سرداران قریش خانہ خدا کے سامنے پارلیمنٹ (دارالندہ) میں تحریک اسلامی کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بنتے رہتے، مختلف آراء پیش کی جاتیں، اپنے مکروہ عزائم کی تکیل پر وہ شاد ہوتے اور سمجھتے کہ مسلمانوں کی جماعت کو جلد زیر کرلیں گے، مگر انکی یہ خواہش حسرت ہی رہی، کفار مکہ نے اس گروہ کا سماجی بائیکاٹ کرکے بھی دیکھ لیا، نو مسلم پر ظلم ستم کی بھی انتہا کردی، وفود بھیج کر بھی دعوت کو روکنا چاہا، جواب ملا یہ میرے دائیں ہاتھ پر اگر چاند اور بائیں پر مہتاب لا کربھی رکھ دیں تب بھی میں اپنے مشن سے باز نہیں رہ سکتا، وہ مشن داعی کی دعوت تھی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، میں اللہ کا پیغمبر ہوں میرا کام انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی اطاعت میں دینا ہے۔
کفار مکہ اس محترم ہستی سے نبرد آزماء رہے جس نے انکے ماحول اور معاشرہ میں آنکھ کھولی، آپ ﷺ کا کردار شیشہ کی طرح صاف تھا، باوجود اس کے دعوت سے پہلے اہل عرب سے گواہی لی، سب نے آپ ﷺکے اعلی مثالی اخلاق کی تصدیق کی، وہ انسان کاملﷺ کے مد مقابل اس لئے آگئے، کہ جو نظام محسن انسانیت ﷺ لانا چاہتے تھے، وہ انھیں"سوٹ" نہیں کرتا تھا تمام تر مخالفتوں اور جنگ وجدل کے بعد چشم فلک نے دیکھا، سرداران قریش گردنیں جھکائے، خوف سے لبریز آپ ﷺ کے حکم کے منتظر تھے، ان کا دل گواہی دے رہا تھا کہ غرور، تکبر، نخوت میں کون کون سی زیادتی نہیں تھی جوانسان اعظم ﷺ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ نہ کی گئی، فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺ جو بھی حکم صادر فرمائیں وہ اس کے مستحق ہیں۔
مگر آپ ﷺ کی فاتحانہ پالیسی کفار مکہ کی سوچ سے یکسر مختلف اورعفو و کرم پر مشتمل تھی، عام اعلان ہوا جو حرم میں داخل ہو جائے یا ابو سفیانؓ کے گھر چلا جائے، مقابلہ کے لئے ہتھیار نہ اُٹھائے، اس کے لئے امن ہے، بشرطیکہ کسی قابل تعزیر جرم کا مجرم نہ ہو۔ نبی مہربان ﷺ کا قافلہ جب شہر میں داخل ہوا، دنیا بھر کے فاتحین کے برعکس آپ کا سِر اقدس مارے عجز کے اللہ کے سامنے اس طرح جھک رہا تھا کہ پیشانی مبارک کچاوے کو چھو رہی تھی، اور زبان سے سورہ فتح کی تلاوت جاری تھی۔
محسن انسانیتﷺ کی حیات طیبہ ایک فرد کی سیرت نہیں تھی، بلکہ وہ ایک تاریخی طاقت کی داستان ہے، جو انسانی پیکر میں جلوہ گر ہوئی، یہ غار حرا سے غار ثور تک اور حرم کعبہ سے لے کر طائف کے بازار تک اور امہات المومنینؓ کے حجروں سے لے کر میدان ہائے جنگ تک پھیلی ہوئی ہے، یہ انسان کی نہیں انسان ساز کی روداد ہے۔
نبی مہربان ﷺ کا متحیر کر دینے والا کارنامہ کا اہم پہلو یہ ہے، کہ انسان اندرون سے بدل گیا، انسانی روپ میں جو خواہش پرست حیوان پایا جاتا تھا، کلمہ حق سے وہ مکمل مٹ گیا، اسکی کوکھ سے خدا پرست اور با اصول انسان برآمد ہوا، حضرت عمرؓ جیسا تند خو، لا ابالی بدلا تو کہاں پہنچا! ان معزز ہستیوں سے وہ معاشرہ بنا کہ اگر بندش شراب کی منادی کی تو منہ سے لگے پیالے فوراً الگ کر دیئے، اگر عورتوں کو سر اور سینہ ڈھانپنے کا حکم ملا تو بلا تاخیر اسکی تعمیل کی، اگر جہاد کا حکم ملا تو نو عمر لڑکے ایڑیوں پر کھڑے ہو گئے، مبادا کہ وآپس لوٹا دیئے جائیں، اگر چندہ کی اپیل کی تو حضرت ابو بکرؓ جیسے فدائین نے گھر کی ساری متاع اسلامی تحریک کے قدموں میں لٹا دی، حضرت عثمان غنیؓ جیسے دولت مندوں نے سامان سے لدے اونٹوں کی قطاریں لا کھڑا کر دیں، ایسے مزدور تھے جنہوں دن بھر کی مزدوری سے حاصل شدہ کھجوریں جنگی فنڈ میں دے کر دامن جھاڑ دیا، اگر مہاجرین کی بحالی کے لئے صدا لگائی تو انصار نے آدھی جائیداد بانٹ کر اخوت کا اعلیٰ نمونہ پیش کردیا، سول سروس کے لئے کارکن طلب کئے تو ایک درہم سے کم معاوضہ پر گورنری کی خدمت پر مامور ہو گئے، محسن انسانیت ﷺ نے قلیل مدت میں انسانی تاریخ کا عالم گیرانقلاب بپا کیا، اسکی روح تشدد کی نہیں، محبت اور خیر خواہی کی تھی۔
سماجی اور مجلسی اعتبار سے اپنے لئے مساوات کو پسند کیا، امتیاز ناپسند فرمایا، کھانے پینے، رہن سہن لباس وضع قطع میں غیر معمولی پن نہ رکھا، نہ یہ مرغوب کہ لوگ تعظیم کے لئے کھڑے ہوں، آقا، سردار، جیسے القابات سے پکاریں، روایت ہے کہ آپ ﷺ حضرت ابو ہریرہؓ کے ساتھ بازار گئے، چار درہم میں پاجامہ خریدا، اجناس کو تولنے کے لئے خاص وزن مقرر تھا، آپ ﷺ نے عربی میں وزان سے کہا کہ جھکتا ہوا تولو، یہ لفظ پہلی دفعہ سنے، ابوہریرہؓ نے توجہ دلائی تم اپنے نبی ﷺ کو نہیں پہنچانتے وہ آپ ﷺ کے ہاتھ چومنے کو بڑھا، آپ ﷺ نے منع فرما دیا کہ یہ عجمیوں کا (غیر اسلامی) طریقہ ہے۔
برملا کہا کہ کسی کے خلاف مجھ سے کوئی زیادتی ہوئی ہو اپنا بدلہ لے، سیاسی لحاظ سے اپنے لئے کوئی ترجحیی حقوق حاصل نہیں کئے، مدینہ میں شدید ایمرجنسی رہی، یہود اور منافقین کی نت نئی شرارتوں سے سابقہ رہا، کسی کو نظر بند کیا نہ قید نہ ہی ضمیر کش احکام نافذ کئے، لوگوں کو تنقید اور رائے زنی کا حق دیا۔
موجودہ دنیا کا اجتماعی نظام جس طرز کے وزیر، مشیر، جج، وکیل، لیڈر، صحافی، سپہ سالار، سپاہی، کوتوال، پٹواری، ڈپٹی کمشنر، زمیندار، مزارع، منصف، ادیب، مزدور مانگتا ہے، اس کا نقشہ انسانیت اس سیرت طیبہﷺ سے یکسر مختلف ہے، جوہمیں حیات طیبہﷺ میں ملتا ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ سیرت نبویﷺ میں ان لوگوں کے لئے کوئی پیغام نہیں، جو کسی غیر اسلامی نظام سے بات بنا رکھنا چاہتے ہیں، جن کے مفادات کے سودے کسی باطل سے طے ہیں، وہ سیرت پڑھ کر سر دھن سکتے ہیں اپنی معلومات میں صرف اضافہ کر سکتے ہیں۔
نبی مہربان ﷺ کے انقلاب نے باہر کے نظام کے ساتھ اندر سے انسانی قلب اور ذہن کو بھی بدل کے رکھ دیا، جو حقیقی اور بنیادی مسائل کو حل کرنے میں کامیاب رہا، حکمرانوں کی اولین ذمہ داری تھی اس عالم گیر انقلاب کی فیوض و برکات سے پوری دنیا کو آگاہی دیتے المیہ یہ مسلم ممالک میں سیرت نبویﷺ کی گہری چھاپ نظر ہی نہیں آتی، نعیم صدیقی مرحوم لکھتے ہیں سیرت البنی ﷺ ہمارے اندر جذب نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے آپ ﷺ کی حیات مبارکہ کو مافوق الانسانی کے کارناموں کا رنگ دے دیا ہے، اس سے مرغوب ہو کر عقیدت تو رکھ سکتے مگر اتباع نہیں کر سکتے، بقول علامہ اقبال۔
زمن بر صوفی و ملا سلامے کہ پیغام خدا گفتند مارا
و لے تاویل شان در حیرت انداخت خدا و جبریل و مصطفیﷺ را
(ترجمہ: صوفی ملا کو سلام پہنچے، انہوں نے اللہ کے پیغام کی ایسی تاویل کی کہ خود اللہ، جبریل اور حضرت محمدﷺ حیران رہ گئے)۔