پاکستان کو بین الاقوامی منڈیوں میں غیر مسابقتی بنانے کے ساتھ ساتھ مقامی صارفین کی فلاح و بہبود کو بری طرح متاثر کرنے والے عوامل میں اِن پٹ کی کمی اور قابلِ کاشت رقبہ کی کمی جیسے عوامل شامل ہیں جو ٹوٹل فیکٹر پروڈکٹیوٹی (TPF) اوور ٹائم میں کمی کا باعث بن رہے ہیں۔
دوسری طرف کیمیائی کیڑے مار ادویات اور کھاد کے حد سے زیادہ استعمال نے قدرتی وسائل جیسے مٹی، پانی، ہوا اور خوراک کے معیار اور حفاظت کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ مسلسل بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت، کم اوسط پیداوار اور کم معیار کی پیداوار مشترکہ طورپر درآمدی مصنوعات کو ہماری مقامی منڈیوں پر قبضہ کرنے کے لیے جگہ فراہم کر رہی ہیں۔ زراعت کے شعبے کے لیے ایک اہم ان پٹ ہونے کی وجہ سے پانی نایاب ہوتا جا رہا ہے لیکن پاکستان میں فصلوں کی پیداوار کے نظام میں پانی کے استعمال کی کارکردگی انتہائی کم ہے۔
تجرباتی شواہد بتاتے ہیں کہ کچھ بہترین اور زرخیز زمینیں کاشت سے باہر ہو چکی ہیں لیکن آبادی اور فی کس آمدنی میں اضافے کی وجہ سے خوراک کی طلب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ طلب اور رسد کے درمیان بڑھتا ہوا فرق مستقبل میں غذائی تحفظ اور غربت کے خاتمے کی حکمت عملیوں کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ اِس صورتِ حال میں زرعی شعبے کو درپیش مذکورہ بالا مسائل اور چیلنجز کو سنجیدگی کے ساتھ حل کیا جانا ازحد ضروری ہے، دوسری صورت میں بظاہر حالات ایسے ہی ہیں کہ نہ صرف آنے والی نسلوں کا غذائی تحفظ خطرے میں پڑجائے گا بلکہ اس کے نتیجے میں مینوفیکچرنگ سیکٹر میں ترقی کی رفتار بھی کم ہوجائے گی اور تجارتی خسارہ اور توازنِ ادائیگی میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
میکرو اور مائیکرو لیول کی ساختی تبدیلیاں زرعی شعبے کو زندہ کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ زرعی شعبے میں پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے کم سرمایہ کاری زراعت کے شعبے میں جدت اور سماجی و اقتصادی ترقی میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ لہٰذا زراعت میں نجی سرمایہ کاری کے ساتھ سبسڈی سے ہٹ کر کام اور مسائل کے حل کی تحقیق کی ضرورت ہے۔
زراعت کو کمرشلائزیشن میں تبدیل کرنے کے لیے incubators کا قیام، اور دیہی معیشتوں کو شہروں سے جوڑنے کے لیے دیہی انفراسٹرکچر کو ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ زراعت پر مبنی پیشہ ورانہ تربیتی اداروں کے ذریعے دیہی تعلیمی نیٹ ورک کی توسیع دیہی عوام کی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔
یہ حکمت عملی نہ صرف فرسودہ توسیعی نظام اور درآمدی اختراعات پر انحصار کم کرنے کا باعث ہوگی بلکہ زرعی value chains کو بہتر بنا کر Value addition کا باعث ہوگی۔ زرعی شعبے میں تحقیق اور جدت کا عمل مسابقت میں
اضافے، مستقبل میں غذائی تحفظ کو یقینی بنانے اور تجارتی خسارے کو کم کرنے کا باعث بنیں گی۔ زراعت کے شعبے میں عوامی سرمایہ کاری کو براہ راست سبسڈی سے مسائل کے حل کی تحقیق کی طرف منتقل کرنا، پیداواری ٹیکنالوجیز کی ترقی، دیہی انفراسٹرکچر، سٹیک ہولڈرز کی استعداد کار میں اضافہ، زراعت پر مبنی پیشہ ورانہ اداروں اور انکیوبیٹرز کا قیام، اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو مضبوط بنانا زراعت کے شعبے کو دوبارہ زندہ کرنے میں مدد کا باعث ہوگا۔
اگرچہ ملک کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) میں زراعت کا حصہ کم ہو رہا ہے، تاہم اب بھی یہ روزگار میں سب سے بڑا حصہ دار ہے۔ غیر ہنر مند اور غیر تعلیم یافتہ افرادی قوت کے لیے روزگار کا بنیادی ذریعہ زراعت ہے۔ زراعت میں سرمایہ کاری سے غذائی عدم تحفظ، غربت، غیر ہنر مند اور غیر تعلیم یافتہ افرادی قوت اور صنعتوں بالخصوص ٹیکسٹائل اور چمڑے کی صنعتوں کے لیے خام مال کی کمی جیسے چیلنجز سے نمٹا جاسکتا ہے۔
ان حقائق کی بنیاد پر زراعت ایک پائیدار بنیادوں پر بہت کم وقت میں معیشت کو متحرک کردینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ زراعت کے شعبے کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے کاشتکار وں کو بلاسود قرضوں کی فراہمی، مارکیٹنگ اور مارکیٹ کے کمزور ڈھانچے کی ترقی، مؤثر سپلائی چین مینجمنٹ کا قیام، زمینی اصلاحات اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی صلاحیت کو فروغ دینے جیسے اقدامات فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔ کسانوں کی اکثریت چھوٹے زمینداروں پر مشتمل ہے- ان میں سے تقریباً 90 فیصد کے پاس 5 ہیکٹر سے کم زمین ہے، اس لیے وہ سرپلس پیداوار کے لیے حکومت کی طرف سے خاطر خواہ کریڈٹ سہولت کے بغیر نہیں جا سکتے۔
ماضی میں حکومتوں نے کاشتکاروں کے لیے مختلف کریڈٹ سکیمیں متعارف کرائیں لیکن ان کا خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکا۔ اس کی بنیادی وجہ سود پر مبنی قرضے تھے۔ زیادہ تر کسان اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں اور وہ سود پر قرض نہیں لینا چاہتے۔ اس لیے موجودہ حکومت کو ایک ایسی کریڈٹ سکیم متعارف کرانی چاہیے جو سود جیسی لعنت سے پاک ہو۔ اب تو وفاقی شرعی عدالت کا سود ی معیشت کے خلاف فیصلہ بھی آچکا ہے۔ زراعت کو فروغ دینے کے حوالے سے دوسرا بڑا شعبہ جس پر پالیسی اور عمل درآمد دونوں لحاظ سے توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ مارکیٹنگ اور مارکیٹ کا ڈھانچہ ہے۔ زراعت کی مارکیٹنگ کمزور ترین ہے۔
چھوٹے کسان مارکیٹنگ میں سرمایہ کاری کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے، اس لیے حکومت کو کسانوں کی مدد کے لیے آلات متعارف کرانے ہوں گے۔ زرعی توسیع اور مارکیٹنگ کے محکموں کی تنظیم نو (انضمام) اور سول سوسائٹی کی تنظیموں اور چیمبرز آف کامرس کی شمولیت کے ذریعے زراعت کی مارکیٹنگ اور مارکیٹ ڈھانچے میں انقلابی تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں۔
مارکیٹنگ اور مارکیٹ ڈھانچے میں حکومتی مداخلتیں دو طرح کی ہونی چاہئیں: (1) کسانوں کی پالیسی سازی/ فیصلہ سازی اور عمل درآمد میں شمولیت؛ اور (2) مارکیٹ سہولیات کی اپ گریڈیشن۔ اسی طرح بازاروں میں کولڈ سٹوریج کی سہولیات کا فقدان ہے، جو زرعی مصنوعات کے لیے لازمی شرط ہے۔ زیادہ تر زرعی مصنوعات جیسے سبزیاں، پھل اور دودھ کولڈ سٹوریج اور ذخیرہ کرنے کی مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہوجاتی ہیں۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ زرعی اجناس کی شیلف لائف کو بہتر بنانے کے لیے ذخیرہ اندوزی میں سرمایہ کاری کرے۔
سپلائی چین مینجمنٹ اور ٹرانسپورٹیشن بھی وہ اہم شعبے ہیں جو زراعت کی ترقی کے لیے بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ پاکستان اب بھی نقل و حمل اور سپلائی چین مینجمنٹ کے فرسودہ ذرائع استعمال کر رہا ہے۔ زرعی مصنوعات کی ترسیل کے لیے جدید ترین ٹرانسپورٹ سسٹم کی ضرورت ہے۔ ٹرانسپورٹ کے نظام کو حفظان صحت کے جدید معیارات اور کولڈ سٹوریج کی مناسب سہولیات سے آراستہ کرنے کے لیے نقل و حمل کا جدید نظام مصنوعات کی شیلف لائف اور مانگ کو بڑھانے اور ملکی برآمدات کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہونے کیساتھ ساتھ زرمبادلہ کمانے کا ایک اچھا ذریعہ بن سکتا ہے۔
حکومت کو سڑکوں کے بنیادی ڈھانچے اور معیاری ٹرانسپورٹ سسٹم میں بھی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کی مدد لے کر فوڈ اور فروٹ پروسیسنگ انڈسٹری کو وسیع پیمانے پر قائم کرنے میں مدد دی جاسکتی ہے۔ تاہم نجی شعبے کو راغب کرنے کے لیے حکومت کو کولڈ سٹوریج کی سہولت کے ساتھ ٹرانسپورٹ گاڑیوں کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ جیسے کچھ مراعات پیش کرنا ہوں گی۔ حکومتی مداخلت کا سب سے اہم اور بنیادی شعبہ زمینی اصلاحات سے متعلق ہے۔
یہ زرعی شعبے اور مجموعی معیشت کی بامعنی بحالی کی کلید ہے۔ اس حوالے سے ہمارے دیرینہ دوست اور پڑوسی ملک چین کے تجربات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے جس نے زراعت کے شعبے میں زمینی اصلاحات متعارف کراکر زرعی انقلاب برپا کیا اور بالخصوص دیہی علاقوں میں غربت کی سطح کو کم کر کے فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنایا۔ پاکستان میں زرعی شعبے کے حوالے سے زمینی اصلاحات کے لیے کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔
اگر حکومت حقیقی جذبے کے ساتھ زرعی شعبے میں زمینی اصلاحات متعارف کراتی ہے تو یہ زرعی شعبے کی پائیدار ترقی کے لیے ایک اہم سنگِ میل اور انقلابی اقدام ہوگا۔