Friday, 22 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Aal e Youth Qoum Ke Jazbaat Se Na Khelay

Aal e Youth Qoum Ke Jazbaat Se Na Khelay

برطانوی مورخ سٹینلے کا کہا ہوا تاریخ کا حصہ ہے کہ کچھ شخصیات ہوتی ہیں، جو تاریخ کا دھارا بدل دیتی ہیں، بہت کم ایسے ہیں جنہوں نے کسی ریاست کا جغرافیہ تبدیل بدلا ہو، قریباً وہ نایاب ہیں، جنہوں نے نیا ملک تخلیق کیا ہو، مگر یہ سعادت بانی پاکستان کے حصہ میں آئی کہ انھوں نے تینوں کارنامہ ہائے انجام دیئے، برطانیہ ہی سے کنزرویٹو ممبرجان ڈاوسن نے لکھا، گاندھی کے بغیر بھی ہندوستان کو آزادی مل جاتی، لینن اور ماوزے تنگ کے بغیر بھی روس اور چین میں کیمونسٹ انقلاب آ جاتا مگر قائداعظمؒ کے بغیر1947 میں پاکستان نہیں بن سکتا تھا۔

لکشمی پنڈت نے کہا کہ مسلم لیگ کے پاس ایک سو گاندھی اور دوسو ابوالکلام آزاد ہوتے اور کانگریس کے پاس ایک جناحؒ ہوتا تو ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا، بانی پاکستان نے اپنی سیاسی زندگی کا آغازامپیریل قانون ساز کونسل میں منتخب ممبر کی حیثیت سے کیا، بمبئی کے مسلمانوں نے اپنا نمائندہ بنا کر مجلس قانون ساز میں بھیجا، یہ انتخاب 4 جنوری 1910 کو عمل میں آیا، اس مجلس میں مسٹر جناحؒ نے ایک فعال رکن اور متاثر کن مقرر کا کردار ادا کیا، جناحؒ کی پہلی گفتگو وائسرائے ہند کے ساتھ جھڑپ سے شروع ہوئی، کونسل کے دوسرے اجلاس میں جنوبی افریقہ کے ہندوستانیوں سے متعلق کہا کہ ان کے ساتھ ظالمانہ سلوک ہو رہا ہے، لارڈ منٹو نے الفاظ پر برہمی کا اظہار کیا، مسٹر جناحؒ نے برجستہ کہا، د ل چاہتا ہے کہ اس سے زیادہ سخت الفاظ استعمال کروں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی غیرسرکاری منتخب شدہ رکن نے جرأت مندانہ موقف اپنایا، اخبارات نے جلی حروف میں انکی تعریف کی، جناحؒ نے ہمیشہ اپنے ضمیر کے مطابق گفتگو کی، خوشامند سے اجتناب کیا۔

اپنی 42 سالہ سیاسی جدوجہد میں سنہری کارنامہ انجام دیا جس کا تصور بھی محال، ایسے لوگ تاریخ میں اپنے کردار کی وجہ سے مرنے کے بعد بھی قوم کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں، ان میں سے ایک نام بانی پاکستان قائد اعظم کا بھی ہے، وہ اعلیٰ درجہ کے سیاستدان، عظیم پارلیمنٹرین، آئین پسند، متحرک مسلم راہنما بااصول شخصیت تھے۔

1946 کے انتخابات سندھ میں جی ایم سید مسلم لیگ کی مخالفت میں ڈٹے ہوئے تھے، چند صوبائی لیڈر حاضر ہوئے اور مسلم لیگ کے فنڈ سے ایک مخصوص رقم مانگی وہ سیاسی خرید و فروخت کرکے جی ایم سید کو ہرانا چاہتے تھے، قائد اعظم کا جواب تھا کہ وہ سیاسی کرپشن اور وفاداریوں کی خرید کے بجائے سیٹ ہارنے کو ترجیح دیں گے، انھیں انتخابات میں جلسہ گاہ پہنچے تو نعرہ بلند ہوا "شہنشاہ پاکستان" قائد اعظم نے نعرہ لگانے والوں کو سختی سے منع کر دیا۔

بحیثیت گورنر جنرل کبھی کبھاربروز اتوار کراچی کے قرب و جوار میں چلے جاتے، تو ایک کار کی اجازت ہوتی جس میں صرف ایک سکیورٹی آفیسر ہوتا تھا، زیارت میں اک نرس انکی خدمت پر مامور تھی، اس کا شوہر پنجاب میں سرکاری ملازم تھا، نرس کو پریشان دیکھ کر پوچھا خیریت تو ہے، نرس نے کہا کہ اگر آپ سفارش کر دیں توہم میاں بیوی پنجاب میں ایک مقام پر ملازمت کر سکتے ہیں، بانی پاکستان نے جواب دیا، تمہارا مسئلہ بالکل جائز ہے حکومتی مشینری کو مدد کرنی چاہئے، لیکن میں سفارش کرکے پاکستان میں سفارشی کلچر پروان چڑھانا نہیں چاہتا، بانی پاکستان نے ملکی قوانین پر سختی سے عمل کیا، قومی خزانہ سے بیرون ملک علاج سے اجتناب کیا، شان و شوکت اور پروٹوکول کی نفی کی، بیرون مل اثاثے نہیں بنائے نہ ہی ان کا بینک اکا ئونٹ باہر تھا۔

شخصیت پرستی اور اندھی تقلید کی بیماری میں مبتلا ایک سیاسی جماعت کے نوجوان ان دنوں سوشل میڈیا پر بانی پی ٹی آئی کی تصاویر بانی پاکستان کے ساتھ آویزاں کرکے قوم کے جذبات سے کھیل رہے ہیں، اپنے طور پر وہ اپنے بھگوان کو "قائداعظم ثانی" قرار دے رہے ہیں ان کا لیڈر مذہب، تاریخ، سیاست، جغرافیہ سے جس طرح نابلد ہے، پیروکاروں کا "جنرل نالج" بھی مختصر ہے، بنگلہ دیش میں مجیب کے مجسمہ کے ساتھ جو سلوک ہوا ہے، اس گروہ کے افراد نے بانی پاکستان کے مجسمہ کی بابت بھی ناپاک خیالات کا اظہار کرکے محب وطن حلقوں کو دکھ پہنچایا ہے، سچ تو یہ ہے کہ ان کا نوزائیدہ لیڈر بانی پاکستان کے پائوں کی خاک کے برابر نہیں۔

غیر جمہوری طریقہ سے اقتدار میں ان کا آنا ابھی تک موضوع گفتگو ہے، یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ انھوں نے بحیثیت وزیر اعظم پارلیمنٹ کو کبھی اہمیت نہیں دی، انکی ساری سرگرمیاں اسٹیبلیشمنٹ کی خوشنودی میں جاری رہیں، وہ میڈیا پر سپہ سالار کے گن گاتے رہے، اقتدار سے الگ ہوتے ہی مورد الزام ٹھرانے لگے، جب خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے کہا آپ کی سرکار کی ساری بدعنوانیوں کا "کُھرا" آپ کے گھر جاتا ہے تو نہ صرف انھیں عہدہ سے ہٹا دیا گیا بلکہ لابنگ کی کہ وہ میرٹ پر بھی سپہ سالار نہ بن سکیں۔

نومولود لیڈر نے سیاسی مخالفین کو کبھی احترام نہیں دیا، قانون کی حکمرانی سے اسکا دور دور کا بھی واسطہ نہیں رہا، قول و فعل میں بلا کا تضاد تھا اپنی اس حرکت کو "یو ٹرن" لینا کہتے قوم کو سادہ طرز حکمرانی دینے کا وعدہ کیا مگر گھر سے وزیر اعظم دفتر تک کی چند کلو میٹر کی مسافت وہ ہیلی کاپٹر سے طے کرتے، اپنے عہد میں سماجی طور پر ایسی بیہودگی متعارف کرائی کہ معاشرہ کی فیبرکس ہی بدل دی، عدم برداشت کے کلچر کو پروان چڑھایا، مکالمہ کی روایت کو دفن کردیا۔

قائد اعظمؒ کی بہادری کا یہ عالم پہلی مرتبہ جب ممبر بنے تو ہندوستانیوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کے خلاف وائسرائے کی موجودگی میں صدائے احتجاج بلند کی، پی ٹی آئی کے پیرو کار جس لیڈر کو مہاتما سمجھ بیٹھے ہیں، اقتدار سے قبل ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اہل خانہ اور قوم سے وعدہ کیا تھا کہ انہیں واپس لائیں گے، امریکہ یاترا پر بطور وزیر اعظم مسٹر ٹرمپ سے ملے تو ڈاکٹر عافیہ کو لانا تو دور کی بات، اس پر ہونے والے مظالم پر لب کشائی بھی نہ کرسکے، ان کے فالورز ایسے بزدل لیڈر کو امت کا قائد سمجھتے ہیں، پونے چار سال اپنی دیانت داری کا ڈھنڈورا پیٹنے اور سیاسی مخالفین کو چور اور ڈاکو گرداننے والے آل یوتھ کے بھگوان کو ان دنوں سنگین بدعنوانی کے الزامات کا سامنا ہے، ان کے عہد میں پنجاب میں متعین وزیراعلیٰ کی کرپشن کی داستانیں زد عام ہیں، اس کے باوجود کھلاڑی نما سیاست دان کو نجانے کن صفات کی بنیاد پر ثانی قائد اعظم سمجھا جارہا ہے۔

آل یوتھ سے ہماری درخواست ہے کہ قائد اعظم کے ہم پلہ بانی پی ٹی آئی کو قرار دے کر قوم کے جذبات سے نہ کھیلیں، وہ دنیا کے عظیم لیڈر تھے، کوئی بونا سربراہ پارٹی ان کا ہم پلہ کیسے ہو سکتا ہے، جس کا ماضی ہی نہیں حال بھی داغ دار ہو۔