دوسری شادی کا موضوع مردانہ حلقوں میں نہ صرف مقبول ہے بلکہ قدر کی نگاہ سے یکھا جاتا ہے، اس پر گفتگو کرنا بھی"کار ثواب" سمجھا جاتا ہے، دوسری شادی کرنیکا جذبہ ہر اس دل میں موجزن ہوتاہے، جنہوں نے پہلی ہی نہیں کی ہے، جس نے پہلی کر رکھی ہے، وہ بھی دوسری کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں، اسکی ایک وجہ اطباء، حکماء، علماء کا دوسری شادی کے لا تعداد فوائد بیان کرنا بھی ہے، بعض سماجی ماہرین دلیل دیتے ہیں کہ جو خوبیاں پہلی زوجہ میں نہیں پائی جاتی وہ لازم دوسری میں موجود ہوتی ہیں، ویسے بھی سیانے کہتے ہیں، پہلی شادی کا تجربہ کرنے کے بعد ہی درست رائے قائم کی جاسکتی ہے، مرد حضرات کے پاس دوسری شادی کرنے کی اس سے بڑی شہادت نہیں ہے۔ وہ صنف نازک جس کے ساتھ انھوں نے زندگی گزار کی ہے، اس کی خوبیاں اور خامیاں جاننے اور اس کا میزانیہ بنانے کے بعد دوسری شادی کرنے کا جواز تو از خود پیدا ہو جاتا ہے۔
کسی مرد کا سب سے بڑا خواب شائد شادی کرنا ہی ہوتا ہے، تخیلاتی لحاظ سے اس نے جو"مورت" اپنے ذہن میں بنائی ہوتی ہے، جو اوصاف حمیدہ وہ اپنی منکوحہ بیوی میں دیکھنا چاہتا ہے اگر شادی کے بعد اس کی تعبیر اسے نہ ملے تو اسکو بڑی مایوسی ہوتی ہے، اس کے آدھے خواب تو دلہن کا گھونگٹ اٹھاتے ہی چکنا چور ہو جاتے ہیں، جو باقی بچتے ہیں انکو توڑنے میں بیوی بھر پور صلاحیتیں صرف کرتی ہے۔
معروف مزاح نگار مشتاق یوسفی رقم کرتے ہیں، کہ ایک نوجوان نے لڑکی کے اوصاف اپنی ڈائری میں لکھ رکھے تھے جس کو وہ اپنا ہم سفر بنانا چاہتا تھا، کافی تلاش کے بعد بھی اسے ان خوبیوں کی حامل لڑکی جب نہ ملی تو کئی سال کے بعد اس نے اپنی شرائط میں نرمی اور تبدیلی کرتے ہوئے ڈائری میں لکھا کہ وہ صرف "عورت" ہو۔
ہمارے سماج میں دوسری شادی کرنے کی خواہش ہر عمر کے فرد میں بدجہ اتم موجود ہے، وہ ہمیشہ موقع کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے مگر کہیں ظالم سماج رکاوٹ بن جاتا ہے تو کہیں جورو کا بھائی، اگر اس بھی بچ نکلے تو شریک حیات ہی پاؤں پے پانی پڑنے نہیں دیتی، اس لئے کبھی کبھی دل میں خیال آتا ہے کہ ہمیں اس ملک میں پید ا ہونا چاہیے تھا جہاں تیل نکل رہا ہے، اس لئے دوسری شادی کرنے کی سہولت صرف وہاں کے شہریوں کو میسر ہے، تعدد الزوجات کی کہانیاں سن کر تو ہمارا دل ہی بیٹھ جاتا ہے، یہ آرزو بھی جنم لیتی ہے کہ کاش! بانی پاکستان عرب میں پیدا ہوتے، تو عقد ثانی کی سہولت تو دستیاب ہوتی۔
ہمیں شکوہ ان صاحبان سے ہے جو سوشل میڈیا پر آکر ہمارے جذبات سے کھیلتے ہیں، جن کی بغل سے چار بیویاں برآمد ہوتی اور وہ ساری کی ساری مسکرا رہی ہوتی ہیں انکی مسکراہٹ کے پیچھے کیا بات ہے، یہ ابھی تک راز ہی ہے، اگر انکی مسکراہٹ مصنوعی نہیں ہے، انکے مجازی خدا ان سے انصاف بھی کرتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ قوم کے وسیع تر مفاد میں کثیر زوجیت کی فیوض و برکات ان حضرات کے سامنے ضرور رکھیں، جنکی حیاتی کا اہم مقصد عقد ثانی ہے ہمارا گمان ہے کہ انھوں نے یہ فریضہ بہت پہلے اگر انجام دیا ہوتا، تو بہت سے افراد اس حسرت کو لے کر ابدی نیند نہ سوتے، اگرچہ آج کل موٹیویشنل سپیکر بھی انسانی مسائل اور انکے حل پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہیں، لیکن زوجین کو خوش رکھنے کے فن سے وہ عاری ہیں، ممکن ہے کہ وہ اس تجربہ سے نہ گزریں ہوں۔
خدا لگتی بات کہوں تو یہ بڑی انسانی خدمت ہے، کیونکہ ہمارے سماج میں بڑا معرکہ اپنی زوجہ کو خوش رکھنا ہے، اگر یہ نسخہ ہاتھ لگ جائے تو زندگی آسان ہو جاتی ہے، چار زوجین رکھنے والے کبھی پہلے میدان میں اترے ہوتے، تو ہمارا وہم ہے کہ ہمارے کپتان کا گھر نہ اجڑتا، انھیں تیسری شادی کا رسک نہ لینا پڑتا، مگر قدرت کا لکھا کو کون ٹال سکتا ہے، ہمیں ڈر ہے کہ تعدد الزوجات والے ہمارے مشورہ پر عمل پیرا ہو کر دوسری شادی کے شائق کو ترغیب دینے میں کامیاب ہوگئے، تو ممکن یہ انکی خانگی زندگی اجیرن ہوجائے کیونکہ ہمارے ہاں بڑا تضاد قول و فعل میں پایا جاتاہے۔
ہمیں گلہ ان علماء کرام سے بھی ہے جنہوں خود تو ایک سے زائد خواتین کو اپنی زوجیت میں لے رکھا ہے، شوہر کی دوسری شادی کروانے والی بیوی کو جنت کی بشارت دیتے ہیں، مگر عوام الناس کو خانگی تعلقات میں بگاڑ اور عدم انصاف کا خوف دلا کر ایک ہی کلی پرقناعت کرنے کا درس دیتے ہیں۔
اہل مغرب نے اس لئے مذہبی پیشواؤں سے رائے ہی لینا چھوڑ دی ہے، لیکن شادی کے اعتبار سے انکی مشکلات ذرا وکھری ٹائپ کی ہیں، اعتماد حاصل کرنے کے لئے مرد وخواتین کی ملاقاتوں کا سلسلہ اتنا دراز ہوتا ہے کہ شادی کی عمر ہی گزر جاتی ہے، جب تک اعتماد ملتا ہے موصوفہ کسی دوسرے کی دلہن بن چکی ہوتی ہے، اکثر جوڑے دوسری شادی کے ناکام ہونے کے خوف سے پہلی ہی نہیں کرتے۔
اس ماحول کو دیکھتے اور سوشل میڈیا کی دسترس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اب مغربی خواتین نے مشرقی نوجوانان پر ڈورے ڈالنے شروع کر دیئے ہیں، دیار غیر سے آنے والی دلہنوں کی خبریں میڈیا کی زینت بن رہی ہیں، اس میں عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی، بسا اوقات دونوں کی عمر میں اتنا ہی فرق ہوتا ہے جتنا کار اور ٹریکٹر کے پہیوں میں ہوتا ہے، شرمیلے مشرقی نوجوان دلہن کو اس لئے قبول کر لیتے ہیں، کہ اس کے ساتھ جہیز کی بجائے نیشیلٹی آتی ہے، عمر کو سامنے رکھتے ہوئے رسک اس لئے بھی لیا جاتا ہے، کہ بیرون ملک جاکر پہلی کی ابدی رخصت کے بعد دوسری شادی کے امکانات زیادہ روشن ہو سکتے ہیں، والدین بھی بخوشی محبت کا رشتہ قبول کرلیتے ہیں، روزگار اور شادی ایک ٹکٹ میں دو مزے اس گرانی میں کسی خوش قسمت ہی کو ملتے ہیں، زیادہ مایوسی تو ان افراد کو ہوتی ہے، جن کے لئے باہر سے کوئی پیغام نہیں آتا، مغربی دوشیزائیں بھی نو عمر لڑکوں پر آنکھ رکھتی ہیں اور بیاہ کر لے جاتی ہیں، عقد ثانی کے لئے وہ کسی فرد کو پرپوز نہیں کرتیں، ایسے افراد کا نہ تو یہاں چانس بنتا ہے نہ ہی بیرون ملک مواقع ملتے ہیں، نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم کا معاملہ در پیش ہوتا ہے۔
زیادہ قصور تو اس کلچر کا بھی جس نے دوسری شادی کو گناہ کبیرہ بنا رکھا ہے، بعض افراد دولت شہرت رکھنے کے باوجود یہ فریضہ انجام دینے سے ڈرتے ہیں، اس خوف کو ختم کرنے کے لئے انھیں سیاست میں قدم رکھنا پڑتا ہے، یوں راستے کے سارے کانٹے صاف کرکے وہ شادی کرنے کی "سیریز" اپنے نام کرلیتے ہیں، لیکن یہ بھی ہر کسی کا مقدر نہیں۔
دوسری شادی کے عدم کلچر ہی کا فیض ہے کہ بعض سیاستدان، فلمی اداکار، کاروباری شخصیات، کچھ سرکاری ملازم دوسری شادی کرنے کے باوجود اسکو اتنا خفیہ رکھتے ہیں کہ اخبارات ہی سے انکے خاندان کو پتہ چلتا ہے کہ "معصوم" نے دوسری شادی کرلی ہے، جن کاموں کو اخفاء ہونا چاہئے وہ تو سر بازار ہوتے ہیں، جن کی تشہر ہونی ہے وہ پردے کے پیچھے چھپائے جاتے ہیں۔
اہل عرب کی تقلید کرتے ہوئے ہمیں بھی دوسری شادی کے کلچر کو عام کرنا ہوگا، اس سے بہت سی خواتین کا بھلا ہوگا، جن کی عمریں ڈھل رہی ہیں، ان میں مطلقہ اور بیوہ بھی شامل ہے، ہماری اس تجویز پر بہت سے خواہش مندوں کے دلوں میں لڈو پھوٹ رہے ہوں گے، کیونکہ مرد ہی عورت کو مکمل تحفظ فراہم کر سکتا ہے۔