اس وقت عالم اسلام اور ہمارا پیارا ملک بدترین اور مہلک ترین وباءکی لپیٹ میں ہے اس لیے اس کے تحفظ اور بچاؤ کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑا کر دعائیں اور فریادیں کریں۔ یہ ایسی مہلک وبا ہے جس نے دنیا کے ہر خطے، ہر علاقے، ہر براعظم، حتیٰ کہ ہر ملک کو اپنی مہلک ترین گرفت میں لے رکھاہے اور دنیا بھر میں بلاامتیاز رنگ و نسل اور مذہب و ملت بھاری تعداد میں لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ چین ہو یا امریکہ، روس ہو یا ایران، اٹلی ہو یا جرمنی، سپین ہو یا فرانس، ہر جگہ موت ناچ رہی ہے۔ پاپائے روم کا گرجا گھر ہو یا مسلمانوں کے نہایت مقدس مراکز مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ، بھارت کے مندر ہوں یا فلپائن و برما کے بدھ مراکز، سبھی میں مہلک وبا کا راج ہے اور نہ صرف انہیں بند کر دیا گیاہے بلکہ ان مقامات کے اندر اور باہر ہر جگہ مرگ ناگہانی رقص کر رہی ہے۔
بیماری کا آغاز چونکہ سب سے پہلے چین میں ہوا اس لیے دنیا کی سب سے بڑی طاقتور ریاست امریکہ کے بڑبولے سربراہ نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، چین پر الزام تراشیاں شروع کردیں اور وبا کو چینی وائرس قرار دے دیا لیکن یہ دنیا دار صدر کیا جانے کہ زمین ہو یا آسمان، ہوائیں ہوں یا فضائیں، پہاڑ ہوں یا دریا، صحرا ہوں یا جنگل، ہر جگہ اور ہر کہیں اصل حکمرانی رب ذوالجلال و الاکرام کی ہے بلکہ چاند ہو یا ستارے، سبھی اس کی فرمانروائی کی دسترس میں ہیں۔
روس نے پہلاخلائی جہاز خلا میں بھیجا، واپس آ کر اس کے پائیلٹ نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہاکہ میں نے خلا میں نہ صرف سیر کی ہے بلکہ کئی مقامات پر گھوما پھرا بھی ہوں لیکن وہاں کسی خدا سے ملاقات نہیں ہوئی۔ امریکی جہاز میں مریخ پر جانے والی خاتون نے بھی بعینہ یہی الفاظ ادا کرتے ہوئے کہاکہ میں بیس دنوں تک وہاں رہی ہوں لیکن وہاں خدا، رام یا اللہ تعالیٰ نام کی کوئی شے نہیں بس ہمارے جیسے حالات ہیں کہیں نہ کہیں کوئی مخلوق بھی ضرور آباد ہو گی جو نظر نہیں آئی۔ خلائی پائیلٹس کی ایسی گفتگو اور دین سے بے زاری اور بیگانگی پر مبنی ایسے تاثرات کی اشاعت کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیائے دوں کی اکثریت دین ومذہب سے بیگانہ اور الوہیت کی موجودگی سے یکسر منکر ہوگئی ہر طرف باطل دندنانے لگا۔ روحانیات سے منکر اور دین و مذہب سے برگشتہ لوگوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ اخبارات اور جرائد کے صفحات بے دینی پر مبنی تحریرات سے بھر گئے۔ چینلز نے چیخنا چنگھاڑنا شروع کردیا حتیٰ کہ دین متین کے پختہ اور پکے حامی لوگوں کے ذہنوں میں بھی ابہام نے ڈیرے ڈال لیے اور ایمان والوں کے یقین و ایمان کی دولت کسی حد تک لٹتی نظر آنے لگی لیکن اس کے برعکس یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ مکہ و مدینہ میں عمرہ اور حج پر جانے والوں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہونے لگا۔ ہر سال تعداد بڑھنے لگی، انڈونیشیا جیسے دو ر افتادہ ملک سے اتنی تعداد میں لوگ مقامات مقدسہ کی زیارات کے لیے جانے لگے کہ لوگ حیران و ششدر رہ گئے۔ پاکستان و ہندوستان سے اتنی بھاری تعداد میں لوگوں نے جانا معمول بنالیا کہ سعودیہ کو تعداد پر کسی حد تک پابندی لگاناپڑی، تاہم دین و مذہب سے بیگانہ حکمرانوں، سائنس دانوں او بے راہ رو لوگوں کی تعداد بھی بڑھتی ہی چلی گئی۔ کئی رشدی پیدا ہوئے۔ بے دین خاکہ نگار سامنے آئے اور انہوں نے مضحکہ خیز خاکے بنا کر دنیا میں اودھم مچادیا۔
اب کی بار اللہ تعالیٰ نے اپنی نئی اور نرالی بلکہ انوکھی شان دکھائی، اپنا نیا رنگ ڈھنگ ظاہر کیا۔ ہاتھی یا شیر تو کجا مچھر بھی نہ بھیجا بلکہ نظر نہ آنے والی شے بھیجی جس کا نام عہد حاضر کے سائنسدانوں نے کورونا وائرس رکھاہے جو نہ تو دکھائی دیتاہے اور نہ اس کا کوئی رنگ ڈھنگ ہے وہ تو بس حملہ کرتاہے اور حضرت انسان اس کے سامنے سر جھکا کر ڈھیر ہو جاتاہے اور پھر زمین پر گر کر موت کے منہ میں چلاجاتاہے۔ چین کے بعد یہ وائرس کسی نہ کسی طرح ایران چلا گیا اور اس کے بعد اس نے اٹلی اور سپین میں اپنے رنگ دکھائے۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں مردان تہذیب و ہنر مرنے لگے۔ فرانس اور جرمنی بھی کسی سے پیچھے نہ رہے۔ اس موقع پر ٹرمپ صاحب فرعون کے انداز میں بیانات کے شعلے اگل رہے تھے کہ کسی طرح وائرس وہاں بھی پہنچ گیا۔ مرنے والوں کی گنتی شروع ہوگئی پہلے تو کچھ بڑھنے لگی پھر بڑھتی چلی گئی اب یہ حالت ہے کہ دنیا میں مرنے والوں کی زیادہ تعداد مہذب امریکی بہادروں کی ہے بلکہ یہ تعداد ہر روز بڑھتی ہی جارہی ہے۔ دنیا بھر میں اب تک سوا لاکھ کے قریب ترقی یافتہ اور باہنر لوگ ترقی معکوس کا سفرطے کر کے قبروں کے گڑھوں میں جاچکے ہیں بلکہ بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے والی کیفیت ہے۔
آمد بر سر مطلب!
اب وقت دعا و استغفار ہے۔ اٹھو اور سجدہ ریز ہو جاؤ! اپنے معبود حقیقی کے سامنے جھک جاؤ۔ سر تسلیم خم کردو اور اس کے حضور گڑ گڑا کر دعائیں کرو۔ دل کی گہرائیوں سے گڑ گڑاؤ، گریہ زاری اور آہ و بکا کو اپنا شعار بنا لو اور رب رحیم و کریم سے اس کی رحمتوں کی طلب کرو۔ وہ سننے والا اور ماننے والا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس نے 313کی قلیل تعداد کو ( جو بے سروساماں تھے ) ایک ہزار اسلحہ سے لیس اور طاقت و عظمت سے لبریز جابر و مغرور لوگو ں پر فتح عنایت فرمائی تھی۔ ہاں وہی خدائے بزرگ و برتر تھا جس نے طارق بن زیادہ کو سپین میں فاتح قرار دیا اور محمد بن قاسم کو سندھ کے مغرور حکمران پر غالب فرمایا۔ بقول حکیم الامت علامہ اقبال ؒ، دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں اور کبھی افریقہ کے تپتے صحراؤں میں۔ یہ توکل کی باتیں ہیں اور آپ شاید انہیں تاریخ کے اوراق کہیں گے۔ ابھی 70-80 سال پہلے علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر کے لیے انگریزی لباس میں ملبوس اور فر فر انگریزی بولنے والا محمد علی جناحؒ سامنے آیا اور اس نے انگریز کی باجبرو ت اور مضبوط و مستحکم حکومت کو چیلنج کر دیا۔ ایک کروڑ ہندوؤں اور سکھوں کی مسلح تعداد کو للکارا اور ہمیں وہ خطہ لے کر دیا جسے ہم مملکت خداداد کہتے ہیں۔
آئیے اسی مسجود حقیقی کے سامنے سر بسجود ہو جائیں، روئیں، صدق دل سے فریاد کریں، اشکبار ہو کر گڑ گڑائیں اور عرض کریں، تو نے ہر مشکل وقت میں ہم عاجز اور لاچار لوگوں کی مدد کی۔ ہمیں کفر و باطل کے بالمقابل فتح و نصرت عطا کی۔ مشرق و مغرب میں ہمیں سرفراز کیا۔
رحم کر! اپنے نہ آئینِ کرم کو بھول جا
ہم تجھے بھولے ہیں لیکن تو نہ ہم کو بھول جا