صحت اور تعلیم بنیادی انسانی ضروریات میں سے ہیں۔ صحت کے سلسلے مشکل پیش آ جائے تو زندگی کے معمولات دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ تین روز قبل پنجاب کی وزیراعلیٰ میو اسپتال لاہور کا دورہ کیا تو مریضوں نے شکایات کے انبار لگا دیے۔
سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کا اس قدر رش ہے کہ حکوموں کے اپنے وسائل اور انتظامی ڈھانچہ چٹخ رہا ہے۔ کے پی کے۔ سندھ اور بلوچستان میں بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں۔ ایک طرف آبادی کا بڑھتا ہوا دباؤ اور شہروں کامسلسل پھیلاؤ، دوسری طرف محدود حکومتی سہولیات کی مجبوریاں۔۔ عوام اپنی جگہ پریشان ہیں۔ جائیں تو کہاں جائیں!
کچھ یہی عالم تعلیم کے میدان میں بھی ہے۔ سرکاری اسکولوں کی عمومی حالت زار سب کے سامنے ہے۔ اس کے مقابل نجی شعبے نے تعلیم کے کاروبار میں کمائی کی آخری حدیں پھلانگ رکھی ہیں۔ حکومت اب اپنے اسکولوں کا خاصا بڑا حصہ نجی شعبے کے حوالے کرنے پر مجبور ہے۔ ایسی صورتحال میں تعلیم جیسی بنیادی انسانی سہولت بھی غریب اور نادار لوگوں کے لیے ناممکن ہوتی جا رہی ہے۔
مہنگائی اور بے روزگاری نے سفید پوش اور نچلے طبقات کو اس قدرزیر بار کر دیا ہے کہ بیماری کی صورت میں 'مرے کو مارے شاہ مدار' والا معاملہ ہو جاتا ہے۔ اللہ معاف کرے اگر تھیلیسیمیا، ڈائیلسز وغیرہ سے واسطہ پڑ جائے تو خاندان بھر کی زندگی زیر و زبر ہو جاتی ہے۔ اصولاً ریاست کو غریب اور لاچار لوگوں کا آسرا بننا چاہیے لیکن حکومت اور ریاستی ڈھانچے کے اپنے مسائل ہیں۔
ایسے میں قابل قدر ہیں وہ پبلک ویلفیئر ادارے جو لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔ سیلانی ٹرسٹ، ایدھی فاونڈیشن، الخدمت، اخوت، سندس فاونڈیشن، ریڈ اسکول سسٹم، الغزالی ایجوکیشن ٹرسٹ جیسے ادارے اپنے اپنے طور پر وسائل جمع کرکے ایسے لوگوں کے لیے علاج، تعلیم اور قدرتی آفات کی صورت میں مصروف عمل ہیں۔ اسی میدان میں چوہدری رحمت علی میموریل ٹرسٹ، ٹاون شپ لاہور بھی شامل ہے جو 39 سالوں سے خاموشی سے علاج معالجے اور تعلیم کے میدان میں مصروف عمل ہیں۔
رحمت علی پاکستان کی تاریخ کے انتہائی منفردکردار ہیں۔ متحدہ بھارت میں جب زیادہ تر سیاسی جماعتیں ملکی وحدت کے اندر سیاسی بقا اور آزادی کے لیے راستہ بنانے کی تگ و دو میں تھیں تو تیس کی دہائی کے اوائل میں انھوں نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ علاقائی خطوں پر مشتمل ملک کی تجویز دی۔
1933 میں لکھے اپنے شہرہ آفاق کتابچے Now or Never میں پہلی بار انھوں نے نئے ممکنہ ملک کے لیے لفظ پاکستان استعمال کیا۔ یہ لفظ انھوں نے کیسے سوچا، اس کی توجیہہ ہم سب کو معلوم ہے۔ انھوں نے اپنے تئیں پاکستان نیشنل موومنٹ نام کی ایک متحرک تنظیم بھی تشکیل دی۔ ان کے سیاسی نظریات مسلم لیگ سے مختلف تھے۔
تاہم 1940 کی قرارداد لاہور منظور ہونے پر گزشتہ روز پریس نے اس قرارداد کو پاکستان کے نام سے پکارا۔ گو مسلم لیگ نے اس وقت تک اس نام کو رسمی طور پر اپنایا نہیں تھا لیکن نام کی معنویت اور خوبصورتی نے جیسے آزادی کی تحریک کو ایک روح پرور چہرہ دے دیا۔ اس کے بعد چل سو چل۔ یہ الگ داستان ہے کہ اس نام کے خالق کے ساتھ بعد میں جو سلوک ہوا وہ یقیناً نامناسب تھا۔ ان کا کسمپرسی کے عالم میں برطانیہ میں ہی ہوا۔
ان کے ایک دوست ڈاکٹر ایس ایم کے واسطی جو لاہور کے مشہور چائلڈ اسپیشلسٹ اور میو اسپتال میں چلڈرن وارڈ کے بانیوں میں سے تھے، انھوں نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر 1976 میں ان کے نام پر ٹرسٹ بنانے کی ٹھانی۔ جو پودا انھوں نے لگایا آج اس شجرِ سایہ دار کے تحت ایک 48 بیڈ کا اسپتال، ایک گرلز اسکول، ایک بوائز اسکول، ایک جونیئر اسکول، ایک مسجد اور اس سے ملحق مدرسہ قائم ہے۔
چوہدری رحمت علی ٹرسٹ اسپتال لاہور سے سالانہ 255,000 کے لگ بھگ افراد مستفید ہوتے ہیں، غریب اور مستحق افراد کا علاج مفت کیا جاتا ہے، معمولی رقم کی علامتی پرچی پر OPD سہولت فراہم کی جاتی ہے۔
اسپتال میں جنرل میڈیسن، گائنی و زچہ بچہ، جنرل سرجری، ای این ٹی، نیورالوجی، جلد، چیسٹ و ٹی بی، چلڈرن، چشم، ڈینٹل ذیابیطس کے شعبہ جات کام کر رہے ہیں، ڈائیگناسٹک کی سہولیات بھی موجود ہیں۔
ٹرسٹ کے زیر اہتمام وسیع کیمپس پر بوائز ہائی اسکول، گرلز اسکول اور جونیئر اسکول میں طلباء و طالبات کی تعداد 2300 سے زائد ہے۔ ماہانہ فیس انتہائی کم، ذہین و مستحق طلباء طالبات فیس میں خصوصی رعایت / اسکالرشپ جب کہ انتہائی ضرورت مند طلباء مفت تعلیم سے مستفید ہوتے ہیں۔ جامعہ مسجد رحمت و دارالعلوم میں بچوں کو حفظِ قرآن، ناظرہ تجوید و درسِ نظامی کی مفت تعلیم جب کہ ان بچوں کے کھانے پینے، علاج اور رہائش کے اخراجات بھی ادارہ کے ذمے ہے۔
مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور صحت کے بہتر سہولیات کی مسلسل ڈیمانڈ کے پیش نظر چوہدری رحمت علی اسپتال نے اسپتال کی توسیع اور آپ گریڈیشن کا منصوبہ شروع کیا ہے۔ اس کے تحت نئی ایمرجنسی، 50 بیڈ کے نئے وارڈز کی تعمیر، نئے آپریشن تھیٹرز کی تعمیر سمیت بہت سے دیگر شعبوں میں توسیع، آپ گریڈیشن اور بہتری کے اقدامات زیر عمل ہیں۔
اس سلسلے میں بلڈنگ کی تعمیر اور توسیع کے ساتھ ساتھ میڈیکل آلات۔ تزئین سمیت متعلقہ ضروریات کے لیے ایک خطیر رقم درکار ہو ہے۔ امید ہے کہ اسپتال کی توسیع اور آپ گریڈنگ کا منصوبہ سال رواں کے آخر تک مکمل ہو جائے گا۔ اس سے علاقے کے لوگوں کو بہتر طبی سہولیات اور وسیع تر میڈیکل سروسز کی رینج دستیاب ہوگی۔
ٹرسٹ کے ماہانہ اخراجات ڈیڑھ کروڑ سے زائد ہیں جب کہ توسیع اور مزید سہولیات کے لیے عطیات اور مالی معاونت کا تخمینہ الگ۔ جو احباب اس شجر سایہ دار کا سایہ مزید پھیلانے میں زکوٰۃ، عطیات و صدقات کے ذریعے سے شامل ہو سکیں، اس میں ان کی دنیا اور آخرت کی بھلائی بھی ہے اور حق داروں کا حق ادا ہونے کی صورت بھی ہے۔ عطیات و زکوٰۃ آن لائن جمع کرانے کے لیے تفصیلات:
برائے عطیات:
Ch.Rahmat Ali Memorial Trust
A/C # 201139351240201
IBAN # PK84BKIP0201139351240201
SWIFT CODE BKIPPKKAXXX
برائے زکات:
Ch.Rahmat Ali Memorial Trust Hospital
A/C # 201139351240202
IBAN # PK57BKIP0201139351240202
SWIFT CODE: BKIPPKKAXXX