یوم آزادی کی مناسبت سے 13 اور 14اگست کو اخبارات میں وفاقی اور سرکاری حکومتوں کی طرف سے اشتہارات کی بھرمار تھی۔ ایک نمایاں نقطہ ہم نے یہ محسوس کیا 13 اگست کو چند سرکاری اشتہارات میں تحریک آزادی کے زعما میں قائد اعظم اور علامہ اقبال کے علاوہ چوہدری رحمت علی، محترمہ فاطمہ جناح اور سرسید کی تصاویر بھی دیکھیں۔ تاہم 14 اگست کو تصاویر کی تعداد فقط قائد اعظم، علامہ اقبال اور ایک آدھ صورت میں سر سید تک محدود ہوگئی۔ تحریک آزادی کے دیگر زعما کا نہ کہیں ذکر تھا نہ تصویر تھی۔ البتہ آزادی کی پاسداری کا سہرا ہر اشتہار کنندہ اپنی تصویر کے ذریعے لینے پر مصر تھا۔
ایک اور اہم نکتہ گزشتہ کئی سال کی طرح اس برس بھی ہم نے دیکھا کہ تحریک پاکستان کے زعما میں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے تحریک آزادی کے نمایاں لیڈرز کا ذکر بالکل غائب پایا۔ تحریک پاکستان کے لیے آل انڈیا مسلم لیگ کو کریڈٹ جاتا ہے۔ کسے یاد نہیں کہ 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام ڈھاکا میں عمل میں آیا۔ تحریک پاکستان میں مشرقی بنگال کے زعما کا کردار بھرپور اور فیصلہ کن رہا۔ ان نمایاں شخصیات میں مولوی فضل الحق، خواجہ ناظم الدین، حسین شہید سہروردی سمیت لا تعداد نام شامل ہیں۔
ہمارے ہاں یوم آزادی یا جشن آزادی کے جوش و خروش اور عمومی گفتگو میں میں یہ بات آہستہ آہستہ ذہنوں سے محو ہوتی جا رہی ہے کہ 1947 میں آزاد ہونے والا ملک دو حصوں پر مشتمل تھا: مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان۔ آبادی کے اعتبار سے مشرقی پاکستان کی آبادی قدرے زیادہ تھی، تاہم حکومت کا صدر مقام اور مرکزی دفاتر مغربی پاکستان میں قائم ہوئے۔ قانون ساز اسمبلی سے آئین بروقت تیار نہ ہو سکا جس سے پیدا ہونے والی سیاسی پیچیدگیوں نے ملک کو ایک نئی ڈگر پر ڈال دیا۔
سیاسی چال بازیوں، حکومت پر غیر منتخب افراد کے پراسرار قبضے، قانون کی من چاہی مرضی اور تشریح پر بزور اصرار اور مشرقی پاکستان پر سیاسی تفوق کے شوق نے مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے درمیان دوریاں پیدا کرنا شروع کر دیں۔ یہ سلسلہ بالآخر مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر منتج ہوا۔ سقوط ڈھاکا کے بعد مغربی پاکستان ہی مکمل پاکستان سمجھا اور ٹھہرایا جانے لگا۔ لیکن تاریخ سے انصاف کا یہ تقاضا ہے کہ ہم تاریخ کو صحیح تناظر میں سمجھیں کہ آزادی کے وقت پاکستان کے دو حصے مشرقی اور مغربی پاکستان تھے۔ آج ہم جس حصے میں ہیں وہ آزاد ملک کا ایک حصہ یعنی مغربی پاکستان پر مشتمل ہے۔
پاکستان کے دو لخت ہونے کی نوبت کیوں آئی؟ اس کی بہت سی وجوہات اور توجیہات ہیں۔ سرکار کے زیر اثر لکھی اور لکھائی جانے والی تاریخ میں کہیں"اپنوں کی بے وفائی" کا ذکر ہے اور کہیں اس واقعے کی ذمے داری بھارت کی "دشمن داری "کے سر ڈال دی جاتی ہے۔ یوں تعلیمی اداروں اور میڈیا پر اس واقعے کی تاریخ کے ذکر میں مغربی پاکستان یا آج کا پاکستان بالعموم معصوم بلکہ مظلوم بتایا جاتا ہے۔ تاہم حقیقت مختلف ہے، تالی بجانے میں دونوں ہاتھ کام آتے ہیں۔ سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی کے بقول:
جیویں نبھدی پئی اے گزرن ڈے کوئی میڈا سوچ وچار نہ کر
نہ پچھ ایہ حالت کئیں کیتی ہمدردی دا اظہار نہ کر
ہن لوک سیانے سمجھ ویسن میڈے درداں دا پرچار نہ کر
متاں پہلا مجرم توں ہوویں چن شاکر دا نروار نہ کر
(میری جیسے تیسے گزر رہی ہے، میری فکر نہ کر اور نہ ہی یہ پوچھنا کہ اس حالت تک کس نے پہنچایا، اپنی ہمدردی اپنے پاس رکھو۔ میرے درد کا خواہ مخواہ پرچار نہ کرو، لوگ سمجھدار ہیں جان لیں گے۔ شاکرکے ساتھ انصاف کی ضد نہ کرو، ہو سکتا ہے پہلا مجرم تو ہی ہو!)
اپنی تاریخ کے حوالے سے مختلف تعبیروں اور توجیحات کے جھنجھٹ میں تاریخ کی بے لاگ کتابیں بہت رہنمائی کر سکتی ہیں۔ ڈاکٹر فاروق عادل ایک معتبر صحافی ہیں جنھوں نے سیاست کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ان کا مشاہدہ، وسیع مطالعہ اور تجزیہ قابل قدر ہے۔ انھوں نے بی بی سی کے لیے تاریخ پاکستان کے گمشدہ اوراق کو نئے سرے سے کھوجنے کی کوشش کی، تحقیق اور مصدقہ حوالہ جات کے ساتھ ان کے یہ مضامین کتابی شکل میں بہ عنوان" ہم نے جو بھلا دیا" شایع ہوئے۔ (ناشر: قلم فاؤنڈیشن لاہور)
فہرست مضامین دیکھیں تو دو حصوں پر مشتمل ملک پاکستان کے سلگتے مسائل کا دھواں صاف دکھائی دیتا ہے، واشنگٹن براستہ ماسکو، سندھی مہاجر کشمکش کی پہلی اینٹ، آٹے کا گھاٹا، پرواز میں کوتاہی، انصاف کا قتل، ون یونٹ اور یونٹی، لہو لہان ایوان، عشرہ ترقی سے چینی چوری تک، جب ٹوٹ گیا سلسلہ تکلم کا۔
تاریخی حقائق سے مزین اس کتاب سے ایک اقتباس: ۔۔ آئین اور جمہور کی حکمرانی اور طاقتور طبقات کی ملی بھگت کے خلاف ایک ہی ادارے یعنی عدلیہ سے توقع تھی لیکن یہ ادارہ بھی انھی قوتوں کے ساتھ مل کر اقتدار کی کشمکش میں حصے دار بن گیا۔
آئین ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین خان نے گورنر جنرل کے قانون ساز اسمبلی توڑنے کے فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ عدالت نے گورنر جنرل کے حکم کو کالعدم قرار دے دیا۔ مرکزی حکومت فیصلے کے خلاف فیڈرل کورٹ چلی گئی جس نے قرار دیا کہ آئین ساز اسمبلی کی تحلیل کا اقدام درست تھا۔ فیصلے کا سب سے کمزور پہلو یہ تھا کہ 65 صفحات کے فیصلے میں ایسی کوئی فائنڈنگ نہیں ملتی کہ آیا گورنر جنرل اسمبلی توڑنے کا اختیار رکھتے بھی ہیں یا نہیں!
قانون کو موم کی ناک بنانے میں شامل مہم جوؤں نے دونوں حصوں کے درمیان قانون، انصاف اور سیاسی عمل کی فوقیت کو تسلیم کرنے کے بجائے ہر وہ حربہ اختیار کیا جس سے دوریاں اور تلخیاں بڑھیں۔
پاکستان کے موجودہ سیاسی ماحول میں تلخیاں، بد اعتمادی اور عدم برداشت نئی حدوں کو چھو رہی ہے۔ تاریخ کا ٹھنڈے دل و دماغ کا جائزہ ہمیں برداشت، اجتمائی رواداری اور با اعتماد سیاسی عمل کی راہ سجھا سکتا ہے۔ یوم آزادی ہو یا سقوط ڈھاکا یا یوم پاکستان، یہ تمام دن ہماری تاریخ کے جھروکوں میں بلا تعصب اپنے گریبان میں جھانکنے اور ان تمام زعما کو یاد کرنے کا ذریعہ ہیں جنھوں نے آزادی کا خواب دیکھا، خون جگر سے خواب کی تعبیر حاصل کی۔ یہ ہمارے عظیم مہربان اور ان کے خواب، جد و جہد اور احسانات بھلائے جانے والے تو نہیں!