Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Mehkma Sehat, Zaboon Hali Se Bahali Ka Safar

Mehkma Sehat, Zaboon Hali Se Bahali Ka Safar

پاکستان کو قائد اعظم کے خوابوں کے مطابق، ایک مثالی اسلامی فلاحی مملکت بنانے کا وہی جذبہ، جہاں عام آدمی کو زندگی کی بنیادی سہولتیں (ریاست کی طرف سے) دستیاب ہوں، ظاہر ہے، صحت عامہ بھی ان میں شامل تھی۔

ایک ایسا معاشرہ قائد اعظم کے خوابوں کا معاشرہ نہیں ہوسکتا جہاں اشرافیہ کے پاس تو بہترین علاج، مہنگی ترین ادویات اور جدید ترین سرجری کے لیے وسائل موجود ہوں اور غریب آدمی علاج کے بغیر، ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائے، غریب آدمی جو اپنے خاندان کا واحد معاشی سہارا تھا اور جس کے بعد پسماندگان کے لیے زمانے کی ٹھوکریں رہ جائیں گی۔

گردوں کی بیماری بھی تیزی سے پھیلتے ہوئے امراض میں شامل ہے، ناقص غذا اور غیر صحت مند ماحول کی وجہ سے عام آدمی جن کا خصوصی نشانہ بنتا ہے۔ اپنے پہلے دور (1997-99) میں، گردوں کے مریضوں کے لئے ضروری طبی سہولتوں کی فراہمی بھی میرے ایجنڈے کا اہم نکتہ تھا، اس کے لیے سرکاری ہسپتالوں میں مفت ڈائلسز کی سہولتوں کا اہتمام کیا۔ لاہور کے شیخ زید بن سلطان النہیان ہسپتال میں اس سلسلے کی افتتاحی تقریب میں، وزیراعظم جناب محمد نوازشریف مہمان خصوصی تھے۔

12اکتوبرکے ٹیک اوور کے بعد جنرل مشرف نے ہمارے فلاحی ایجنڈے کے جن نکات پر خط تنسیخ پھیر دیا، اُن میں ڈائلسز کی مفت سہولت بھی تھی۔

2008 میں نئے جمہوری دور کے ساتھ پنجاب میں قدرت نے ایک بار پھر مسلم لیگ (ن)کو عوام کی خدمت کا موقع دیا۔ میاں نواز شریف صاحب کے ویژن کے مطابق عوامی فلاح و بہبود( اور قومی تعمیر و ترقی) ایک بار پھر ہمارے ایجنڈے کے اہم ترین نکات تھے۔ میں آج کے کالم میں عام آدمی کی صحت کے لئے اپنی حکومت کے بعض اقدامات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔

قصور کے دور ے میں یہاں کے ڈسٹرکٹ ہسپتال کا اچانک معائنہ(سرپرائز وزٹ)بھی شامل تھا۔ میں وہاں پہنچا تو یوں لگا جیسے کسی بھوت بنگلے میں آگیا ہوں۔ یہ ایک ایسا اونٹ تھا جس کی کوئی کل سیدھی نہ تھی۔ صفائی سُتھرائی کا فقدان، ادویات اور ضروری طبی آلات نام کو نہ تھے۔ انتظامی معاملات بھی نہایت افسوسناک، مریضوں کی کسمپرسی اور لاچارگی دیکھی نہ جاتی۔ میں ادویات کے سٹور میں گیا، تو وہاں کھڑا ہونا بھی محال تھا۔

صوبائی دارالحکومت کے قریب ترین ڈسٹرکٹ ہسپتال میں صورتحال ایسی ناگفتہ بہ تھی تو باقی شہروں، قصبات اور دیہات میں سرکاری ہسپتالوں اور بنیادی صحت مراکز(BHUs) کا کیا حال ہوگا؟

بدقسمتی سے حکومتوں کی توجہ چند بڑے شہروں کے بڑے ہسپتالوں ہی کی طرف رہی تھی( اگرچہ یہاں بھی صورتحال چند اں قابلِ رشک نہیں تھی۔ ) دس بارہ کروڑ آبادی کے صوبے میں صحت کے شعبے میں مسائل کا انبار تھا، جن سے نمٹنے کے لیے دوررس اقدامات پر مشتمل بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت تھی۔ یہی احساس تھا جو محکمہ صحت پنجاب کی دو حصوں میں تقسیم کا باعث بنا۔

(۱) پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ

(۲) سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن۔

اول لذکر کی ذمہ داری لاہور سے ہمارے ہونہار نوجوان ایم پی اے خواجہ عمران نذیر کے سپرد ہوئی۔ ثانی الذکر کے نگران خواجہ رفیق شہید کے صاحبزادے، " نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو" سلمان رفیق قرار پائے۔

پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ میں صوبے کے 26 ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال، 125 تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال، 310 رورل ہیلتھ سنٹر اور 2500 سے زائد بنیادی صحت کے مراکز ( BHUs) تھے۔ مرض سے پہلے کے احتیاطی اور انسدادی(Preventive) اقدامات بھی اسی شعبے میں آتے۔ (ا س میں ملیریا، ہیپاٹایٹس، اور ڈینگی سمیت سب امراض شامل تھے۔ )

سرکاری میڈیکل کالج اور ان سے ملحقہ بڑے ہسپتال( مثلاً لاہور کا میوہسپتال، سروسز اور جناح ہسپتال، راولپنڈی، فیصل آباد، ساہیوال، سیالکوٹ، ملتان، گوجرانوالہ اور بہاولپور کے ٹیچنگ ہسپتال) خواجہ سلمان رفیق کے سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن میں شامل تھے۔

محکمہ صحت کی زبوں حالی دیکھی نہ جاتی، جس کے لیے مکمل بحالی"(Revamping) کی فوری اور اشد ضرورت تھی اس کے لیے 30 ارب روپے کا ڈویلپمنٹ(ترقیاتی) بجٹ رکھا گیا۔ صوبے کے تمام ڈسٹرکٹ ہسپتالوں، پندرہ تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتالوں سے اس عمل کا آغاز ہوا۔ (دیگر ہسپتالوں کی 85 ایمرجنسی وارڈز کیRevamping بھی اس میں شامل تھی۔ )اس عمل میں ہسپتالوں کی عمارات کی وسیع پیمانے پر تعمیرومرمت اور ضروری طبی سہولتوں (Missing Facilities) کی فراہمی بھی تھی اور ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل سٹاف کی کمی کا ازالہ بھی۔

ایمرجنسی وارڈز کے لیے الگ میڈیکل آفیسرزر کھے گئے۔ مریضوں کے لیے آرام دہ بستروں کی فراہمی، ICUاور CCU کا قیام اور بعض ہسپتالوں میں برن یونٹس کااہتمام، ڈائیلسز سہولتوں کی فراہمی جس کے لیے جدید ترین آلات ہنگامی بنیادوں پر ہوائی جہازوں سے بھی منگوائے گئے کہ مریضوں کی زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی تھا، CTسکین، فزیوتھراپی کی سہولتیں، جدید آلات کے ساتھ دانتوں کے امراض کا شعبہ، ہر ڈسٹرکٹ ہسپتال میں مردہ خانہ، ہسپتال کی Toxic (زہریلی ) Waste کے خاتمے کے لیے عالمی معیار کے پلانٹس کی تنصیب شامل تھی۔ (یہ" ویسٹ" ماضی میں مختلف امراض کا باعث بنتی رہی تھی۔ )

Revamping کے اس عمل کے لیے 12 ارب روپے کے نئے آلات خریدے گئے۔ پروکیورمنٹ کا یہ سارا عمل قوائدو ضوابط کے مطابق نہایت صاف اور شفاف طریقے سے ہوا اور اس میں بھی 5 ارب کی بچت کی گئی۔ بعض انتظامی امور کے لیے2000 نوجوان بچے، بچیوں کا تقرر کیا گیا۔

Revampingکے اس عمل میں "کلینکل سائڈ" پر جو اقدامات کیے گئے، ان میں 300 سینئر( سپیشلسٹ)ڈاکٹرز، 7، 000 (میل اور فی میل)ڈاکٹرز، 500 ایمرجنسی میڈیکل آفیسرز، صحت سے وابستہ دیگر سہولتوں کے 1600 ماہرین(الائیڈ ہیلتھ پروفیشنلز)، فارماسسٹس اور فزیوتھراپسٹس کا تقررشامل تھا۔ یہ سارا عمل این ٹی ایس(NTS) کے ذریعے، میرٹ کی بنیاد پر ہوا۔ 6 دیگر شعبے "آئوٹ سورس" کر دیے گئے۔ ان میں صفائی، سیکیورٹی، مینٹی نینس، "ویسٹ مینجمنٹ" اور جنریٹر شامل تھے۔ مریضوں کے بستروں کی چادروں اور تکیوں کے غلاف وغیرہ کی دھلائی کے لیے لانڈری کا پراجیکٹ بھی شروع کیا گیا لیکن حکومت کی تبدیلی کے باعث یہ نا مکمل رہ گیا۔ (میری اطلاع کے مطابق، ہمارے دیگر منصوبوں کی طرح اس پر بھی کام ٹھپ ہو چکا ہے۔ )

کلینیکل(Clinical) سائڈ میں پتھالوجیکل لیبارٹریاں، CT سکین، میڈیکل گیس(آکسیجن) کی فراہمی کو آئوٹ سورس کیاگیا۔ اوراسے ایک مرکزی نظام کے تحت بنیادی مراکزصحت(BHUs) کی سطح تک پہنچادیا گیا۔ دیہی علاقوں کے لیے700 موبائل الٹراسائونڈ مشینوں کی فراہمی اس کے علاوہ تھی جس کے لیے لیڈی ہیلتھ وزیٹرزکی خصوصی تربیت کا اہتمام کیا گیا۔

ڈسٹرکٹ ہسپتالوں سے بنیادی مراکز صحت تک، ہنگامی ضرورت کے تحت اخراجات کے لیے روائتی سرخ فیتے کا خاتمہ کر دیا گیا۔ اس کے لیے ہیلتھ کونسلز قائم کی گئیں۔ مختلف سطح پر مختلف سرکاری آفیسرز ان کے نگران ہوتے۔ مثلاً ڈسٹرکٹ ہسپتال کی ہیلتھ کونسل کا سربراہ ڈپٹی کمشنر اور تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں کی کونسل کا سربراہ ایک اسسٹنٹ کمشنر ہوتا۔ فوری( اور ہنگامی) ضرورت کے لیے ان کے پاس Petty Cash ہوتا۔ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کے لیے یہ رقم ڈیڑھ کروڑ روپے، تحصیل ہیڈکوارٹر کے لیے پچاس لاکھ، رورل ہیلتھ سنٹر کے لیے دس لاکھ، اور بنیادی مرکز صحت ( BHU) کے لیے تین لاکھ تھی۔

خواجہ سلمان رفیق کی سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن کی کارکردگی الگ تفصیل چاہتی ہے۔ آج کی نشست میں اتنی سی بات بتاتا چلوں کہ چلڈرن ہسپتال لاہور میں جدید ترین آلات اور سہولتوں کے ساتھ 500 بستروں کا اضافہ، میو ہسپتال لاہور میں سٹیٹ آف دی آرٹ سرجیکل ٹاور ( اس سے پہلے یہ محض سنگ و خشت کا ڈھانچہ تھا، جوہمیں ملا) سروسز ہسپتال لاہور میں 350 بستروں کا نیا OPD، اور جنرل ہسپتال لاہور میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز (PINS) کا قیام (نئے ہسپتالوں کی تعمیر ایک الگ موضوع ہے جس پر بعد میں بات کریں گے)

یہاں ایک اور تاریخ ساز اقدام کا ذکر بھی ہوجائے۔ ڈاکٹر لوگ ( ان میں خواتین و حضرات دونوں شامل تھے) بڑے شہروں سے دور قصبات اور دیہات میں کام سے گھبراتے تھے۔ ہم نے اس حوالے سے ان کے لیے کشش(Attraction) کا خصوصی انتظام کیا۔ یہ میڈیکل میں سپیشلائزیشن کے لیے داخلے کے، ذاتی پسند نا پسند اور سفارش پر مبنی (Pick and Choose) کے پرانے نظام کا خاتمہ تھا۔

نئے نظام میں بڑے شہروں سے باہر ایک مخصوص مدت کے لیے خدمات انجام دینے کا کیا اضافی نمبر رکھ دیئے گئے(جو میرٹ کی تیاری میں بہت کام آتے) یہ سنٹرلائزڈ سسٹم تھا جس میں کسی اقربا پروری کا کوئی امکان باقی نہ رہا۔ اب ڈاکٹر ( خواتین و حضرات ) کی بھر پور خواہش ( اور کوشش )ہوتی کہ انہیں بڑے شہروں سے باہر خدمات کا موقع مل جائے جس سے سپیشلائزیشن کے لیے ان کا میرٹ بہتر ہو جائے گا۔ یوں قصبات اور دیہات تک عوام کو سرکاری ڈاکٹروں کی خدمات دستیا ب ہوگئیں۔

محکمہ صحت کے حوالے سے کئی اور کہانیاں بھی ہیں۔ قصور کی زہرہ بی بی کی کہانی، لاہور کے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں 100 افراد کی موت اور اس کے پس پردہ حقائق۔۔ عالمی معیار کی ٹیسٹنگ لیبارٹری کا قیام(اور اس کے خلاف مافیا کی سازشیں ) مریضوں کی ایک سے دوسرے ہسپتال میں منتقلی کے لیے ایمبولینس کا جدید اور برق رفتار نظام، 1122 میں نئے اضافے۔۔۔ اور وہ PKLI کا المیہ بھی، یہ سب آئندہ)