Friday, 22 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Jamaat e Islami Ka Dharna

Jamaat e Islami Ka Dharna

دھرنوں کی تاریخ کا آغاز قریباً اسّی کی دہائی سے ہوا، جب ضیاء الحق کے زکوٰۃ اور عشر آرڈیننس کے خلاف تحریک فقہ نفاذ جعفریہ نے پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے دھرنا دیا، دو روز کے اس دھرنا میں نہ تو لاٹھی چارج ہوا نہ ہی کنٹینر لگا کر راستے بند کئے گئے، بعد ازاں 2014 میں اسلام آباد ڈی چوک میں 126 یوم کا طویل دھرنا تھا، جس کو باضابطہ طور پر Manage اور ہر طرح کی سہولیات سے آراستہ کیا کہا جاتا ہے کسی ایمپائر کا سپانسرڈ تھا، جس کا تذکرہ تواتر سے اسکی قیادت کرتی تھی۔

مخلوط طرز کے اس ایونٹ کو واقفان حال میوزیکل کنسرٹ سے تعبیر کرتے تھے، جس کے لئے ساؤنڈ سسٹم کا خرچہ14 کروڑ بتایا جاتا ہے، شرکاء کے کھانے دیگر اخراجات کون ادا کرتا تھا، راوی اس بابت خاموش ہے۔

اہل دانش معترف ہیں اس کے بہت منفی اثرات سماج پر مرتب ہوئے، سہولت کاروں نے اسلامی تہذیب کا جنازہ نکال دیا، دھرنا کا مقصد دھاندلی کے پروپیگنڈہ کی آڑ میں ایک منتخب حکومت کو ٹارگٹ کرنا ہے اس کے بعد 2018 کے انتخابات تو مکمل غیر شفاف تھے، 2024 کے انتخابات پر بات کرنے والے نجانے 2018 کے الیکشن پر کیوں چپ سادھ لیتے ہیں۔

حالیہ دھرنا راولپنڈی لیاقت باغ میں تا دم تحریر جاری ہے، اس کی قیادت جماعت اسلامی کے امیر محترم حافظ نعیم الرحمان کر رہے ہیں، ان کی قسمت میں Good to see you جیسی پذیرائی نہیں، وہ اس کے آرزو مند بھی نہیں، کھلے آسمان تلے، پنکھوں کے بغیر درویش صفت لوگ زمین پر براجماں ہیں، ان میں 90سال بزرگ اور 14سال جوان بھی ہیں، باپردہ عفت مآب مائیں، بہنیں، بیٹیاں بھی دوسرے شہروں سے امیر جماعت کی دعوت پر آئی ہیں۔ ہزاروں افراد کی موجودگی کے باوجود ٹریفک رواں دواں ہے، سیکڑوں خواتین پنڈال میں ہیں مگر کوئی ہلڑ بازی نہیں، نہ کھانے پر جھگڑا، نہ دلوں میں کدورت، انھیں اوصاف نے جماعت کو سب پارٹیوں میں ممتاز رکھا ہے۔

مذاکرات کے نتیجہ میں جماعت کی قیادت نے مطالبات جو سرکار کو پیش کئے ہیں، وہ ہر شہری کی آواز ہے، تاہم یہ سعادت جماعت کے حصہ میں آئی، اس آواز کو"حق دو عوام کو" کی تحریک بنا دیا ہے، تمام لوگوں کو اس میں شمولیت کی دعوت دی، اس دھرنا کا مقصد نہ تو سرکار کو گرانا ہے نہ ہی افراتفری پیدا کرنی ہے، جس کا اظہار امیر جماعت نے برملا کیا ہے، مگر وہ مطالبات کی منظوری تک دھرنا جاری رکھنے کے خواہاں بھی ہیں، یہ تحریک، ناانصافی، جبر اور ظالمانہ نظام کے خلاف ہے، جو ہر دور میں روا رکھا گیا اب عوام پر عرصہ حیات تنگ ہوتا جارہا ہے، اس میں حالیہ اضافہ بجلی کے ظالمانہ غیر منطقی بل ہیں، جس کی ادائیگی صاحب ثروت لئے بھی نا ممکن ہوتی جارہی ہے۔

اب یہ عیاں ہو چکا کہ آئی پی پیز کے قیام کی بدولت شہری خطہ کی مہنگی ترین بجلی خریدنے پر مجبور ہیں، ہر چند اس سسٹم کے خلاف بات ہوتی رہی مگر موثر نہ تھی، جماعت اسلامی کی قیادت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے یہ آواز ہر فورم پر دھرنے کی وساطت سے پہنچائی ہے، اب تو سرکار نے بھی محسوس کیا ہے کہ اشرافیہ کو جو مراعات دی جارہی ہیں، ان پر روک لگانا وقت کی ضرورت ہے۔ سرکار اگر چاہے تو دستاویزی اکانومی سے بدعنوانی کو مات دی جاسکتی ہے۔

سوشل میڈیا کی وساطت سے بہت سے بزرگوں کو امیر جماعت اسلامی کی بانہوں میں بلبلاتے اور روتے دیکھا ہے جو بھاری بھر بجلی کے بلوں، مہنگائی کی تاب نہیں لاسکتے جن کے کاندھوں پر اولاد کی بھاری بھر ذمہ داریاں بھی ہیں، ان پر کون دشت شفقت رکھے گا، یہی احساس دلانے کے لئے حافظ نعیم الرحمان نے کراچی سے راولپنڈی کا رخت سفر باندھا ہے، کراچی میں ہر مظلوم کے لئے سب سے توانا آواز انکی رہی ہے، وہ اس سے قبل بھی IPPs کی اندھیر نگری پر حکام کو متوجہ کر چکے، کے الیکٹرک کے خلاف انکی جدوجہد مثالی رہی، بحریہ کے متاثرین کو حق دلوانے میں انھوں نے کلیدی کردار اد کیا۔

"میرے گاؤں میں بجلی آئی ہے" کہ ترانہ سے جس توانائی کا آغاز ہوا تھا وہ اب گلے کا پھندا بن گئی ہے، تینوں بڑی پارٹیوں نے غفلت کا مظاہرہ کیا ہے، پی ٹی آئی کے دور میں 30 معاہدوں کی تجدید کی گئی، قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اپنی پریس کانفرنس سے عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں، مسلم لیگ ن کے دور میں بطور وزیر توانائی ان معاہدوں پر دستخط انھیں کے تھے، یہی الیکٹیبل سیاسی نظام کی خرابی کی جڑ ہیں، جو ہر دور میں اقتدار اور مراعات کے مزے لیتے ہیں، جب اپوزیشن میں آتے ہیں تو مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں۔

میڈیا پر امیر جماعت نے کہا کہ مجھے اور میری جماعت کو کچھ نہیں لینا ہم تو چاہتے ہیں کہ عوام کی زندگیاں آسودہ کریں، پٹرول پر لیوی ٹیکس و دیگر ٹیکس سرکار ختم کرے، غیر ترقیاتی اخراجات پر کٹ لگائے، سادہ طرز حکومت اپنائیں، اس سے اربوں روپے بچیں گے، اس سے عوام کو ریلیف دیں، اخلاص ہو توسب کچھ قابل عمل ہے۔ امیر جماعت نے کہا ہمارا ہوم ورک مکمل ہے اور راہنمائی کر سکتے ہیں۔

جماعت اسلامی کے مخالفین معترف ہیں، یہ منظم ترین جماعت ہے، اس پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں پارلیمنٹ میں جب بھی نمائندگی ملی، اراکین اپنے عہدوں سے انصاف کیا، ہر فورم پر عوام کے حق میں آواز اٹھائی، غیر ضروری مراعات لینے سے اجتناب کیا۔ قیادت ہر دکھ اور سکھ میں کارکنان کے درمیان موجود ہوتی ہے۔ امارت سنبھالنے کے بعد دھرنا کا بڑا فیصلہ اس بات کی عکاسی ہے کہ ہر عوامی ناانصافی پر جماعت مزاحمتی سیاست کرے گی، جماعت سیاست کو کاروبار نہیں عبادت سمجھتی ہے، جس کا مقصد انسانوں کی خدمت کرنا، وہ اس میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں یہ تو وقت بتائے گا، مگرجن جماعتوں پر دست شفقت رکھا جاتا رہا ہے، عوام کے ہر بچہ بچہ کو انھوں نے ہی مقروض کیا ہے۔

نوجوانان قوم کے نام حافظ نعیم کا پیغام ہے کہ اپنے دین پر فخر کریں، مایوس نہ ہو، سراب کے پیچھے نہ لگیں، ہر نعمت سے آراستہ ملک میں آپ کا مستقبل روشن ہے، لیکن اس کا راستہ، وڈیرہ شاہی، سرمایہ داری، اور سرداری نظام سے نجات سے ہو کر گزرتا ہے، اس لئے جدوجہد درکار ہے، یہ علامتی دھرنا اس کا نقطہ آغاز ہے۔

عوام ایسے نمائندے منتخب کرتی ہے یا کرائے جاتے ہیں جو ضرورت اور خواہش میں فرق رکھنے سے قاصر ہیں، جب انکی خواہشات بڑھتی ہیں تو قوم کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں، حافظ نعیم کا مطالبہ ہے کہ خواہشات کو کنٹرول کرکے عوامی ضروریات پوری کرو، دھرنے کا حکمرانوں کے نام یہی پیغام ہے۔