رواں ہفتے وزیر اعظم پاکستان اپنے وزراء کے ہمراہ چین کے پانچ روزہ دورے پر ہیں۔ اس دورے کا شہرہ یوں ہو رہا ہے جیسے پاک چین دوستی کا گہنایا ہوا چاند پھر سے روشنی کے ساتھ چمکا ہے۔
ظاہر ہے اس کارنامے کا سہرا وزیراعظم موصوف کے سر ہے۔ اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں کا ایک طویل سلسلہ ہے، دوروں کا وسیع و عریض پروگرام ہے، اسی سلسلے کی ایک کڑی چین کے ساحلی شہر شینزین میں ایک بھرپور سرمایہ کاری کانفرنس کا اہتمام بھی تھا۔ اس کانفرنس میں پاکستان سے ایک درجن سے زائد شعبوں کے نمایندوں کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا، شینزین بلکہ اس کے صوبے سے نمایاں کمپنیوں کے نمایندوں کو بھی دعوت دی گئی۔
اس ایونٹ کے دو حصے تھے۔ پہلا سیشن سرمایہ کاری کانفرنس کی صورت تھا۔ وزیراعظم اور ان کے وزراء نے خطاب کیا۔ کانفرنس بھرپور تھی، شرکاء سے ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ بیجنگ سفارت خانے، چین اور ہانگ کانگ کے کمرشل قونصلرز سمیت تمام سفارتی عملے نے تیاریوں میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔
پاکستان سے بھی نصف درجن سے زائد وزارتوں نے دو تین ہفتوں سے نہ نیند نیناں آنے دی نہ انگ چیناں کا سکھ پایا، مسلسل تیاری، فالو اپ۔ یوں یہ کانفرنس اور اس کے دوسرے سیشن B2B یعنی کاروبار سے کاروبار روبرو ملاقاتوں کا اہتمام ممکن ہو پایا۔
اتفاق یوں ہوا کہ عین آخری وقت پر ہمیں اپنی کمپنی جس سے ہمارا نان نفقہ وابستہ ہے سے اذن ہوا کہ کمر باندھئے کہ آپ کو بھی جانا اور شرکت کرنی ہے۔ ویزا اجرائی کا مرحلہ فلائٹ روانگی سے چند گھنٹے پہلے مکمل ہوا۔ یوں ہم بھی اس " چارٹرڈ فلائٹ" کا حصہ بنے جس کے بارے میں شہرہ تھا کہ کاروباری افراد کا وفد بھی وزیراعظم کے ہمراہ ہے۔
شرکائے چارٹرڈ فلائٹ نے اپنے اپنے ٹکٹ خریدے، تاہم بیشتر اس خوش فہمی میں تھے کہ وزراء ان کے شریک سفر ہوں گے۔ اور یوں وہ کچھ گفتگو باہم کر سکیں گے لیکن انھوں نے فقط یوں گمان کیا تھا مگر پلان یوں نہ تھا۔ تاہم وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال وفد کو الوداع کرنے آئے اور اپنی موٹیویشنل گفتگو سے سب کو ایک عمدہ کاروباری ایونٹ کے لیے تیار کیا۔
کانفرنس کے دوسرے سیشن میں B2B میٹنگز تھیں۔ بتلایا گیا کہ ایک درجن سے زائد سیکٹرز سے متعلق سیکڑوں مقامی کمپنیاں باہمی روابط اور سرمایہ کاری کے لیے رابطہ کر چکی ہیں۔ فہرست سے اندازہ ہوا کہ B2B سیشنز میں سر کھجلانے کی فرصت نہیں ہوگی۔ سیشن شروع ہوا تو مقامی کمپنیوں کے نمایندے جوق در جوق آئے۔ ملاقاتیں شروع ہوئیں تو اندازہ ہوا کہ زیادہ تر درمیانے درجے کے انتظامی کمرشل آفیسرز تھے، جو اپنی اپنی کمپنی کی مصنوعات کی فروخت کے لیے کمپنیوں سے براہ راست رابطے کے لیے آئے۔
تین چار درجن نمایندوں سے ملاقات کے بعد یہ بھید کھلا کہ ان میں سے کسی ایک کی بھی آمد کا مقصد پاکستان میں سرمایہ کاری نہ تھی۔ ان کے لیے یہ سرمایہ کاری کانفرنس ایک ٹریڈ شو کی طرح تھی جہاں انھیں اپنی مصنوعات بیچنے سے غرض تھی اور نئے گاہکوں سے تعارف کا ایک نادر موقع۔ یوں کم از کم ہمارے سیکٹر کی حد تک یہ ساری مشق سرمایہ کاری کے سوا ہر چیز تھی!
کچھ ایسی ہی فیڈ بیک بہت سے دیگر سیکٹرز سے متعلق ساتھیوں سے بھی ملی۔ تاہم چند ہمراہی مطمئن تھے کہ انھیں اپنے کاروبار سے متعلق کچھ اچھے روابط اور امکانات ملے۔ مجموعی طور پہ ہمراہیوں کا اجماع تھا کہ سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی ٹرانسفر یا چینی کمپنیوں کے پاکستان میں ری لوکیٹ کرنے کے بنیادی مقصد کے اعتبار سے کمپنیوں کی طرف سے دلچسپی سامنے آئی اور نہ ایسی تجاویز سامنے آئیں۔ شاید دو۔ چار ایسی مثالیں ہوں مگر ہمارے علم میں نہیں۔
وزیراعظم کے حالیہ دورے کا آغاز شینزن سے کرنا ایک طرح کا اعتراف تھا کہ پاکستان چین کے اقتصادی ماڈل کی کامیابی کو فالو کرنا چاہتا ہے۔ شینزن 1980 سے پہلے ماہی گیروں کی ایک بستی تھی۔ چین کی ریلوے کا آخری اسٹیشن جس کے بعد ساحل اور نزدیک ہی ہانگ کانگ۔
1980 میں چین نے پہلی بار شینزن کو ایک اسپیشل اکنامک زون کے طور پر متعارف کرایا۔ ہانگ کانگ جو کہ شہری حدود میں پھنسا ہوا تھا وہاں کے سرمایہ کاروں نے دوڑ لگا دی۔
دونوں شہروں کے درمیان آدھ گھنٹے کا ٹرین سفر ہے۔ ابتداء میں چین نژاد سرمایہ کار دنیا بھر سے کھنچے چلے آئے۔ اپنے ساتھ سرمایہ بھی لائے، ٹیکنالوجی بھی لائے نئی ایجادات کا سامان بھی لائے اور اپنے ساتھ پروجیکٹ مینجمنٹ کی مہارت بھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے شینزن نے کمال دکھایا۔ اس کے بعد چین کی حکومت نے کم از کم نصف درجن مزید ساحلی شہرا سپیشل اکنامک زون کے طور پر متعارف کروائے۔ اور یوں 90 کی دہائی میں چین کا اقتصادی منظر نامہ تیزی سے بدلنا شروع ہوا۔ وہ معاشی اور اقتصادی ترقی جسے حکومت پاکستان اور وزیراعظم شہباز شریف فالو کرنا چاہتے ہیں اس ترقی کے پھیلاؤ اور وسعت نے دنیا کو حیران کر دیا۔
جب تک مقامی سرمایہ کار اپنے ملک کی اقتصادی ترقی کا ہراول دستہ نہیں بنیں گے بیرونی سرمایہ کاری کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا مشکل ہے۔ موجودہ حکومت کا حکومتوں کے مابین سرمایہ کاری حاصل کرنے کی کوششیں اپنی جگہ لیکن پائیدار اقتصادی اور صنعتی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ مقامی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیا جائے، بزنس ماحول موافق اور بیوروکریسی کے چنگل سے آزاد کیا جائے، قانونی اور انتظامی ماحول موافق بنایا جائے۔ نوجوانوں میں ٹیکنیکل ایجوکیشن کو پروموٹ کیا جائے، تعلیم اور ٹیکنالوجی کو عالمی معیار تک لانے کی ضرورت ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعلیم ڈگریوں کی سستی خرید و فروخت کا شکار ہو چکی ہے، ایسے میں عالمی معیار کی تعلیم اور ٹیکنالوجی کا فقدان نوجوانوں میں بڑھ گیا ہے۔ ان تمام عناصر کو سنجیدگی سے اور لانگ ٹرم پلان کے تحت سوچنے اور عمل پیرا ہونے سے ہی ایک پائیدار اقتصادی ترقی کا عمل شروع ہو سکے گا وگرنہ جو چاند اپنا نہیں، کسی اور کا چاند ہو، وہ جہاں سے بھی نکلے کیا فرق پڑتا ہے!