ایک صاحب بظاہر حلیے سے عام آدمی معلوم دیتے ہیں مگر مزاج کے اعتبار سے نہایت سنجیدہ، بردبار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، انھوں نے قرآن و حدیث کے موضوعات پرکئی کتابیں بھی لکھی ہیں۔
ایک روز مسجد میں نماز کے بعد ان کی ملاقات، ایک بزرگ سے ہوئی موصوف کے ساتھی نے ان کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ فلاں صاحب ہیں اور قرآن و حدیث پر کئی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ بزرگ نے موصوف کی طرف دیکھا کہ ان کا عام سا حلیہ ہے، سادہ سا لباس پہنے ہوئے ہیں اور داڑھی بھی ایک مشت کے ناپ سے کم ہے۔
بزرگ نے ان کی طرف دیکھ کر جواباً عرض کیا کہ " صورت سے تو ایسا معلوم نہیں ہوتا" بزرگ کی زبان سے یہ توہین آمیز تبصرہ سن کر موصوف کو سخت غصہ آگیا، تاہم انھوں نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھا اور نشتر برداشت کرلیا، پھر لمحہ بھر چپ رہنے کے بعد ان بزرگ کی طرف دیکھ کر بولے کہ "آپ کا ارشاد بجا ہے! مگر اللہ تعالیٰ کبھی کبھی گناہ گاروں سے بھی اپنا کام لے لیتے ہیں " ایسا مدلل، پرمغز، سنجیدہ اور ٹھنڈا جواب سن کر وہ بزرگ یکدم چپ ہوگئے اور خاموشی کے ساتھ واپس چلے گئے۔
اس مثال سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دانش مندی، حکمت اور بصیرت کا تقاضا یہ ہے کہ اشتعال انگیز بات سن کر بھی آدمی کو تحمل و برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دلیل سے جواب دینا چاہیے۔ آپ عام زندگی میں دیکھیے کہ جب بھی کوئی آدمی آپ پر تنقید کرتا ہے اور آپ کے خلاف بالمشافہ کوئی سخت بات کہہ دیتا ہے تو آپ کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے اور ایسی منتقمانہ و جذباتی کیفیت آپ پر طاری ہو جاتی ہے کہ آپ کا دل چاہتا ہے کہ تنقید کرنیوالے کو ایسا سبق سکھائیں کہ ساری زندگی یاد رکھے، مگر جذبات سے مغلوب ہوکر دست و گریباں ہونا غیر مہذب رویہ ہے۔
ادب و احترام کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کڑوے گھونٹ پی جائیں۔ جو جھٹکا آپ کو لگا ہے اس کا ہو بہو جواب دینے کے بجائے برداشت کر لیں تو آپ کو ایک نئی قوت مل جائے گی۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کڑوے الفاظ کا جواب میٹھے الفاظ سے دینا زیادہ سخت اور اثرانگیز جواب ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ سب سے برا جواب وہ ہے جس میں سوال کرنیوالا اور جواب دینے والا دونوں آپس میں الجھ پڑیں اور پھر دونوں اس طرح سے الگ ہوں کہ کوئی فریق بھی ہار ماننے کے لیے تیار نہ ہوا تھا۔ اور سب سے اچھا جواب یہ ہے کہ جب جواب دینے والا ایسا سوچا سمجھا ہوا مدلل جواب دے کہ جس کے بعد سوال کرنیوالے کی سمجھ ہی میں نہ آئے کہ اس کے آگے وہ کیا کہہ سکتا ہے۔
دین اسلام کی تعلیمات میں حسن اخلاق کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ نبی کریمؐ کی سیرت و کردار ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ آپؐ نے اپنے نفس سے تین چیزیں بالکل دور کردی تھیں اول بحث و مباحثہ، دوم ضرورت سے زیادہ بات کرنا اور سوم جو بات مطلب کی نہ ہو، اس میں پڑنا۔ بعینہ دوسروں کے متعلق بھی تین باتوں سے پرہیز کرتے تھے اول کسی کو برا نہیں کہتے تھے، دوم کسی کی عیب گیری نہیں کرتے تھے، سوم کسی کے اندرونی حالات کی ٹوہ میں نہیں رہتے تھے۔ اس پس منظر میں ریاست مدینہ کے دعویدار عمرانی حکومت کے پیروکاروں کا جو طرز عمل جمہوریت کے سب سے مقدس ایوانوں قومی و صوبائی اسمبلیوں میں نظر آ رہا ہے، کیا وہ قابل تعریف قرار دیا جاسکتا ہے؟
کیا ہماری آنیوالی نسلیں اپنے اکابرین کے ان رویوں و کردار کی تقلید کرنا پسند کریں گی؟ کیا اراکین اسمبلی کے غیر مہذب، غیر پارلیمانی اور غیر شائستہ طرز عمل سے مل و قوم کا نام اندرون اور بیرون وطن روشن ہوا ہے؟ کیا ہمارے اسلاف کی یہی تربیت ہے؟ کیا ہم نے اپنے بڑوں سے یہی اخلاق سیکھے ہیں؟ کیا واقعی گالی دینا پنجاب کی ثقافت کا حصہ ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر بابا بلھے شاہ، بہاؤالدین زکریا، شمس الدین سبزواری اور داتا صاحب کی تعلیمات میں یہ ثقافت نظر کیوں نہیں آتی؟
ہمارے اکابرین سیاست کا المیہ یہ ہے کہ ان میں صبر، تحمل، برداشت اور دلیل سے بات کرنے کی صلاحیتوں کا گہرا فقدان ہے۔ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اراکین اسمبلی نے تہذیب و شائستگی کا دامن چھوڑ دیا ہے۔ اس مقدس ایوان میں جہاں اللہ اور رسول کے ناموں کو کندہ کیا گیا ہے، کلمہ طیبہ کا نقش بھی کھدا ہوا ہے، جہاں بانی پاکستان قائد اعظم کی تصویر بھی آویزاں ہے، اسی چھت کے نیچے اراکین اسمبلی نے بجٹ اجلاس کے موقع پر پہلے وزیر خزانہ کی تقریر کے دوران بعدازاں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی تقریر کے دوران جو طوفان بدتمیزی برپا کیا وہ اندرون و بیرون ملک جگ ہنسائی کا سامان بنا۔
اخباری رپورٹوں کے مطابق مختلف ممالک کے سفارت کاروں نے اس واقعے کی رپورٹ بنا کر بھیجی جو وہاں کے مختلف اخباروں کی زینت بنی اور پاکستان کے "وقار" کا آئینہ ٹوٹ کر بکھر گیا۔
ابھی قومی اسمبلی میں ہلڑ کی دھول بیٹھی بھی نہ تھی کہ بلوچستان اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے موقع پر اراکین اسمبلی نے احتجاج کا جو طریقہ اختیار کیا بہت تکلیف دہ تھا۔ اپوزیشن نے اسمبلی کے گیٹ کو تالے لگا دیے۔ وزیر اعلیٰ اور حکومتی اراکین اسمبلی کو بہ زور طاقت اسمبلی کے اندر جانے سے روکنے کی کوشش کی گئی تو پولیس کو ایکشن لینا پڑا۔ ہنگامہ آرائی اور ہلڑ میں تین اراکین اسمبلی زخمی ہوئے۔ وزیر اعلیٰ پر جوتا اور گملا پھینکا گیا۔
اراکین کے یہ منفی رویے ہماری ذہنی و اخلاقی پستی کی علامت ہیں۔ یہ لوگ مستقبل کے معمار نوجوانوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔ دنیاداری سے دین داری تک ہماری اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔ وہ حضرات جو دین کا مینارہ نور ہوتے ہیں اور جس پاکیزہ مقام یعنی مسجد و مدرسہ میں بیٹھ کر وہ علوم دین کی تعلیم دیتے ہیں اسی مقدس جگہ پر اگر وہ ہوس کی پاتال میں گر پڑیں پھر سوال تو اٹھتے ہیں پر جواب کون دے گا؟ علامہ اقبال نے غلط نہیں کہا تھا کہ
ہم تو مائل بہ کرم ہیں، کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کیسے؟ رہرو منزل ہی نہیں
تربیت عام تو ہے، جوہر قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں
مفتیان دین کے مضاربہ اسکینڈل کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔ یہ تو سوشل میڈیا کا کرشمہ ہے کہ ایسے دلخراش چند ایک واقعات منظر عام پر آ جاتے ہیں۔ وگرنہ سفید پوش عزت دار گھرانے عفتیں گنوا کر گہری خاموشی کی چادر اوڑھ کر لبوں کو سی لیتے ہیں کہ بدنامی کا داغ زندگی بھر کی رسوائی بن جاتا ہے۔
ارباب بست و کشاد کو اپنی گم گشتہ تہذیبی روایات کا احیا کرنا ہوگا، حقیقی ثقافتی رویوں کو پروان چڑھانا ہوگا، صبر، تحمل، برداشت اور دلیل سے بات کرنے کا سبق یاد کرنا ہوگا، بقول اقبال۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا