کورونا کی سنگین صورتحال کے با وجود پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار قدرے اطمینان بخش رہی ہے، لیکن حالیہ تجارتی خسارے میں اضافہ معاشی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے، ملکی درآمدات قابو میں نہیں ڈالر بھی بڑھتا جا رہا ہے امپورٹ ایکسپورٹ میں نسبتاًمعمولی اضافہ معیشت کا بھرکس نکال سکتا ہے امپورٹس میں لگزری گاڑیوں کی اندھا دھند امپورٹس ہو رہی ہیں۔ ادارہ شماریات کے مطابق اس مالی سال کے پہلے دو ماہ میں 12 ارب 6 کروڑ ڈالر کی امپورٹ ہو ئی جبکہ 4 ارب 58 کروڑ ڈالر کی ایکسپورٹ ہو ئی۔ پہلے مالی سال کے پہلے دو ماہ میں 7 ارب 49 کروڑ ڈالر کا تجارتی خسارہ ہوا ہے اس عرصہ میں پچھلے مالی سال کے مقابلے میں ایکسپورٹ میں 27 فیصد اضافہ ہوا لیکن یہ تشویش کی بات ہے امپورٹس پچھلے سال سے 72.6 فیصد بڑھ چکی ہیں یہی وجہ ہے کہ پچھلے مالی سال کے ابتدائی دو ماہ میں تجارتی خسارہ3 ارب 40 کروڑ تھا جو اس سال تقریباً 120 فیصد اضافے سے7 ارب 49 کروڑ ڈالر ہو چکا ہے، برآمدات 27.59 فیصد اضافے سے 4 ارب 57کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی جبکہ گزشتہ سال 3 ارب 58کروڑ ڈالر کی برآمدات کی گئی تھیں۔ اسی طرح درآمدات 72.59فیصد اضافے سے 12 ارب 6 کروڑ ڈالر رہیں جبکہ گزشتہ سال 6 ارب 99کروڑ ڈالر کی درآمدات کی گئی تھیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال کورونا کی گرفت بہت شدید تھی اس دوران امپورٹس نہیں ہو رہی تھیں اس چیز کو اس تناظر میں بھی دیکھنا چاہئے۔
پچھلے ماہ اگست میں پاکستان میں تاریخی 4 ارب 22 کروڑ ڈالر کا ریکارڈ تجارتی خسارہ ہوا اس سے قبل جون 2018 میں 3ارب 77 کروڑڈالر ملکی میں تجارتی خسارے کا بلند ترین ریکارڈ تھا۔ وزیر اعظم عمران خان اس تجارتی خسارے پر پریشان ہیں اور اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے کوششیں کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم اکثر کہتے ہیں کہ مسئلہ فارن ایکسچینج کا ہے جو ہم دنیا کو ایکسپورٹ کرتے ہیں اور جو دنیا سے خریدتے ہیں اس میں بہت بڑا فرق ہے یہ ہمارے لئے چیلنج ہے وزیر اعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ جیسے جیسے ہماری اکانومی بڑھتی جا رہی ہے اس سے پریشر ہمارے کرنٹ اکائونٹ پر پڑے گا ہمارے ملک سے زیادہ ڈالر باہر جانا شروع ہو جائینگے اس سے ہم نے بچنا ہے۔ کرنٹ اکائونٹ کا مسئلہ اس لئے بھی آ رہا ہے کہ مشینیں امپورٹ کی جا رہی ہے ٹیکسٹائل مشینری زیادہ امپورٹ ہو رہی ہے، مزید فیکٹریاں لگ رہی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے اور حکومت کی وضاحت میں وزن بھی ہے کہ اس امپورٹ بل میں اضافے کی بڑی وجہ پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں، پاکستان کو کورونا ویکسین بھی خریدنی پڑی، گندم کپاس کی بھی درآمد ہو رہی ہے۔
درآمداتی بل میں اس اضافے کی بڑی وجہ پیٹرولیم مصنوعات، گندم، سویابین، مشینری، خام مال، کیمیکلز، موبائل فونز، کھاد، ٹائرز، اینٹی بائیوٹکس اور ویکسین کی درآمد ہے، گزشتہ ماہ ڈیوٹی فری امپورٹ میں سالانہ بنیاد پر 73.78 فیصد اور ڈیوٹی کے ساتھ درآمدات میں 94.84 فیصد اضافہ ہوا، یہ واضح کرتا ہے کہ ڈیوٹی فری درآمدات میں اضافے کی بڑی وجہ زیادہ تر خام مال اور نیم تیار مصنوعات ہیں جس کو گزشتہ برس کے بجٹ میں ڈیوٹیز اور ٹیکس سے استثنیٰ دے دیا گیا تھا۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ جولائی اور اگست میں 9 ہزار 200 سے زائد گاڑیاں امپورٹ کی گئیں یہ پچھلے سال کے مقابلے میں تین سو فیصد زائد ہے، تعجب ہے کہ 9200میں سے 3300 گاڑیاں برینڈ نیو تھیں جبکہ پچھلے سال216 نئی گاڑیاں امپورٹ کی گئیں اسٹیٹ بنک کی قرض اسکیم کے تحت600 سے زائد صنعتی و کاروباری یونٹ کو435 ارب روپے قرض دیے گئے، اس اسکیم کے تحت منگوائی گئی درآمدی مشینری کی ادائیگیاں حالیہ چند ماہ میں کی گئی ہیں جس کی وجہ سے ایکسچینج ریٹ کا دبائو بڑھا اور تجارتی خسارے میں اضافہ ہوا، یہی وجہ ہے کہ ڈالر ایک سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ ڈالر مہنگا ہونے سے پاکستان پر بیرونی قرضوں کا بوجھ بھی بڑھ گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق حکومت نے بڑی کوشش کر کے کرنٹ اکائونٹ خسارے پر قابو پایا تھا جس طریقے سے کرنٹ اکائونٹ کو بہتر کرنے کی کوشش کی اس سے بہت سے مسائل پیدا ہوئے تھے، ان تمام مسائل کو قوم نے برداشت کیا لیکن اب دیکھا جا رہا ہے ہم پھر اسی طرف جا رہے ہیں جہاں 2017یا2018 میں تھے۔
ایک بڑی عجیب بات ہے کہ ایک زرعی ملک گندم باہر سے منگوا رہا ہے، حکومت یہ بھی کہہ رہی ہے کہ اس سال گندم کی ریکارڈ پیدا وار ہو ئی ہے۔ اب ہم کپاس بھی امپورٹ کر رہے ہیں جبکہ یہی ملک تھا کہ گندم بھی نہیں منگوانا پڑتی تھی نہ ہی کپاس منگوانا پڑتی تھی۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان 13 سے 14 ملین بیلز کاٹن پیدا کرتا تھا جو اب کم ہو کر 6سے7 ملین بیلز ہو گئی ہیں۔ یہ پچھلے کئی سالوں سے چل رہا ہے کسی نے بھی زراعت کی ترقی کی طرف توجہ نہیں دی۔ کسی وزیر اعظم نے کا ٹن کے کاشتکاروں کو بلایا ہو یا ان کے مسائل سنے ہوں۔ ان سے پوچھا جائے کہ اب کیا ہو گیا کپاس کی فصل کیوں کم ہو گئی جب ہم سی پیک میں آئے تو چین نے اسپیشل اکنامک ژون بنارہا تھا، ٹیکسٹائل سٹی بنا رہا تھا اس کے لئے را کاٹن پاکستان سے جانا تھی ہمیں تو 14 ملین بیلز سے 20سے22 ملین بیلز تک جانا تھا لیکن ہم الٹا کم پیداہار کرتے جا رہے ہیں۔ جب بھی اکنامک سر گرمیاں تیز ہونگی تو امپورٹ تو بڑھیں گی تمام ملکوں کا انحصار امپورٹ پر ہوتا ہے لیکن بہت سی ایسی چیزیں بھی امپورٹ کی جا رہی ہیں جو پاکستان میں نہ بھی آئے تو ہمیں نقصان نہیں، مثلاً کیا اس ملک کو مہنگی گاڑیاں امپورٹ کرنی چاہیئں، جس ملک میں ڈالر کم ہوں۔ جب موبائل فون پاکستان میں بننے شروع ہو گئے ہیں تو کیا موبائل فون امپورٹ کرنے ضروری ہیں حالانکہ موبائل فون بن نہیں رہے اس کے پارٹ اسمبل کر رہے ہیں جب مہنگے پارٹ اسمبل کرینگے تو امپورٹ بل تو بڑھے گا۔ کیا یہ ہمیں زیب دیتا ہے۔
ماہرین کے مطابق صرف 10 سے 12 آئیٹم پر مین فوکس کریں۔ ان کے نہ آنے سے ملک میں کوئی قیامت نہیں آ جائے گی۔ ان اشیاء کو بین کردیں اس میں ڈبلیو ٹی او کی اجازت ہے کہ جب کوئی ملک بیلنس آف پے منٹ کا شکار ہو وہ ملک چیزوں کو ٹائم بائونڈ کیلئے بین کرسکتا ہے۔ لیکن ہم یہ کام نہیں کر رہے ہیں حالانکہ ہم آسانی سے6 سے7 بلین ڈالر بچا سکتے ہیں حکومت اجلاس پر اجلاس کر رہی ہے، باتیں کر رہی ہے لیکن کوئی ایکشن نظر نہیں آ رہا، اب وقت ہے، ایکشن کا جتنا وقت گزرتا جائیگا مشکلات بڑھتی جائینگی۔ دوسری جانب ہمیں ایکسپورٹ پر توجہ دینی ہو گی ہماری ایکسپورٹ 25.6 بلین ہوئی اس میں حکومت کا کوئی کمال نہیں ہے یہ اللہ کی طرف سے ہے حالانکہ ہم نے کوانٹٹی کم بیچی ہے لیکن انٹرنیشنل مارکیٹ میں قیمت زیادہ تھی اس لئے ایکسپورٹ بل بڑھ گیا اگر ہم اتنا ہی بیچتے جتنا پچھلے سال بیچا تھا آپ سوچیں کہ ہماری ایکسپورٹ 28 بلین کو کراس کر جاتی۔ ایکسچینج ریٹ کے ذریعے امپورٹ کو کم کرنے سے منفی نتائج نکلیں گے اور یہ 23 ویں آئی ایم ایف پرو گرام کی طرف لے جانے کی تیاری ہو رہی ہے۔