روزہ اہل ایمان میں تقویٰ کی صفت پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے اسی لیے روزے اہل ایمان پر فرض کیے گئے ہیں۔ روزہ بے مثل عبادت ہے۔ سیدنا ابوامامؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے ایسے کام کا حکم دیں جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مجھے فائدہ پہنچائے۔ آپ نے فرمایا "روزہ رکھ اس جیسا کوئی عمل نہیں۔" انسان کی جو تربیت نماز کے ذریعے سے ہوتی ہے اس میں مزید نکھار اور روحانی وجسمانی تربیت روزوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ روزہ تقویٰ اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ روزہ انسان کے تزکیہ نفس میں اہم کردار ادا کرتاہے۔ روزہ بندہ میں حضوری کی کیفیت پیدا کرتاہے اور اس جذبے کو پختہ کرتاہے کہ اللہ ہر لمحہ ہمیں دیکھ رہاہے۔
تقویٰ کے ذریعے بندہ مومن ایمان کی تکمیل اور ترقی وسربلندی کی منازل تیزی سے طے کرتاہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت شعاری اور بندگی کا جذبہ مزیدگہرا ہوتاہے۔ روزہ کی مشقت تقویٰ کے حصول کا ذریعہ ہے اس بنیاد پر ایمان کے تقاضے پورے کرنے اور روحانی فوائد و فیوض و برکات حاصل کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ انسان تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اپنے اللہ کے احکامات کو بجا لائے، اُس کی اطاعت کرے، گناہوں سے بچے، جو شخص گناہ نہیں چھوڑتا اور اپنے دامن کو سیئات سے نہیں بچاتا وہ متقی اور پرہیز گار نہیں ہے۔ تقویٰ دین اسلام کی اساس ہے۔ اس کے بغیر احکامات الٰہیہ کما حقہ ادا نہیں کیے جاسکتے اور نہ ہی اس کے بغیر انسان اللہ سے اپنا تعلق مضبوط کرسکتاہے۔ تقویٰ اللہ کے ہاں بڑا محبوب ہے چنانچہ اللہ نے تقویٰ کی راہ اختیار کرنے کا حکم دیاہے۔ قرآن کریم کی سورة الحشر آیت نمبر18میں ارشاد ہوا ہے "اے ایمان والواللہ سے ڈرواور ہر آدمی دیکھ لے کہ اُس نے کل (یعنی روز قیامت ) کےلئے کیا تیاری کی ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ تمہارے اعمال سے پوری طرح باخبر ہے"۔ اس آیت کریمہ میں قرار دیا گیاہے کہ تقویٰ کے ذریعے تعلق بااللہ کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے۔ اہل ایمان کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ظاہر و باطن میں یعنی ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہیں، فرائض اور واجبات کی ادائیگی کا اہتمام کریں اور اور ہر وقت اپنی آخرت کی سدھار کی کوشش میں لگے رہیں۔ زندگی کا یہ اسلوب بن جائے کہ اللہ تعالیٰ میرے اعمال دیکھ رہاہے اور میرے اعمال ریکارڈ ہو رہے ہیں کوئی چیز بھی اللہ سے مخفی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے (سورة آل عمران 102) میں فرمایا ہے کہ "اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیساکہ اُس سے ڈرنے کاحق اور تمہاری موت آئے تو اسلام پر آئے۔" سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ نے تقویٰ کے معنی و مفہوم ایسے بیان کئے ہیں کہ اللہ کی اطاعت کی جائے، اُس کی نا فرمانی نہ کی جائے، اُسے یاد کیا جائے، بھولا نہ جائے، اُس کا شکر ادا کیا جائے، ناشکری نہ کی جائے۔
تقویٰ اللہ سے دوستی کا بہترین ذریعہ ہے۔ جو لوگ اللہ پر کامل ایمان رکھتے ہیں، اور ہر لمحہ تقویٰ کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن سے محبت کرتاہے اور اُن سے دوستی کرتاہے۔ تقویٰ دعوت دین اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی فرضیت کی ادائیگی کے لیے ناگزیر ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (سورة آل عمران، آیت 105-104) "تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پانے والے ہیں کہیں تم اُن لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایت پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے۔" قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ (آل عمران آیت ۱۱۰) میں تقویٰ کی راہ پر گامزن اُمت کی فضیلت کی وجہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ "اب دنیا میں تم وہ بہترین گروہ ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیاہے اور تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہواور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔" ختم المرسلین رسول اللہ کے پیروؤں کو بتایا گیا ہے کہ دنیا کی امامت و رہنمائی کے جس منصب سے بنی اسرائیل اپنی نا اہلی کے باعث معزول کیے جا چکے ہیں اس پر اب تم مامور کئے گئے ہو۔ اس کےلئے اخلاق و اعمال کے لحاظ سے اب دنیا میں تم سب سے بہترین گروہ ہو اور تم میں وہ صفات پیدا ہونی چاہئیں جو عادلانہ نظام و امامت کےلئے ضروری ہیں یعنی نیکی کو قائم کرنے اور بدی کو مٹانے کا جذبہ، لہٰذا اب یہ کام اُمت مسلمہ کے سپر د کیاگیاہے۔ اہل تقویٰ، دعوت وتنظیم اور قیادت و نظام کی تبدیلی کی جدوجہد کرنے والوں کےلئے لازم ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اُن غلطیوں سے بچیں جن کی وجہ سے اہل حق ناکامی کا شکار ہوتے رہے ہیں۔
اسلامی اخلاقیات کے چار مراتب ہیں۔ جن امور کو ہم اسلامی اخلاقیات سے تعبیر کرتے ہیں وہ قرآن و حدیث کی رُو سے چار درجات پر مشتمل ہیں۔ ایمان، اسلام، تقویٰ اور احسان۔ یہ چاروں مراتب ایک دوسرے کے لیے فطری تربیت کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہر مرتبہ اور درجہ پہلے سے پیدا اور لازماً اُسی پر قائم ہوتاہے اور جب تک پہلی منزل پختہ اور مستحکم نہ ہوجائے دوسری منزل کی تعمیر کا تصور نہیں کیاجاسکتا۔ اس پوری عمارت میں ایمان کو بنیادکی حیثیت حاصل ہے۔ اسی بنیاد پر اسلام کی منزل تعمیر ہوتی ہے پھر اس کے اوپر تقویٰ کی منزل اور سب سے اوپر احسان کی منزل اُٹھتی ہے۔ ایمان نہ ہو تو اسلام و تقویٰ یا احسان کا سرے سے کوئی امکان ہی نہیں ہوسکتا۔ ایمان کمزور ہو تو اس پر کسی دوسری منزل کا بوجھ نہیں ڈالاجاسکتا اگر زبردستی کوئی منزل کھڑی بھی کردی جائے تو وہ بہت کمزور ہوگی۔ اگر ایما ن محدود، تنگ اور سطحی ہو تو اسلام، تقویٰ اور احسان بھی بس انہی حدود تک محدود رہیں گے، جب تک ایمان پوری طرح، پختہ اور وسیع نہ ہوکوئی مردِ عاقل جو دین کا فہم رکھتا ہو اسلام، تقویٰ یا احسان کی منازل کی تعمیر کا کام نہیں کرسکتا۔ اس لیے تقویٰ کےلئے ناگزیر ہے کہ ایمان پوری گہرائی اور پختگی سے موجود ہو، اسی لیے تقویٰ سے پہلے اسلام اور احسان سے پہلے تقویٰ کی تعلیم، پختگی اور توسیع ضروری ہے۔ ایمان و تقویٰ کے حوالہ سے اسلامی عقیدہ کی وضاحت بھی ناگزیر ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق بعض اُمور ایسے ہیں جن پر ایمان لانا ہر مسلمان کے لیے لازم ہے۔ یہ تمام اُمور ایسے ہیں جو عقل سے معلوم نہیں کیے جاسکتے بلکہ یہ صرف وحی کے ذریعے ہی معلوم ہوسکتے ہیں۔ تقویٰ کی تفصیل قرآن مجید اور صحیح احادیث میں بیان کی گئی ہے۔ تقویٰ کے لیے درج ذیل چھ اُمور پر ایمان لانا ناگزیراسلامی بنیادی عقیدہ ہے۔ اللہ پر ایمان، فرشتوں پر ایمان، کتابوں پر ایمان، انبیاءاور رسولوں پر ایمان، آخرت پر ایمان اور تقدیر پر ایمان، یہی اسلامی عقیدہ مختصر ہو کر کلمہ طیبہ یعنی ( لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ) اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں کا روپ دھار لیتاہے۔ ایمان اسلامی عقیدہ کی بنیاد ہے، ایمان اُس تصدیق کا نام ہے جس میں امن و اطمینان پایا جاتاہو۔ ایمان زبان کے اقرار اور دل سے اُس کی تصدیق کرنے کا نام ہے، اقبال کے الفاظ میں:
زباں سے کہہ بھی دیا لاالہ تو کیاحاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
غرض متقی انسان کے لیے ایمان و اسلام کی بنیادی رہنمائی سے بہرہ مند ہونا ضروری ہے تاکہ زندگی و آخرت کی کامیابی کی تگ و دو میں راہ راست حاصل ہو۔ اصل مطلوب تو یہی ہے۔ ایمان متقی انسان کو جرات اور بہادری سکھاتاہے۔ ایمان لانے سے انسان کے اندر حیرت انگیز طور پر جرات و بہادری کا جذبہ پیدا ہوتاہے اور تقویٰ کی راہ پر چلنے والے زبانِ حال سے کہتے ہیں :
کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے
(مولانا محمد علی جوہر)
شعوری طور پر ایمان و تقویٰ کی راہ اختیار کرنے والے کی شخصیت میں نکھار پیداہوتا ہے اورعظیم انقلاب سے روشناس ہو جاتاہے۔ وہ پہلے سے ایک مختلف انسان بن جاتاہے۔ شک شبہ اور وہم و گمان کی دنیا سے نکل کر یقین اور خود اعتمادی کی فضاءمیں بلند مقام اختیار کرتاہے۔ دنیا کی ہر طاقت کے سامنے جھکنے کی بجائے صرف ایک اللہ کے آگے جھکتاہے۔ متقین دنیا کو بڑی متاع سمجھنے کی بجائے آخرت کی کامیابی اورجنت کے حصول کو ہی اپنی اصل منزل اور متاع قرار دیتے ہیں۔
اہل تقویٰ کے لیے انعامات ربانی:
1۔ حقیقت میں تقویٰ کی راہ اختیار کرکے ہی بندہ اللہ کا محبوب بن جاتاہے۔
2۔ تقویٰ کی بناءپر اللہ کی معیت اور قرب ملتاہے۔ تقویٰ ایسا ذریعہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد فرماتاہے اور انہیں اپنی خاص رحمتوں سے نوازتاہے۔
3۔ تقویٰ اختیار کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکتوں کا نزول ہوتاہے۔
4۔ تقویٰ کی بدولت اللہ سے گناہوں کی معافی اور اجر عظیم کی توقع ہوجاتی ہے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ تقویٰ اختیار کرنے والے کے گناہ معاف کردیتا ہے اور ان کے لیے اجر عظیم کا وعدہ ہے۔
5۔ تقویٰ کی راہ سے ہی انسان کو نوربصیرت عطا ہوتاہے۔ دل میں تقویٰ و پرہیزگاری کا جذبہ موجزن ہوتو حق تعالیٰ برائی اور اچھائی کے درمیان فرق کرنے کی بصیرت عطا فرمادیتاہے۔
6۔ تقویٰ اختیار کرنے سے جہنم کی آگ سے بچاؤ کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ تقویٰ اختیار کرنے کی وجہ سے اللہ اپنے بندوں کو جہنم سے آزادفرمادے گا۔
7۔ تقویٰ کی راہ پر چلنے والے روزِ قیامت ابدی نعمتوں والی جنتوں کے وارث بنادیئے جائیں گے ان میں وہ خوش و خرم قیام پذیر ہوں گے۔
8۔ متقی لوگوں کے لیے اکرام الٰہی ہوگا۔ جو شخص جتنا زیادہ متقی، پرہیزگار یعنی اللہ اور اُس کے رسول کا فرمانبردارہوگا اتنا ہی وہ اللہ کے ہاں معززاور اونچا ہوگا۔ متقی آدمی اگرچہ خاندانی اعتبار سے پست ہوگا لیکن غیر متقی خاندانی آدمی پر فوقیت رکھتاہوگا۔