پاکستانی معیشت کی ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ ملک میں امپورٹ ریپلیسمنٹ ہو، اب پاکستان میں ایسا ماحول بن رہا ہے، اسمگلنگ میں کمی آ رہی ہے، انڈر انوائسنگ میں بھی کمی آ رہی ہے۔ پاکستان میں اب خود وہ اشیاتیار ہوں جن کی پاکستان میں اسمگلنگ ہو تی ہے یا جو انڈر انوائسنگ کے ذریعے پاکستان میں لائی جاتی ہیں اس سلسلے میں کئی اہم اقدامات ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں صنعتی ترقی کے اچھے نمبرز سامنے آ رہے ہیں۔ اس سال خاص طور پر صنعتکاروں نے بنکوں سے ریکارڈ سرمایہ کاری حاصل کی ہے اور اس حوالے پاکستان میں ایک بڑی افزائش دیکھنے میں آ رہی ہے۔ آٹو انڈسٹری میں انقلاب کا سا سما ہے۔ نئے آٹو پلانٹ لگنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روز گار کے نئے مواقع پیدا ہونگے اور زیادہ ٹیکسز ملیں گے۔ ایک اور اہم صنعت جہاں بہت تیزی سے ترقی ہو رہی ہے، وہ موبائل فون انڈسٹری ہے۔ ملک میں موبائل کے حوالے سے نئی پالیسی لائی گئی، مراعات لائی گئیں جس کے نتیجے میں ملک میں ڈیڑھ سے 2 ارب ڈالر کے موبائل فون اسمگل یا امپورٹ ہوتے تھے۔ اب وہ موبائل فون پاکستان میں بننے شروع ہو گئے ہیں اور اس حوالے سے روزانہ اچھی خبریں آ رہی ہیں۔ اب خبر یہ ہے کہ پاکستان میں تین نئی کمپنیاں اسمارٹ فون مینو فیکچرنگ پلانٹ لگا نے جا رہی ہیں، جس سے روز گار کے مواقع پیدا ہونگے اور ٹیکنالوجی میں ملک ایک قدم اور آگے بڑھے گا۔
بزنس ایکٹیویٹی میں مزید تیزی آئے گی اس سے حکومت کی آمدن میں اضافہ ہو گا۔ ان تین کمپنیوں میں سے ایک چینی کمپنی فیصل آباد میں ایک لاہور اور ایک کراچی میں موبائل فون بنانے کے پلانٹ قائم کرنا چاہتی ہے۔ کمپنی نے اس کا اعلان بھی کیا ہے اس پر ابتدائی کام بھی ہو گیا ہے۔ اس حوالے سے حکومتی کی پالیسیوں کا کریڈٹ دینا چاہئے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذر یعے مقامی طور پر موبائل فون کی تیاری پر ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کردیا گیا اس کا مقصد موبائل فون کی در آمدات میں کمی لا کر مقامی سطح پر موبائل کی تیاری کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ اس سے قبل مقامی سطح پر موبائل مینوفیکچرنگ پر ٹیکس زیادہ تھا جس کی وجہ سے درآمدی فون سستے پڑتے تھے۔ یہ پالیسی موجودہ حکومت نے ختم کردی، ملک میں پہلے بھی فون تیار کئے جا رہے ہیں تا ہم حکومت کی جانب سے ٹیکس میں حالیہ رعایت اور نئی کمپنیوں کے آنے سے ملک میں اچھی مقابلہ سازی کا رجحان ہو گا، جس کا فائدہ آخر کار صارف کو ہی ہو گااور پھر پاکستان کی معیشت کو ہو گا۔ پاکستان ہر سال اربوں ڈالر خرچ کر کے مہنگے اسمارٹ فون درآمد کرتا تھا، اب یہ صورتحال تبدیل ہو گی۔ ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ جولائی 2020ء سے جنوری2021ء تک موبائل فون کی درآمدات پر ایک ارب 13 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا زر مبادلہ خرچ ہوا۔ یہ شرح گذشتہ مالی سال کے مقابلے میں 49.32فیصد زیادہ تھی گویا کہ پاکستان کا بڑا سرمایہ موبائل فون کی امپورٹ میں جا رہا ہے۔ اس میں ایک بڑا حصہ اسمگلنگ کا ہوتا تھا۔
پاکستان میں اس وقت 16 کروڑ 50 لاکھ موبائل کنکشن ہیں۔ پچھلے ایک سال میں تقریباً 6.2فیصد اضافہ ہوا ہے گذشتہ جنوری سے اس جنوری تک 96لاکھ نئے کنکشن حاصل کئے گئے اور اس وقت پاکستان میں 75 فیصد آبادی کے پاس موبائل فون ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دو سال قبل جب ہماری حکومت آئی تو ہم نے نوٹس کیا کہ دنیا کے اندر جو بھی ایمرجنگ اکانومی ہیں ان میں اسمارٹ فون کی ایکسپورٹ اور پروڈکشن معیشت کا بہت بڑا حصہ تھی، جیسے ویت نام کے اندر آج 45 ارب ڈالر کی صرف سمارٹ فون کی اور موبائل فون کی ایکسپورٹ ہے، جو انکی معیشت کا بہت بڑا حصہ ہے۔ پاکستان میں 70 فیصد موبائل سمگل شدہ فروخت ہو رہے تھے۔ اسکے لئے حکومت نے ڈیوائس ویری فیکیشن سسٹم شروع کیا اس سے فون کی اسمگلنگ ختم ہو گئی۔ اس سے ملک کو جو ٹیکس ریونیو آتا ہے وہ بھی دگنا یعنی 20 ارب سے بڑھ کر 55 سے60 ارب تک ہو گیا۔ ایک سال میں جب حکومت نے اسمگلنگ ختم کی تو لوگوں کا رجحان لوکل موبائل کی طر ف ہوگیا اس کے لئے حکومت نے لوکل موبائل مینو فیکچرنگ کا سسٹم شروع کرایا ٹیکس کم کیا، اب بین الاقوامی فرم لوکل فرموں کے ساتھ مل کر پارٹنر شپ کرتی نظر آ رہی ہیں اور اچھے موبائل فون بننے والی کمپنیاں تیزی سے ملک میں کام شروع کر رہی ہیں۔ یہ کمپنیاں نہ صرف لوکل کمی پوری کرینگی بلکہ برآمدبھی کرینگی۔ آنے والے برسوں کے اندر پاکستان کی ایکسپورٹ کا ایک بہت بڑا حصہ یہ موبائل فون اور اسمارٹ فون ہونگے۔ ابھی جو برانڈ پاکستان میں کام کر رہے ہیں، انکی گلوبل مارکیٹ دیکھی جائے تو وہ ٹاپ 5 سے 10 میں شمار ہوتے ہیں۔
اسمارٹ فون کے اندر جو سب سے بڑا سیگمنٹ دنیا میں بکتا ہے، وہ انٹری لیول کا فون ہے۔ جس کی 200 سے 250 ڈالر کے درمیان قیمت ہے۔ سب سے زیادہ اسکی سیل ہے، وہ چند بڑے نام جو فون مینو فیکچر کرتے ہیں۔ وہ اب پاکستان میں اپنی بیس بنا رہے ہیں۔ کیونکہ اب جتنا ساز گار ماحول موبائل مینو فیکچرنگ کیلئے اس وقت پاکستان میں ہے، اتنا اس خطے میں اور کہیں نہیں ہے۔ بنک بھی اس پراجیکٹ کو منظور کر رہے ہیں۔ بنکوں نے نئی صنعتوں کیلئے 5 پرسنٹ کے حساب سے 350 ارب کے قریب سرمایہ دیا ہے۔ پرانی صنعتوں کو چالو کرنے کیلئے اس میں موبائل مینو فیکچرنگ والے بھی شامل ہے، اسکے علاوہ پاکستان کی جو آٹو مارکیٹ تھی، اس میں تین ہی نام تھے جنہوں نے پچھلے 30 سال سے اجاری داری بنا رکھی تھی، اب نئے برانڈ آرہے ہیں۔ ایک لوکل گاڑی بہت اچھی آرہی ہے۔ اتنے برانڈ پاکستان میں آ رہے ہیں، ڈیمانڈ اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ وہ پوری نہیں ہو پا رہی۔ سپلائی کم ہے ڈیمانڈ زیادہ ہو گئی ہے۔ اس مقابلہ کی و وجہ سے گاڑیوں کی قیمتیں بھی کم ہونگی، گاڑیاں بھی معیاری ہونگی۔ ایک وقت تھا جب پاکستان میں گاڑی کو لگژری تصور کیا جاتا تھا لیکن اب بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ ایک ضرورت بن گئی ہے۔ ملک میں گذشتہ دہائی میں متوسط طبقے میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملک میں گاڑیوں کی مانگ میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ البتہ گذشتہ کچھ عرصے سے ملکی معیشت میں گراوٹ اورڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کے باعث ملک میں گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔
تاہم حکومتِ کی جانب سے نئی آٹو پالیسی متعارف کروانے کے بعد ملک میں گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں نے کام شروع کیا۔ ان کمپنیوں کے مارکیٹ میں آنے سے پاکستانی صارفین کو سستی اور معیاری گاڑیوں کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ لیکن ان کمپنیوں نے متوسط طبقے کی توقعات کے برعکس مارکیٹ میں ایسی گاڑیاں متعارف کروا ئیں، جو چھوٹی گاڑی لینے والے صارفین کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔ پاکستان میں دو قسم کی گاڑیاں بہت بکتی ہیں ایک چھوٹی گاڑیاں جس کی قیمت دس لاکھ سے 17 لاکھ کی ہیں اور دوسری جو 30 لاکھ سے چالیس لاکھ کی گاڑیاں ہے۔ اس لیے نئی کمپنیاں 35، 40 لاکھ روپے تک خرچ کرنے والے صارفین کو مدنظر رکھ کر مارکیٹ میں گاڑیاں لا رہی ہیں۔ بھارت میں گاڑیوں کی قیمت انتہائی مناسب ہے وہاں عام فیملی گاڑی خرید سکتی ہے ضروت اس امر کی ہے موبائل فون ہوں یا گاڑیاں ایسی بنائی جائیں جنہیں سفید پوش طبقہ بھی آسانی سے خرید سکے۔