہور کے بعد یہ حقیقت اور بھی واضح ہو جائے گی، آپ اگر ان کے جلسے روکیں گے تو آپ کی شکست ہے اور اگر نہیں روکتے تو آپ کے لیے مسائل۔
اس وقت اپوزیشن کے پاس دو پتے کھیلنے کے لیے بالکل تیار ہیں۔ ایک ہے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور دوسرا اسمبلیوں سے استعفٰی۔ اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان رابطے بھی یقیناً ہورہے ہوں گے، شاید خان صاحب کو ہی خبر نہیں۔ یہ تاثر کم ازکم آپ کی گلگت میں ہوئی تقریر سے تو آتا ہے کہ جس طرح خان صاحب زرداری صاحب کو بد دعائیں دے رہے تھے۔ یہ بھی سن گن ہے کہ کہیں یہ بھی سوچا جارہا ہے کہ کس طرح ان ہائوس تبدیلی لائی جائے مگر اب یہ بھی سنا ہے کہ شہباز شریف تو راضی ہیں مگر لندن سے اوکے نہیں ہوا، یہ بات اب آگے نکل پڑی ہے اور اب یہ کہیں ٹھہری تو نئے انتخابات پر جاکے ٹھہرے گی۔
جب ایم آر ڈی کی تحریک شروع ہوئی تھی تو اس وقت جنرل ضیاء غیر جماعتی انتخابات کرانے پر آمادہ ہو گئے تھے۔ جب پی این اے نے بھٹو صاحب کے خلاف تحریک چلائی تھی تو آمریت کے لیے نئے راستے بنے مگر پی ڈی ایم کی تحریک سے یقینا آمریت کے لیے کوئی دروازے نہیں کھل رہے، اگر کھلے بھی تو جو آج یہ حکومت وہ کیا ہے؟ یہ حکومت اپنی نوعیت میں آمریت تو نہیں مگر جمہوری حکومتوں کا تسلسل بھی نہیں۔ اس کی کڑی کم ازکم آمریتوں کی تاریخ و تسلسل سے ضرور جڑتی ہے۔ سب کچھ بکھر گیا، ان تین سالوں میں۔ پچھلے دس سالوں کی روایتیں اب نہ رہیں۔
غالباً ابھی ریگن ہی امریکا کے صدر تھے جب روس اپنی فوجیں افغانستان سے واپس لے گیا، ایک بری شکست کے بعد۔ جنرل ضیاء الحق کی اور اس کی ٹیم کی اہمیت نہ رہی۔ کونڈولیزا رائس کے زمانے میں امریکا ہی این آر او لایا کہ جمہوریت پھلے پھولے کیونکہ آمریت بالواسطہ یا براہِ راست انتہا پرستی کو جنم دیتی ہے تو یوں کہیے کہ جب امریکا میں ریپبلیکنز آئے تو پاکستان میں آمریت رہی اور جب امریکا میں ڈیموکریٹس آئے تو پاکستان میں جمہوریت کی راہیں استوار ہوئیں۔
اسرائیل کے صدر نتن یاہوکی حکومت بھی کھٹائی میں پڑ گئی، جب امریکا سے ٹرمپ صاحب رخصت ہوئے، اسمبلی تحلیل ہوئی اور اب نئے انتخابات۔ سوڈان کی جس حکومت نے اسرائیل کو قبول کیا تھا وہ خود ایک عبوری حکومت ہے۔ ہاں البتہ بائیڈن، ٹرمپ کی اس پالیسی کو آگے لے کر چل سکتے ہیں اور جو حکمت عملی ٹرمپ نے افغانستان کے حوالے سے اپنائی تھی اس کو بھی۔ قرضوں میں ڈوبا ہوا پاکستان اب اپنی آزاد خارجہ پالیسی بھی ترتیب نہیں دے سکتا۔ ٹرمپ انتظامیہ جن کے ساتھ خان صاحب کی حکومت بڑے اچھے تعلقات استوار کر چلی تھی، وہ بھی اپنی تشریح میں رائٹ ونگ پاپولسٹ تھے۔ خان صاحب کی باتیں اور فسانے اب قصہ پارینہ نظر آتے ہیں اب کہ ہنوز دلی دوراست نہیں۔
یہ خوش آیند بات ہے کہ چینی کی قیمت کچھ کم ہوئی ہے۔ ایکسپورٹ بھی بڑھ رہی ہے، زرِمبادلہ کے ذخائر بھی اور ادائیگیوں کا توازن بھی مگر معیشت کے اعتبار سے ہنوز دلی دور است ہے۔ افراطِ زر مزید بڑھے گا، قرضوں کا بوجھ بھی بڑھے گا، محصولات مزید کم ہوں گے اور سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ شرح نمو کے بڑھنے کے لیے ہمارے حالات بہتر نہیں۔ سکینڈل بعد ایک سکینڈل ہے۔ گندم سستی مل رہی ہے مگر مہنگی انھوں نے خود کی ہے۔ ایل این جی گیس کی قیمت بھی اسی طرح سے ہی بڑھی ہے۔
انا پرستی اتنی تھی کہ آپ کے رویے نے اپوزیشن کو یکجا کر دیا و گرنہ زرداری صاحب نے تو نواز شریف کے جانے کو بہتر جانا تھا۔ انھوں نے بلوچستان میں ثناء اللہ زہری کی حکومت کو گرانے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھاا اور سینیٹ چیئرمین کے انتخابات میں بھی۔ آپ نے ایک ہی وقت میں سب کے ساتھ سیاسی نامے کھول دیے تو پھر سب نے یہی کرنا تھا۔ سب کو ایک ہی پیج پر آنا تھا۔ آپ کی خود ساختہ مہنگائی نے اس ملک کی غریب عوام کا برا حال کر دیا۔ کون بچا ہے آپ کے عتاب سے صحافی ہوں یا وکلاء یا پھر ایک عام آدمی۔
کرکٹ اور سیاست میں بہت فرق ہے۔ اپنی تقاریر میں خان صاحب نے لوگوں کو سبز باغ دکھائے، جو وعدے کیے وہ سب پورے بھی کرنے تھے مگر وہ کر نہیں پائے۔ وہ تمام باتیں ان خالی برتنوں کی طرح رہ گئیں جو بجتے تھے مگر بھرتے نہ تھے۔ بھوک و افلاس، فاقہ کشی، بیروزگاری اس ملک کے 80% لوگوں کا مقدر بن چکی ہے اور اوپر سے کورونا۔
اب اسلام آباد کی طرف بڑھنا اور پھر آخری کارڈ حزبِ اختلاف کے پاس ہے اسمبلیوں سے استعفیٰ۔ ملتان جلسے کے بعد کچھ ایسا نظر آ رہا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے مگر اس کی واضح شکل لاہور کے جلسے کے بعد ہی نظر آئے گی اور ہنوز دلی دور است؟ کا جواب بھی واضح طور پر ملے گا۔